کالم

بھٹو رےفرنس کا تارےخی فےصلہ

بلاشبہ جسم فانی ہے لےکن روح کو حےات ہے ،نظرےہ کو حےات ہے ،کردار کو حےات ہے ۔تارےخ رقم کرنے والے بھی کئی ہوتے ہےں لےکن تارےخ مےں زندہ رہنے والے بہت کم ۔قائد عوام کا لقب پانے والے ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل اگر صرف اےک فرد کاقتل ہوتا تو شاےد تارےخ اسے فراموش کر دےتی مگر اےک سمجھی ،سوچی سازش کے تحت اےک فکر اور نظرےہ کو ختم کرنے کی کوشش کا آغاز ہوا ۔اےک اےسا لےڈر جس کو جےل کی کال کوٹھڑی سے پھانسی دے دی گئی اور جنازہ چند لوگوں نے پڑھا آخر کےونکر لوگوں کے دلوں مےں آج بھی زندہ ہے ۔دانشوران پاکستان کی اےک بڑی تعداد کہتی ہے کہ بلاشبہ پاکستان کی تارےخ مےں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے بعد اگر کسی سےاسی لےڈر کو اتنا چاہا اور سراہا گےا تو وہ صرف قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو تھے ۔ذوالفقار علی بھٹو کو 4اپرےل 1979ءکو تختہ دار پر لٹکا کر ےہ عہد تمام کےا گےا ۔ذوالفقار علی بھٹو کو اےک اےسے قتل کےس مےں تختہ دار پر چڑھا دےا گےا جس سے براہ راست ان کا کوئی تعلق نہےں تھا بلکہ وہ مشورے کے ملزم تھے ۔ےہ پاکستان کی چھہتر سالہ تارےخ کا واحد کےس ہے جس مےں مشورے کے ملزم کو پھانسی دی گئی ۔بھٹو کو جس مقدمے مےں پھانسی دی گئی اس کے بارے مےں کسی جج نے آج تک رےفرنس ےا نظےر دےنے کے لائق نہےں سمجھا ۔دراصل ےہ سب کچھ مقبول سےاسی رہنما کو منظر عام سے ہٹانے کےلئے کےا گےا ۔مولانا عبدالکلام آزاد نے 1922ءمےں مقدمہ بغاوت ہند مےں انگرےز مجسٹرےٹ کے سامنے اپنے اےک بےان مےں کہا تھا کہ ےہ عدالت کا کٹہرا بھی کےا عظےم الشان جگہ ہے جہاں حضرت عےسیٰ جےسے پےغمبر اور دوسری طرف معروف قاتل اور ڈاکو اےک ساتھ کھڑے کئے گئے ۔جہاں عےسیٰ کو مصلوب کرنے اور مجرم کو رہا کرنے کا حکم جاری ہوا ۔تارےخ مےں سب سے زےادہ ناانصافےاں مےدان جنگ کے بعد عدالتوں کے اےوانوں مےں ہوئےں لےکن وقت کی عدالت سے اوپر اےک تارےخ کی عدالت بھی ہے جس کا فےصلہ حتمی ہوتا ہے لےکن ےہ فےصلہ طوےل وقت کا متقاضی ہوتا ہے ۔پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپرےم کورٹ نے 45 سال پہلے اپنے ہی کئے گئے اس فےصلہ کو متنازعہ قرار دے دےا ہے جس مےں ذوالفقار علی بھٹو کو احمد رضا قصوری کے والد نواب احمد خان کے قتل کے مبےنہ جرم مےں سزائے موت سنائی گئی تھی ۔ ذولفقار علی بھٹو کا جرم شاےد ےہی تھا کہ انہوں نے وطن عزےز کے باسےوں کو دنےا کی معتبرترےن اقوام مےں لا کھڑا کےا ،آئےن دےا ،قادےانےوں کو غےر مسلم قرار دےا ،اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کےا ،90ہزار جنگی قےدی اور پانچ ہزار مربع مےل علاقہ بھارت سے واپس لےا ،اےٹمی پروگرام دےا ،پاسپورٹ بنےادی حق کے طور پر تسلےم کرتے ہوئے فراہم کےا ،عام آدمی کو شعور دےا ۔ذولفقار علی بھٹو پر جن حالات اور انداز مےں مقدمہ چلاےا گےا وہ آغاز سے ہی کافی مشکوک تھا ۔ےہ مقدمہ قوانےن کے مطابق سےشن کورٹ مےں چلانے کی بجائے لاہور ہائےکورٹ مےں چلاےا گےا ۔لاہور ہائےکورٹ نے منصوبے کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنا دی ۔اس فےصلے کے خلاف سپرےم کورٹ مےں اپےل دائر کی گئی ،وہاں بھی اسے بحال رکھا گےا ۔ےہی وجہ تھی دنےا کے ممتاز ماہرےن قانون نے اسے جناب بھٹو کا عدالتی قتل قرار دےا تھا جس کا مقصد فوجی ڈکٹےٹر جنرل ضےاءکی طرف سے بھٹو صاحب کو اپنے راستے سے ہٹانا تھا جن کی عوامی مقبولےت جنرل ضےاءکے اقتدار کےلئے بڑا خطرہ بن چکی تھی ۔دوسری طرف امرےکی سامراج بھی جنرل ضےاءکی پشت پناہی کر رہا تھا کےونکہ وہ بھٹو کی سامراج مخالف پالےسےوں سے خائف تھا ۔وہ بھٹو کی پاکستان کو اےٹمی قوت بنانے اور فرانس سے ری پرسےسنگ پلانٹ کے معاہدے پر بھی اپنی شدےد ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے جناب بھٹو کو عبرت ناک مثال بنانے کی دھمکی دے چکا تھا ۔ذوالفقار علی بھٹو نے موت کی کوٹھڑی مےں لکھی گئی آخری کتاب ”اگر مجھے قتل کےا گےا “ مےں سی آئی اے کی سازش کو بے نقاب کر دےا جو بھٹو کو پاکستان کے نہ صرف سےاسی منظر نامے سے ہٹانے بلکہ انہےں عبرت ناک مثال بنانے کےلئے تےار کی گئی تھی ۔ان تمام حالات مےں اعلیٰ عدلےہ نے حق و انصاف کا ساتھ دےنے کی بجائے اےک آئےن شکن ڈکٹےٹر کا ساتھ دےا اور قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر مہر تصدےق ثبت کر دی ۔اس عدالتی قتل کا اہم ترےن پہلو ےہ تھا کہ عوام کی عظےم اکثرےت نے ےک طرفہ رےاستی پروپےگنڈے کے باوجود اس عدالتی فےصلے کو تسلےم نہ کےا اور جناب بھٹو کو قاتل کی بجائے اےک قومی ہےرو کا درجہ دےتے رہے ۔عوام نے جناب بھٹو کی پھانسی کے 11سال بعد ہونے والے عام انتخابات مےں تمامتر رےاستی دھاندلی کے باوجود پےپلز پارٹی کو کامےابی دلوا کراس کا اظہار بر ملا کر دےا ۔اےک منتخب وزےر اعظم کو پھانسی دےنا معمولی عمل نہےں ۔مولوی تمےزالدےن سے لے کر جسٹس قےوم اور ماضی قرےب کے بہت سے مقدمات مےں کسی دباﺅ ،ترغےب ےا تعصب کی بنےاد پر انصاف سے رو گردانی کرنےوالے جج رےٹائرمنٹ کے بعد اپنے غلط فےصلوں پر اظہار افسوس کرتے رہے ہےں ۔22اپرےل 1980ءجسٹس منےر نے لاہور بار اےسوسی اےشن سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کےا کہ ان پر اس مقدمہ پر دباﺅ تھا ۔جسٹس نسےم حسن شاہ کا اپنی خود نوشت سوانح مےں بھی اس دباﺅ کا اعتراف کےا گےا ۔اس کے علاوہ نسےم حسن شاہ اےک ٹی وی انٹروےو مےں بھی اس دباﺅ کی اس بات کو تسلےم کر چکے ہےں ۔جناب ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے صرف45سال کے بعد آنے والے سپرےم کورٹ کے اس فےصلے نے اس حقےقت کو ثابت کر دےا کہ وقت کی عدالت کے اوپرتارےخ کی عدالت بھی ہوتی ہے ،45سال بعد سہی سپرےم کورٹ نے تارےخ کا قرض چکا دےا اور بھٹو صاحب کے مقدمہ پر آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت مےں 20 اپرےل 2017ءمےں جو رےفرنس بھےجا تھا اس پر فےصلہ دیدےا ۔صدارتی رےفرنس مےں پےپلز پارٹی اور قانونی ماہرےن نے پھانسی کے فےصلے کو اےک تارےخی غلطی قرار دےتے ہوئے اسے درست کرنے کا کہا تھا ۔ےہ بات تو طے تھی کہ آئےن اور قانون مےں کوئی اےسی شق موجود نہےں ہے جس کے تحت اس کےس کو دوبارہ سنا جا سکتا ےا اس پر نظر ثانی کی اپےل کر کے فےصلہ مےں کسی قسم کی کوئی تبدےلی پےدا کی جا سکتی ۔عدالت عظمیٰ کے معزز سربراہ جسٹس قاضی فائز عےسیٰ نے مختصر فےصلہ سناےا کہ24اکتوبر 1977ءسے 24 مارچ 1979ءتک ذوالفقار علی بھٹو کو دستور پاکستان کی متعدد شقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منصفانہ سماعت کے حق سے محروم رکھا گےا ،گوےا بالواسطہ طور پر تسلےم کر لےا گےا کہ بھٹو صاحب کو اس مقدمے مےں انصاف نہےں ملا اور ان کو ان کے بنےادی حق سے محروم رکھا گےا ۔اس کےس کے متعلق بھٹو صاحب نے اےک جملہ کہا تھا کہIt is not a trial of murder but it is a murder of trial,(ےہ قتل کا ٹرائل نہےں بلکہ ٹرائل کا قتل ہے )۔ کاش پاکستان کی تارےخ نظرےہ ضرورت کے تحت کئے گئے غلط فےصلوں سے داغدار نہ کی جاتی ۔بد قسمتی کہہ لےں کہ عدلےہ کی طرف سے نظرےہ ضرورت کے تحت بہت سے فےصلے آئے جن کے باعث پاکستان سےاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہوا ۔بھٹو کا قتل آج بھی ہماری جمہورےت ،سےاست اور ہماری عدالتوں پر اےک بڑا سوالےہ نشان ہے ۔سوال ےہ ہے کہ عدلےہ کے اس فےصلے کے بعد رےاست کے طاقتور ادارے اپنی غلطےوں سے سبق سےکھنے پر آمادہ ہو جائےں گے ۔اگر ذولفقار علی بھٹو کے وارثوں کو 1988ئ،1997ءاور2008ءمےں تےن بار وفاقی حکومتوں کی قےادت کے باوجود 45برس بعد ”انصاف“ ملتا ہے تو ہمارے جےسے عام بے وسےلہ شہری کی وطن عزےز مےں انصاف کے حصول کےلئے کےا حےثےت ہے ؟وہ تمام کردار جنہوں نے بھٹو شہےد کے عدالتی قتل کا منصوبہ تےار کےا اور اسے عملی صورت دی وہ تو اس دنےا مےں نہےں رہے ۔ان کا معاملہ تو اب اﷲ کے سپرد ہو چکا ہے ۔اب تو ےہی کہا جا سکتا ہے کہ ”گزشتہ را صلواة آئندہ را احتےاط“۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے