کالم

بہار انتخابات۔مصنوعی قوم پرستی اور سیاسی بقاء کی جنگ

سیاست کی کہانی آج سے نہیں ،صدیوں سے چلتی آرہی ہے۔ کہیں تو مثبت کرداروں کے اثرات صدیوں تک اقوام عالم کا وقار اور قدر ومنزلت قائم رکھتے ہیں اور کہیں مکروہ کردار سیاست کو محض ذاتی مفاد و عناد کیلئے استعمال کرکے قوموں کی ساکھ اور شناخت پر منفی اثرات مرتب کر تے ہیں ۔ بھارت میں بہار ایک بار پھر سیاسی ہنگامہ آرائی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ نومبر2025کے انتخابات محض اقتدار کی رسہ کشی نہیں بلکہ بیانیے کی جنگ میں بدل چکے ہیں۔ یہاں ترقی اور روزگارکی جگہ قوم پرستی،پاکستان مخالف نعروںاورمذہبی شناخت نے لے لی ہے ۔ بھارتی وزیر ِاعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے پہلگام واقعہ اور دہشت گردی کے خطرے کو انتخابی مہم کا مرکزی موضوع بنا دیا ہے، جیسے بہار کی سیاست اب قومی سلامتی کی فرنٹ لائن بن چکی ہو۔یہ بیانیہ نہ صرف انتخابی مہم کو جوش دیتا ہے بلکہ حکومتی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کا موثر حربہ بھی بن گیا ہے۔ بی جے پی کے جوشیلے جلسوں میں پاکستان کو بیرونی دشمن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، اور خود کو اس دشمن کے خلاف قوم کے محافظ کے طور پر۔ مگر زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ 2020میں کیے گئے ترقیاتی وعدے سڑکوں سے لے کر روزگار تک ،آج بھی ادھورے ہیں۔ آخری لمحے میں ان منصوبوں کے افتتاحات محض انتخابی مظاہرے کے سوا کچھ نہیں۔بی جے پی کا "وکاس”نعرہ بہار کی زمینی حقیقتوں سے متصادم دکھائی دیتا ہے۔ ریاست کا سرمایہ جاتی بجٹ 42,000 کروڑ روپے تک پہنچ چکا ہے، مگر انفراسٹرکچر اب بھی خستہ حال ہے۔ بے روزگاری 3.9 فیصد، اور شہری نوجوانوں میں یہ شرح 10.8 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ تقریبا 35 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے، اور 88 فیصد لوگ دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ تین کروڑ سے زائد رجسٹرڈ روزگار کے متلاشیوں میں نجی شعبے میں ملازمت کا تناسب صرف 1.9فیصد ہے، جب کہ قومی اوسط 11 فیصد سے زیادہ ہے۔ بہار کے لاکھوں نوجوان آج بھی روزگار کی تلاش میں دہلی، ممبئی اور پنجاب کی طرف نقلِ مکانی پر مجبور ہیں۔ایسے میں بی جے پی نے معاشی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے قوم پرستی اور خوف جیسی پرانی مگر کارگر حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ نیپال سے متصل 726 کلو میٹر طویل سرحدی علاقوں (کشن گنج، ارریہ، پورنیہ اور مدھوبنی )کو میڈیا میں "انتہا پسندی کے مراکز” کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ سرحد پار دراندازی اور دہشت گردی کے خدشات کو بڑھا چڑھا کر دکھایا جا رہا ہے تاکہ اعلی ذات کے ہندو ووٹروں میں قومی سلامتی کا جذبہ ابھارا جا سکے۔یہی وہ سیاست ہے جس نے بہار کے معاشرتی توازن کو خطرناک حد تک متزلزل کر دیا ہے۔ 2024 میں جہاں فرقہ وارانہ تشدد کے صرف سات واقعات رپورٹ ہوئے تھے، 2025 میں ان کی تعداد بڑھ کر پینسٹھ ہو چکی ہے۔ متاثرین کی اکثریت مسلمان، دلت اور عیسائی ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم سماجی انجینئرنگ کا نتیجہ ہے۔ بی جے پی منڈل بمقابلہ مندرکے پرانے بیانیے کو نئے انداز میں زندہ کر رہی ہے ۔ ایک طرف پسماندہ طبقات کے ووٹ جبکہ دوسری جانب مذہبی اکثریت کا اتحاد، جس کا مقصد محض اپوزیشن اتحاد کو تقسیم کرنا اور ووٹوں کے ریاضی کو اپنے حق میں بدلنا صاف نظر آرہا ہے۔بی جے پی اور جنتا دل(یونائیٹڈ)یعنی جے ڈی(U)کا اتحاد فی الحال عوامی ناراضی اور اندرونی اختلافات کا شکار ہے، تاہم چھوٹی جماعتوں (ہندستانی عوام مورچہ ایچ اے ایم اور راشٹریہ لوک جن شکتی پارٹی ،آر ایل جے پی)کی مدد سے اسے سہارا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر عوامی تاثر یہ ہے کہ این ڈی اے کی حکومت نے بہار کے تعلیم، صحت، روزگار جیسے بنیادی مسائل پر کوئی ٹھوس پیشرفت نہیں کی ۔ دوسری جانب اپوزیشن اتحاد، جس میں راشٹریہ جنتا دل ، کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتیں شامل ہیں ، اقلیتوں اور دلتوں کی سیاست میں فعال نظر آتا ہے لیکن آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی شمولیت نے اس اتحاد کیلئے نئی مشکلات پیدا کی ہیں۔اسد الدین اویسی کی جماعت کو وسیع پیمانے پر بی جے پی کی "پراکسی” قرار دیا جا رہا ہے جو مسلم ووٹوں کو تقسیم کر کے سیکولر قوتوں کو کمزور کر رہی ہے۔ 17فیصد مسلم آبادی رکھنے والی ریاست میں ووٹوں کی یہ تقسیم فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ تقریباً 60حلقوں میں مسلمان ووٹ براہِ راست نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔بہار کی سیاست میں ذات پات کا کردار ہمیشہ سے گہرا رہا ہے۔ یہاں اب بھی سوارن طبقہ اقتدار پر قابض ہے۔ بی جے پی اور جے ڈی(U)دونوں نے ذات پر مبنی مردم شماری کی کوششوں کی مخالفت کی ہے، کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ اس کے نتائج پسماندہ طبقات کو نئی سیاسی طاقت فراہم کر سکتے ہیں۔ اسلاموفوبیا، بلڈوزر کی سیاست اور نفرت انگیز تقاریر نے مسلمانوں، دلتوں اور او بی سیز کو مزید حاشیے پر دھکیل دیا ہے۔اس دوران بی جے پی کی انتخابی مہم زیادہ تر خوف، تقسیم اور مذہبی جذبات پر مبنی ہے۔”پاکستان مخالف نعرے”، "آپریشن سندور” جیسے پروپیگنڈا بیانیے اور میڈیا میں شور شرابہ عوامی مباحثے کو گمراہ کر رہے ہیں۔ حکومتی کارکردگی یا ترقیاتی ایجنڈے پر بات نہ ہونے کے برابر ہے۔ کانگریس نے پہلے ہی انتخابی بے ضابطگیوں اور "ووٹ چوری” کے الزامات لگا کر این ڈی اے پر سخت تنقید کی ہے ۔ ان سب کے بیچ بہار کے عام ووٹر کے سامنے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا وہ "خوف” اور "قوم پرستی” کے نعروں سے نکل کر اپنے روزمرہ کے مسائل پر ووٹ دے گا یا پھر ایک بار پھر مذہبی پولرائزیشن فیصلہ کن ثابت ہوگی؟ بہار کے انتخابات 2025دراصل ایک وسیع تر قومی رجحان کی عکاسی کر رہے ہیں، جہاں سیاست کا مرکز "ترقی” سے ہٹ کر "شناخت”اور ” محفوظ قوم” کے گرد گھومنے لگا ہے۔ بی جے پی کی سیاسی قوت کا راز اسی بیانیے میں پوشیدہ ہے کہ ایک ایسا قوم پرستانہ تاثر جو جذبات کو جگاتا ہے مگر زمینی حقیقتوں سے آنکھ چراتا ہے ۔ فیصلہ بہار کے عوام کو کرنا ہے کہ وہ قوم پرستی کے شور یا معاشی انصاف کی خاموش مگر مستحکم آواز میں سے کس بیانیے کو اپنی تقدیر سمجھتے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے