آج ہمارا معاشرہ اخلاقی پستیوں کے آخری درجے پر ہے،الزام تراشی ،غیبت ،بُرے ناموں سے ایک دُوسرے کو پکار کر تذلیل کرنا اِن سب بُڑائیوں نے معاشرہ کا اخلاقی طور پر تنزلی کے آخری مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔عدم برداشت اور دُوسرے کی رائے کو نہ احترام دینا پاکستانی معاشرے کی پہچان بن گیا ہے۔منافقت نے ہماری اخلاقی اقداروںکو کھوکھلا کردیاہے۔ہم جب تک اخلاقی بُرائیوںکے حصار سے نکل کر مثبت فکر کے ساتھ آگے نہیں بڑھیں گے ہم بحیثیت قوم کیسے ترقی کرسکتے ہیں ۔سورة الحجرات مدنی سورة ہے اور یہ 9 ہجری فتح مکہ کے بعد ناز ل ہوئی ۔یہ سورة نازل کرنے کامقصد یہ تھا کہ مسلم اُمہ کو بنیادی اخلاقیات کا درس دیا جائے کہ ایک اسلامی معاشرے میں ایک مسلمان کا کردار کیسا ہوناضروری ہے۔پہلی پانچ آیات میں اللہ اور اُس کے نبی ﷺ کے احترام سب مسلمانوں پر لازم قرار دیا اور فرمایا” اے لوگوجو ایمان لائے ہو۔اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرﺅاوراللہ کی ناراضگی سے ڈرو یقینا اللہ ہر بات کاسُننے والا اورخوب اچھی طرح جاننے والا ہے۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ہرگز اپنی آوازوں کو نبی ﷺ کی آواز سے بلند نہ کیا کرﺅ اورنہ ہی اُن سے اِس طرح اُونچی آواز میں بات کرﺅ جیسا کہ تُم آپس میںایک دُوسرے سے بات کرتے ہو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارے سارے اعمال برباد ہو جائیں اور تُمھیں پتہ بھی نہ چلے۔یقین جانو! جو لوگ بھی اللہ کے رسُول کے پاس اپنی آوازیں نیچی رکھتے ہیں یہی تو وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے خُوب جانچ کر پرہیز گاری کے لیے چُن لیا ہے اُنہی کے لیے مغفرت ہے اور اجر عظیم بھی۔جو لوگ بھی رسول اللہ کو حُجروں کے باہر سے اُونچی آواز میں پُکارتے ہیں۔اِن میں سے اکثر بے عقل ہیں اوراگر یہ لوگ صبر کرلیتے یہاں تک کہ آپ رسول اللہ خود نکل کر ان کے پاس آجاتے تو یہ اِن کے لیے بہت بہتر ہوتا۔بہر حال اللہ بہت ہی درگزر رکرنے والااورمسلسل رحم کرنے والا ہے“۔ پھر ایک اورمعاشرتی بُرائی کا ذکر کیا ہے جو معاشرے میں نفرت ،انتشار اور بے چینی کی فضا قائم کرتی ہے وہ یہ کہ ہم ہر سُنی سُنائی بات پر تحقیق کیے بغیر نہ صرف خود یقین کرلیتے ہیں بلکہ اس کو اور بڑھا چڑھا کر آگے پھیلانے میں اہم کردار ادا کررہے ہوتے ہیں جس سے سارا معاشرہ معاشرتی طور پر متاثر ہوتاہے۔ صراط مستقیم پر کون سے لوگ ہیں تو یہ آیت آپ کو ایسے انسانوں کا پتہ دے رہی ہے۔اللہ فرماتے ہیں”اے ایمان والو!اگرکوئی ایسا شخص جو اعتماد کے لائق نہ ہو اورتمھارے پاس کوئی خبر لے آئے تو اسکی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرﺅ کہ کہیں تُم نادانی میں لوگوںکو نقصان نہ پہنچا بیٹھو اورپھر اپنے کیے پر پچھتاتے رہ جاﺅ۔اچھی طرح سمجھ لو کہ تمھارے درمیان اللہ کے رسول ﷺ موجود ہیں۔اگر وہ بہت سے معاملات میںتُمھارا مشورہ مان جائیں تو تُم خودہی مشکل میں پڑجاﺅ مگر کیونکہ اللہ نے تمھیں ایمان کی محبت عطا کی ہے اورتُمھارے دلوں کو اِس سے مزین کردیا ہے جس کی وجہ سے کفر،گناہ اورنافرمانی کے کام تمھاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنا دیے گئے ہیں۔ یقین جانو!یہی وہ لوگ ہیںجو سیدھی راہ پرہیںجو کہ صرف اللہ کے فضل اور نعمت کا نتیجہ ہے اوراللہ ہی ہر چیز کا جاننے والا،کمال حکمت والاہے“۔ ایک ہی معاشرہ میں مسلمانوں کے دوگروہ کے درمیان اختلاف بھی ہو سکتاہے اوراِن کے درمیان جھگڑا بھی ہوجاتاہے ۔اللہ اسی سورة میںفرماتے ہیں”اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اُن کے درمیان صلح کروا دیا کرﺅ پھر اگر ایک گروہ دُوسرے سے زیادتی کرئے تو اُس گروہ سے لڑﺅ جو زیادتی کررہا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلے کی طرف لوٹ آئے پھر اگر وہ لوٹ آئے تو اِن کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کروادو اور ہرمعاملے میں انصاف سے کام لیا کرﺅ کیونکہ انصاف کرنے والے اللہ کو نہایت پیارے ہیں۔سب مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں لہٰذا اپنے بھائیوںکے درمیان صلح کروادیا کرﺅ اوراللہ کی ناراضگی سے ڈرو تاکہ تُم پر رحم کیا جائے“ ۔اورایمان والوں کے لیے ہی کہا ہے کہاکہ ایک قوم دُوسری قوم کامذاق نہ اُڑائے ۔اللہ فرماتے ہیں”اے لوگوں جو ایمان لائے ہو! ایک قوم دُوسری قوم کا مذاق نہ اُڑائے ہو سکتاہے جس قوم کا مذاق اُڑایا جارہاہو وہ اُن سے بہتر ہوں۔ہو سکتاہے جس قوم کا مذاق اُڑایا جارہاہو وہ اُن سے بہتر ہوں“ اور عورتوں کے بارے میں کہا کہ”اور نہ ہی عورتیں دُوسری عورتوں کا مذاق اُڑایں ہوسکتاہے جن کا مذاق اُڑایا جارہاہو وہ اُن سے بہتر ہوں“۔اور دُوسروں کے عیب نکالنے اور ایک دُوسرے کو بُرے بُرے ناموں سے پکارنے والوںکے لیے اللہ اس سورة میں فرماتاہے”اور نہ ہی ایک دُوسرے میںعیب نکالواورنہ ایک دُوسرے کو بُرے ناموں سے پکارو۔ایمان لانے کے بعدبُرائی کانام لینابھی بہت بُری عادت ہے اب جو بھی ایسے کاموںسے توبہ نہیںکرئے گا وہی ظالموں میں شمار ہوگا“۔پس ظالموں کی نشانیوں میں سے ایک یہ کہ دُوسروں کی ذات میں عیب نکالنا اور بُرے ناموں سے اپنے مسلمان بھائی کو پکار کر چھیڑنا اس کی دل آزاری کرنا ہے۔اللہ کے نزدیک یہ سخت گناہ ہے اوراللہ اس کو ناپسندید ہ قرار دیتاہے۔ہمارے معاشرے میں یہ بیماریاں تو عام ہیں۔بہت زیادہ گمان کرنے والوں کے بارے میںاللہ فرماتے ہیں”اے لوگو جو ایمان لائے ہوبہت زیادہ گمان کرنے سے بچوبلاشبہ بعض گمان تو صرف گناہ ہیں “۔اور ان مسلمانوں کے بارے میں حکم دیا جو لوگوںکی بُرائیوںکا کھوج کرتے رہتے ہیں اور دُوسروں کی پیٹھ پیچھے بُرائی کرتے ہیں ۔اللہ فرماتے ہیں”اور نہ ہی لوگوں کی بُرائیوں کاکھوج لگاتے پھرو اور نہ ہی تُم میں سے کوئی کسی کی پیٹھ پیچھے بُرائی کرئے۔کیا تُم میں سے کوئی یہ چاہے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے؟یقیناََ تُمھیں اِس سے کراہت آئے گی لہذا اللہ کی ناراضگی سے ڈروبے شک اللہ تو بہت ہی توبہ قبول کرنے والا اوررحم کرنے والاہے“۔پھر ایک اور اہم معاشرتی بیماری کی طرف اللہ نے ہماری توجہ دلائی ہے ہم قوم ،خاندان ونسل ،علاقہ کی بنیاد پر اپنے آپ کو بلنددرجات دیتے ہیںکہ ہم ان سے افضل ہیں مگر اللہ کے ہاں بلند ترین فضیلت رکھنے والا صرف وہ ہے جوتقوی کے بلندمقام پر ہو ۔اللہ تعالی ٰ نے کچھ یوں اس سورة میںہی فرمایا ہے”پھر تُمھیں مختلف قوموں اور خاندانوں میںتقسیم کیا تاکہ تُم ایک دُوسرے کی پہچان کرسکوتُم میں سے اللہ کے ہاںزیادہ عزت والا تو وہ ہے جو بُرائیوںسے دُور رہ کر اللہ کی ناراضگی سے بچتارہا بلاشبہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے اور وہ سب سے باخبر ہے“۔پھر سورة کے آخر میںاللہ فرماتاہے” یہ دیہاتی لوگ کہتے ہیںکہ ہم ایمان لے آئے ہیں اِن کو بتا دو تم ایمان نہیںلائے ہو بلکہ یہ یوںکہیں،کہ ہم نے اِسلام قبول کرلیاہے کیونکہ ایمان تو تمھارے دِلوں میں داخل ہی نہیں ہوالیکن اگر تم اللہ اوراُس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرﺅ تواللہ تُمھارے اعمال کے اجر میںذرابھی کمی نہیںکرئے گابے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا اوررحم کرنے والاہے ۔ مومن تو بس وہی ہیںجو اللہ اوراُس کے رسولﷺ پرایمان لائیں،پھر کسی شک میںنہ پڑیںاوراپنی جانوں اورمالوں سے اللہ کی راہ میںجدوجہد کریں یہی لوگ اپنے ایمان کے دعویٰ میںسچے ہیں۔اِن دیہاتی لوگوں سے پوچھئے! کیا تُم اللہ کواپنے دین دار ہونے کی اطلاع دے رہے ہو؟حالانکہ اللہ توآسمان اورزمین میں، جوکچھ بھی ہے اُس سب سے خوب واقف ہے بلاشبہ اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے یہ لوگ آپ ﷺ پر احسان جتاتے ہیںکہ اِنہوں نے اسلام قبول کر لیااِن کو بتا دیں کہ تُم اپنے اِسلام لانے کا اِحسان مجھ پر نہ جتاﺅ بلکہ اللہ نے تُم پراِحسان کیا ہے کہ اُس نے تُمھیں ایمان کی توفیق بخشی اگرتم سچے ہو تو تمھارا دل بھی اس بات کی گواہی دے گا۔بے شک !اللہ آسمانوں اورزمین کی سب پوشیدہ چیزوںکوجانتاہے اورجوکچھ بھی تُم کررہے ہو اللہ اُسے مسلسل دیکھ رہاہے“۔ آئیں آج سے ہم سورة الحجرات کے اللہ کے احکامات کو اپنی زندگی میں شامل کریں اور ایک فلاحی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھیں۔