کالم

بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت

اقلےم شجاعت کے تاجدار ،مسند علم و دانش کے صدر نشےن،افق ولاےت کے نےر تاباں ،صاحب نہج البلاغہ ،زاہد شب زندہ دار جناب امےرالمومنےن علی ابن ابی طالب کرم اﷲ وجہہ13رجب ےوم جمعہ عام الفےل 600وسط خانہ کعبہ مےں پےدا ہوئے ۔آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد نے آپ کا نام حےدر رکھا ۔ان کا خانہ کعبہ مےں پےدا ہونا اےسا معجزہ ہے کہ ان سے پہلے ان کے بعد کسی کو ےہ اعزاز حاصل نہےں
کسے را مےسر نہ شد اےں سعادت
بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت
مسجد خدا وندی مےں شہادت پا کر کسی کی زبان پر ےہ کلمہ جاری نہےں ہوا کہ رب کعبہ کی قسم مےں کامےاب ہوا ۔آپ کے کمال نفس ،علم و حلم ،زہدو شجاعت ،حسن و خلق اس درجہ پر تھے جس کا اعتراف آپ کے دشمنوں نے بھی کےا ۔آپ کی جوانمردی اور اےثار اس درجہ کا تھا کہ ہجرت کی رات بستر رسول پر سو گئے ،کفار قرےش کی ننگی تلوارےں رسول کے عوض اپنی جان کےلئے خرےد لےں ۔کمالات بدنی مےں کوئی شخص آپ کے ہم پلہ نہ تھا ۔آپ کی قوت و طاقت دنےا مےں ضرب المثل تھی ۔آپ نے خےبر کا دروازہ اپنے دست معجز نما سے اکھاڑا کہ جسے اےک جماعت بھی حرکت نہ دے سکی ۔ےہودی لشکر مےں نامی گرامی پہلوان مرحب کو پچھاڑا ،قتل کےا مگر اس کے جسم پر قےمتی زرہ کو ہاتھ نہ لگاےا ،ےہ زرہ اور خود سونے کے تھے لےکن حضرت علیؑ کی غےرت و حمےت نے گوارا نہ کےا کہ اس کے بدن سے زرہ اتاری جائے بلکہ آپ نے مال غنےمت بھی ضرورت مندوں مےں تقسےم کر دےا ۔آپ کی بہادری نے گزشتہ لوگوں کی شجاعت بھلا دی ۔کوئی دشمن جو آپ کے سامنے آےا وہ بچ کر نہ نکلا مگر ےہ کہ اےمان لے آےا ۔جس بہادر کو آپ قتل کرتے اس کی قوم فخر کرتی کہ اسے امےرالمومنےن نے قتل کےا ۔آپ جو کی روٹی کھاتے ،کم غذا تناول فرماتے اور آپ کا لباس کھردرا ہوتا ۔رﺅے زمےن پر تمام اولےا کا مرجع آپ ہےں ۔صالح کشفی حنفی اپنی تصنےف مےں لکھتے ہےں کہ ولاےت مےں جتنا درجہ بڑھتا ہے عدد گھٹتا ہے ۔کل اولےا کاملےن مےں اول درجے مےں تےن سو ہےں ،اس سے اگلے درجے مےں ستر ہےں ،ابدالی چالےس ہےں ،اوتار چار ہےں ،ان کے اوپر قطب عالم ہوتا ہے جہاں نبوت ختم ہوتی ہے وہاں ولاےت شروع ہوتی ہے ۔اولےا کرام کی تارےخ اور سلسلوں کا مطالعہ کرےں ۔حضرت علیؑ شاہ ولاےت کے مرتبہ پر فائض نظر آئےں گے ۔حضرت علی ہجوےری ؒداتا گنج بخش اےک جگہ فرماتے ہےں راہ ولاےت مےں بہت سے اےسے مقام آئے جہاں لغزش اور لرزش کا امکان تھا ۔جناب علیؑ سے مےری نسبت نے مجھے پار لگاےا ۔اس طرح شہباز قلندرؒاےک رباعی مےں آپ سے اپنی نسبت کا اعلان کرتے ہوئے کہہ رہے ہےں
حےدرےم ، قلندرم ،مستم
بندہ علی مرتضیٰ ہستم
پےشوائے تمام رندانم
کہ سگ کوئے شےر ےزدانم
حضرت علی علیہ اسلام نے محنت مزدوری کو شعار بناےا ۔کہتے ہےں کہ صاحب فکرونظر ےا فلسفی عمل سے بےگانہ ہوتا ہے ۔اس طرح کسی عالم کاشجاع ہونا محل نظر ہے گوےا بہادر تلوار کا دھنی صاحب علم نہےں ہوتا ۔علم اور شجاعت دو متضاد خصائص ہےں جو کسی اےک شخص مےں ہونا معجزے سے کم نہےں لےکن آپ مےں ےہ دونوں متضاد صفات بدرجہ اتم موجود تھےں ۔نہج البلاغہ کے خطبات اور اقوال مےں حکومت و بصےرت کے خزانے پائے جاتے ہےں الغرض آپ کی طبےعت پر فضےلت سے پوری مناسبت اور ہر کمال سے پورا لگاﺅ رکھتی تھی اور کوئی صفت و کمال اےسی نہ تھی جس سے آپ کا دامن خالی رہا ہو ،کوئی خلعت و خوبی و جمال اےسا نہ تھا جو آپ کے قدوقامت پر درست نہ آےا ۔آپ پہلے مفکر اسلام ہےں جنہوں نے خدا وند عالم کی توحےد اور انسانےت کی معراج کو اپنے عمل و کردار سے دنےا کے سامنے پےش کےا اور علم و معرفت کے چشمے آنکھوں سے آنسو کی لڑی رےش مبارک کو تر کر دےتی آپ کو دنےا و مافےہا کی خبر نہ رہتی ۔آپ کا جسم موم کی طرح نرم ہو جاتا اور جنگ وغےرہ مےں جو تلوار ےا تےر کا ٹکڑا آپ کے جسم مےں پےوست ہو جاتا اس کو اس وقت نکالا جاتا جب آپ نماز مےں مشغول ہو جاتے ۔خضرت علیؑ کو عہد خلافت ان کی راست فکری کا آئےنہ دار ہے ۔انہوں نے اپنے دور خلافت مےں مسلمانوں کے درمےان انتشارو افتراق کو روکنے کی بھرپور کوشش کی ۔حضور اکرم کی احادےث کہ علیؑ کا گوشت مےرا گوشت ،علیؑ سے دوتی مجھ سے دوستی ،علیؑ سے جنگ مجھ سے جنگ ،علیؑ سے صلح مجھ سے صلح مگر لوگ دنےا طلبی کے باعث دےن اور آخرت سے روگردانی کرنے لگے ۔آپ نے اےک لمحے کےلئے بھی مصلحت کا راستہ اختےار کرنے ےا نفاق پر کمر بستہ قوت سے صلح کرنے کے متعلق دل مےں جگہ نہ دی بلکہ اصول دےن کو باقی رکھنا قبول کےا ۔رمضان المبارک کی انےس تارےخ کو بدھ کی رات تھی ۔آپ بار بار صحن مےں نکلتے ،آسمان کی طرف نظر دوڑاتے ،ستاروں کو دےکھتے اور فرماتے خدا کی قسم ےہی وہ رات ہے جس کی خبر مجھے رسول خدا نے دی تھی ۔پو پھٹنے مےں ابھی دےر تھی آپ مسجد کوفہ مےں داخل ہوئے ۔آپ کا قاتل مسجد مےں پہلے سے ہی موجود تھا ۔مسجد کی قندےلےں گل تھےں ۔چند رکعت نماز پڑھی ۔تسبےح کے بعد بام مسجد پر آئے اور صبح کی سفےدی سے مخاطب ہو کر فرماےا ”تو اےک دن بھی اےسے وقت پر طلوع نہےں ہوئی کہ مےں سوےا ہوا ہوں“ اس کے بعد اذان دی ۔مسجد مےں سونے والوں مےں آپ کا قاتل ابن ملجم بھی تھا ۔اس سے کہا کہ اے شخص اوندھا مت لےٹ اےسے سونے والوں کو اﷲ پسند نہےں کرتا ۔تےرے دامن اور دل مےں کےا ہے مےں بتا سکتا ہوں ۔آپ سجدہ مےںگئے ۔ابن ملجم نے زہر مےں بجھی ہوئی تلوار سے سر پر وار کےا ۔ےہ تلوار اسی جگہ لگی جس جگہ جنگ خندق مےں عمرو ابن عبدود کی تلوار لگ چکی تھی ۔آپ نے صدا بلند کی”رب کعبہ کی قسم مےں کامےاب ہو گےا “ قاتل سے پوچھا کےا مےںتمہارااچھا امام نہےں ۔آپ نے فرماےا مےرے قاتل کو شربت پلاﺅ ۔کردار امامت انسانےت سے محبت کا معتبر حوالہ بن کر تارےخ مےں ہمےشہ جگمگاتا رہے گا ۔علیؑ کی شرافت کا نقش دشمن کے دل پر بھی مرتسم رہے گا ۔آج بھی صورتحال وہی ہے مگر علیؑ کی طرح سلوک کرنے کا کوئی حوصلہ نہےں رکھتا
کوئی تو ہوتا جو اپنے قاتل کی تشنگی کا لحاظ رکھتا
کہ نفرتوں کی زمےن پر اب بھی علیؑ محبت کا آئےنہ ہے
اس ماہ کی اکےسوےں رات کا حصہ گزر گےا تو آپ کی روح مقدس نے رےاض جنان کی طرف پرواز کی ۔آپ کا مزار اقدس کوفہ سے پانچ مےل دور بغداد سے 120مےل جنوب مےں نجف اشرف کے مقام پر واقع ہے ۔اقبال ؒ نے کہا تھا
خےرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے مےری آنکھ کا خاک مدےنہ و نجف
آپ کی قبر مبارک اےک عرصہ معےن تک پوشےدہ رکھی گئی ۔170مےں عباسی خلےفہ ہارون الرشےد کوفہ کے اطراف مےں شکار کھےل رہا تھا ۔اس دوران شکاری کتے اور چےتے جو اس کے ہمراہ تھے ہرن کے پےچھے بھاگ رہے تھے ۔ہرن بھاگتا بھاگتا اس مقام تک پہنچ گےا جہاں آپ کی قبر مبارک تھی ۔کتے اور چےتے رک گئے ۔ہرن کو پناہ مل گئی ۔ہارون نے تعجب مےں آ کر تحقےق کروائی ،پتہ چلا جہاں ہرن سکون کے ساتھ کھڑا ہے ےہی مقام مرقد ہے ۔ہارون نے اس مقام پر مرقد تعمےر کروائی کٹہرا لگوا دےا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے