بجلی کے نرخوں میں اضافے اور صرف پنجاب میں بجلی کی سبسڈی کے معاملے نے حکمران اتحادی جماعتوں کے درمیان لفظوں کی جنگ چھیڑ دی ہے، پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن)کی زیر قیادت وفاقی اورپنجاب حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔اپوزیشن نے بھی ن لیگ پر تنقید کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ پارٹی صرف پنجاب کوریلیف دے رہی ہے جبکہ دوسرے صوبوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔ سیاسی کشمکش اس وقت بڑھ گئی جب مسلم لیگ (ن)کے صدر نواز شریف نے اپنی صاحبزادی اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ساتھ مل کرپنجاب کے ان بجلی صارفین کےلئے14روپے فی یونٹ ریلیف کااعلان کیا جو ماہانہ 200 سے 500یونٹ استعمال کرتے ہیں۔ نواز شریف نے کہا ہے کہ ریلیف پنجاب کے ترقیاتی بجٹ میں 45ارب روپے کی کٹوتی سے دیگی۔اس اعلان کو پیپلزپارٹی کی زیرقیادت سندھ حکومت اور پی ٹی آئی کی زیرقیادت خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے ناپسندیدگی کا سامنا کرنا پڑا جو نا مناسب ہے۔دونوں صوبوں کے پاس بظاہر یکساں ریلیف دینے کےلئے وسائل کی کمی ہے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا جائے۔سندھ اور کے پی کی تنقید کے بعد وزیراعظم شہباز شریف پنجاب حکومت دفاع کیلئے آئے اوردعویٰ کیاکہ مرکز نے صوبائی حکومت کوایک پیسہ بھی فراہم نہیں کیااوریہ کہ ریلیف پیکج صرف پنجاب کے اپنے بجٹ سے فراہم کیا گیا۔وزیراعظم نے دوسرے صوبوں پرزور دیا کہ وہ بجلی کے صارفین کواسی طرح کاریلیف فراہم کرنے کیلئے اپنے ترقیاتی فنڈزکودوبارہ مختص کرکے پنجاب کی مثال پرعمل کریں ۔ وزیراعظم نے کہا کہ سیاست کرنے کے بجائے صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بجلی کے صارفین کو قومی مالیاتی کمیشن کے تحت منتقل کیے گئے کھربوں روپے کے فنڈز کو استعمال کرکے انہیں ریلیف فراہم کرنے کےلئے پنجاب کے لائحہ عمل پر عمل کریں ۔ یہ عوام کا حق ہے۔ پنجاب ریلیف پیکیج میں وفاقی حکومت کا کوئی حصہ نہیں ہے۔دوسرے صوبوں کو بھی ایساکرنا چاہیے اگر خیبرپختونخوا حکومت عوام کو ایسا ریلیف دینا چاہتی ہے تو ہمیں خوشی ہوگی لیکن سیاست کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے اور حقائق کو مسخ نہیں کیا جانا چاہیے۔انہوں نے وفاقی امتیازی سلوک کےالزامات کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ NFCفنڈز کا تقریباً 60فیصد صوبوں کو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو غیر ملکی امداد سے چلنے والے منصوبوں پر قرضوں اور سود کی ادائیگی کی صورت میں بہت زیادہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑاجس سے پورے ملک کو فائدہ ہوا۔وزیر اعظم شہباز نے روشنی ڈالی کہ وفاقی حکومت نے 200یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کو تین ماہ کا ریلیف فراہم کرنے کےلئے 50ارب روپے مختص کیے ہیں جوکہ 86فیصد گھریلو بجلی استعمال کرنےوالوں پر مشتمل ہے۔انہوں نے بلوچستان حکومت کے ساتھ 28000ٹیوب ویلوں کو سولرائز کرنے کےلئے شراکت داری کا بھی ذکر کیا، اس منصوبے پر 70ارب روپے لاگت آئے گی جس پر وفاقی حکومت 55ارب روپے برداشت کرے گی۔وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے معیشت کے استحکام اور ملکی تجارت اور برآمدات کو بڑھانے کےلئے طویل المدتی اقدامات پر کام کررہی ہے۔قرض دینے والے کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی اور ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے پر دھکیلنے کے پی ٹی آئی کے غیر معقول اقدام کے برعکس وفاقی حکومت آئی ایم ایف کو آن بورڈ لینے کے بعد ایسے تمام اقدامات کرے گی، پنجاب حکومت کی جانب سے ماہانہ 201سے 500یونٹ استعمال کرنے والے بجلی صارفین کےلئے 14روپے فی یونٹ(بشمول ٹیکس)کے ریلیف کے اعلان کے بعد45 ارب روپے کے اس ریلیف کی ستمبر کے بعد بھی پائیداری پر سوال اٹھ رہے ہیں اور کیا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اس ریلیف کو اٹھائے گا۔اس اقدام کی مالی اعانت سے متعلق خدشات ہیں۔جہاں ماہرین عام طور پر صوبائی حکومت کے اس اقدام کو صارفین کو ان کے بجلی کے بلوں میں مدد کرنے کےلئے ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھتے ہیں، وہیں بہت سے لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ آئی ایم ایف اس ریلیف کےلئے مختص کیے گئے مالیات یا انتظامات کے بارے میں حکومت سے تفصیلی وضاحت طلب کر سکتا ہے۔ لوگوں کو ریلیف کی ضرورت ہے کیونکہ بجلی کے بل زندگی کو انتہائی مشکل بنا رہے ہیں، خاص طور پر متوسط طبقے کےلئے جو زیادہ تر سماجی تحفظ کے نیٹ ورک میں شامل نہیں ہے۔تاہم پنجاب کی کوشش ایک قلیل مدتی حل ہے جس کا مقصد گرمیوں کے دوران بلوں کو کم کرنا ہے، جو لوگوں کی آمدنی کا ایک اہم حصہ استعمال کرتا ہے۔حکومت ائیرکنڈیشنر کے کم استعمال کی وجہ سے اکتوبر سے بجلی کے بلوں میں کمی کا فیصلہ کر رہی ہے۔ہم یونٹ کے نرخوں میں کچھ ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ موسم سرماکیلئے ایک اورامدادی پیکج دیکھ سکتے ہیں۔ بجلی کی مہنگی قیمت پاکستان میں ایک دائمی مسئلہ بن چکی ہے۔اگرچہ یہ امدادی کوششیں غریب متوسط آمدنی والے گروہوں کی عارضی طور پر مدد کر سکتی ہیں، لیکن حکومت کو موثر پیداوار اور تقسیم کے ماڈلز کے ذریعے توانائی کی قیمتوں کو کم کرنے کےلئے ایک طویل المدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ہم نے ابھی یہ دیکھنا ہے کہ اس ریلیف کےلئے فنڈز کا انتظام کیسے کیا گیا ہے اور آئی ایم ایف کیا جواب دے گا۔
پنجاب حکومت کے احسن اقدامات
یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پنجاب حکومت ملکی سیاست کا رخ عوام کی خدمت کی جانب موڑ دیں ۔الزامات کے کیچڑ اچھالنے کے بجائے سیاسی حریفوں کو کارگردگی کے میدان میں مقابلے کی ترغیب دے رہی ہے-بجلی کے بلوں میں کم یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو دی جانے والی سہولت اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ پنجاب حکومت نے اس معاملے میں سب سے پہلے پیشرفت کرکے دیگر صوبائی حکومتوں کو چونکا دیا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سے صوبے میں مسلسل متحرک ہیں۔ عوام کے مسائل سے آگاہی اور ان کے فوری حل کے لئے ان کی کاوشیں قابل دید ہیں۔ ان عوامی سرگرمیوں کی بدولت پنجاب سمیت ملکی سطح پر مسلم لیگ نون کے متعلق مثبت تاثر قائم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔بجلی کے بلوں میں عوامی ریلیف کے اعلان سے پیدا ہونے والا ارتعاش صوبہ سندھ میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ بظاہر وزیر اعلی سندھ اور پی پی پی کے جیالے ترجمانوں کے بیانات میں بجلی کے بلوں میں ریلیف کے حوالے سے پنجاب حکومت پہ تنقید کا رنگ غالب رہا تا ہم یہ مثبت پہلو بھی سامنے آیا کہ صوبائی حکومتیں کارکردگی کے میدان میں خوب سے خوب تر اقدامات کے لئے کوشاں ہیں۔ اس وقت عوام شدید معاشی دبا میں ہے۔بجلی کی گرانی نے معاشی بوجھ میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ وزیر اعلی پنجاب نے عوام کی اس مشکل کا بروقت ادراک کرتے ہوئے بجلی کے کم یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو ریلیف دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ ان کی حکومت کا ہاتھ عوام کی نبض پہ ہے عوام امید کرتے ہیں کہ پی پی پی کی جانب سے ابتدائی تلخ نوائی اورطنزیہ بیانات کا غبار جلد بیٹھ جائے گا اور تمام صوبائی حکومتیں عوام کی بہتری کے لیے یکسوئی کا مظاہرہ کریں گی۔ مریم نواز کو پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلی ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے ۔مضبوط سیاسی پس منظر کی حامل وزیراعلی عوامی خدمت کے میدان میں اپنی منفرد شناخت قائم کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ مختصر وقت میں ای بائک اسکیم، آئی ٹی پارکس کا قیام، بلا سود قرضے، تعلیم سے محروم بچوں کی سکولوں میں شمولیت، سولر پینلز کی فراہمی اور کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے رہائش گاہوں کی تعمیر کے منصوبے ایک جامع ترقیاتی ویژن کا مظہر ہیں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ پنجاب حکومت منفی سیاسی رجحانات کو فلاحی منصوبوں اور عوامی خدمات کی جانب موڑ رہی ہیں۔یہی وقت کا تقاضہ ہے،جو قابل تقلید ہے۔
اداریہ
کالم
بیان بازی نہیں…. عمل کرنے کی ضرورت
- by web desk
- اگست 22, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 855 Views
- 11 مہینے ago