کالم

بیرونی سرمایہ کاری کے ثمرات

سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کا حجم 2-2 ارب ڈالر سے بڑھا کر 8-2ارب ڈالر کرنا یقینا شبہازشریف حکومت کی کاروبار دوست پالیسوں پر مہر تصدیق ثبت کررہا ، تجارت اور معیشت کی قوائد و ضوابط سے آگاہ افراد باخوبی جانتے ہیں کہ جدید دنیا میں کوئی بھی ملک کسی دوسری ریاست میں سرمایہ کاری پر اسی وقت آمادہ ہوتا ہے جب اسے یقین ہوجائے کہ نہ صرف اسے نفع ہوگا بلکہ اس کی اصل رقم بھی محفوظ رہے گی ،اس پس منظر میں شبہازشریف کے حالیہ دورہ سعودی عربیہ میں ولی عہد محمد سلمان کے ملاقات انتہائی مثبت رہی ، سعودیہ حکام اور وزیر اعظم پاکستان کے وفد میں شامل دیگر افراد میں میٹیگز کے کئی دور ہوئے ، خبر یہ ہے کہ سعودی فوڈ چین البیک پاکستان میں آرہی ہے ، اس ضمن میں پیش رفت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ البیک نے اپنی سپلائی چین پر کام شروع کردیا ہے ، پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی تاریخ کا ٓآغاز 1967 میں ایک دفاعی پروٹوکول معاہدے پر دستخط سے ہوا، جس کے نتیجے میں پاکستانی ٹرینرز کی سعودی عرب میں تعیناتی اور سعودی عرب کے فوجی افسران کی پاکستانی فوجی اکیڈمیوں سے تربیت کے آغاز کی صورت میں ہوا،اس طرح کے ایک دفاعی معاہدے نے پاک سعودیہ تعلقات کو مذید وسعت دی جس میں پاک فوج کے افسران اور جوانوں کی سعودیہ میں تعیناتی کے علاوہ مشترکہ جنگی مشقوں کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ، اس کے بعد سے لے کر اب تک پاک سعودیہ حکام باقائدگی سے تزویراتی گہرائی کو باہم مربوط بنانے کے لیے ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں، دفاعی محاذ پر پاکستان اور سعودی عرب تعلقات یوں اہمیت اختیار کرگے ہیں کہ ولی عہد محمد بن سلمان کا ویثرن 2030کا تقاضا ہے کہ وہ مملکت دفاعی پیداوار میں خود انحصاری کی منزل عبور کرے ، اہم یہ ہے کہ ہمارے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف 2017سے سعودی عرب میں درجنوں مسلمان ملکوں کی دہشت گردی کے خلاف سرگرم اتحاد کے کمانڈر کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ تاریخی طور پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ تعاون آزادی کے بعد سے ہی شروع ہوگیا تھا مثلا بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں کو رہایشی سہولت دینے کی غرض سے شہر قائد میں سعود آباد کے نام سے کالونی بنائی گی جس کےلیے شاہ سعود نے کھلے دل سے امداد دیتے ہوئے کہا کہ : ہمیں پاکستان کے مضبوط ہونے پر خوشی ہوگی پاکستان کی طاقت ہماری طاقت ہے؛ بعدازاں 1960 میں شاہ فیصل نے دونوں ملکوں میں دفاعی تعاون بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدمات کیے ، تاریخ گواہ ہے کہ سعودی عرب نے 1971کی جنگ میں بھی پاکستان کی بھرپور مدد کی ، اس طرح جب لاہور میں او آئی سی کا دوسرا اجلاس ہوا تو سعودی عربیہ نے سانحہ مشرقی پاکستان سے اپنے دوست ملک کو نکالنے کےلئے دست تعاون بڑھایا ، 1980 کی دہائی میں افغانستان پر روس کے حملے کے بعد دونوں ممالک ایک دوسرے کے مذید قریب آئے اور امریکہ کی مدد سے ماسکو کے منفی عزائم ناکام کےلئے مل کر کام کرتے رہے ، مئی 1998 میں جب بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو سعودی عرب نے دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے کندھا سے کندھا ملا کر کھڑا
ہوگیا، اس ضمن میں جب امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے پابندیاں عائد کی گئیں تو ریاض نے اسلام آباد کا سیاسی اور معاشی محاذ پر بھرپور ساتھ دیا ، 2005 میں پاکستان اور آزاد کشمیر میں آنے والی بدترین زلزلہ کے بعد امدادی سرگرمیوں میں سعودی حکومت پیش پیش رہی ، سعودی ولی عہد کی جانب سے 2019میں پاکستان کا دورہ پاک سعودیہ دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے ، قوی امکان ہے کہ مسقبل قریب میں ایک بار پھر ولی عہد اسلام آباد آکر دونوں ملک میں جاری معاشی اور تجارتی منصوبوں کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں، وزیر اعظم شبہازشریف نے سعودی عرب کےساتھ ہی قطر کا دورہ بھی کیا، جہاں قطری حکام سے شہبازشریف کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی ،اس ضمن میں وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات عطا اللہ تارڈ نے قوم کو یہ خوشخبری سنائی کہ قطر پاکستان میں 3ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جارہا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ قطری وفد جلد اسلام آباد کا دورہ کرے گا، مزید یہ کہ دوست ملک نے پاکستان آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچیسپی ظاہر کی ہے ،مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی حکومت کی اولین ترجیحات میں پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بنانا ہے ، عالمی سیاست سے باخبر حضرات جانتے ہیں کہ بین الاقوامی سیاست دراصل معیشت ہی کے تابع ہے ، قوموں کے باہمی تعلقات میں پسند نہ پسند نہیں بلکہ مفادات کو دیکھا جاتا ہے ، یوں یہ اصول کھلے عام لاگو ہوتا ہے کہ سیاست میں تو کوئی مستقل دوست ہوا کرتا ہے اور نہ ہی دشمن ،اب وطن عزیز کوجس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہماری اپوزیشن جماعتیں انفرادی اور گروہی مفادات سے نکل کر پاکستان اور اس کے عوام کا سوچیں ، دراصل یہی وہ پہلو ہے جس پر قومی میڈیا اور حزب اختلاف کے رہنماوں کو مثبت نقطہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے