کالم

بینظیر بھٹو کی برسی پر برطانیہ میں کیا ہوا؟

محترمہ بینظیر بھٹو کی اٹھارویں برسی کے موقع پر برطانیہ میں جو کچھ دیکھنے کو ملا وہ نہ صرف افسوسناک تھا بلکہ پیپلز پارٹی کی اوورسیز سیاست پر کئی سنجیدہ سوالات بھی چھوڑ گیا ایک ایسی عظیم رہنما جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری اسلامی دنیا کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم تھیں جنہوں نے آمریت، جلاوطنی، قید و بند اور جان کے خطرات کے باوجود جمہوریت کی شمع روشن رکھی ان کی برسی پر برطانیہ جیسے ملک میں پیپلز پارٹی کی مجموعی عدم دلچسپی انتہائی مایوس کن رہی۔
یہ بات مزید تکلیف دہ اس لیے بھی ہے کہ آج پیپلز پارٹی پاکستان، سندھ اور آزاد کشمیر میں کسی نہ کسی صورت اقتدار کا حصہ ہے۔ ہائبرڈ نظام ہو یا پاور پالیٹکس، پارٹی اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہے مگر اس کے باوجود برطانیہ بھر میں اس سال محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی برسی پر کوئی بھرپور، منظم اور مرکزی نوعیت کی تقریب منعقد نہ ہو سکی۔ دستیاب معلومات کے مطابق پورے برطانیہ میں صرف پیپلز پارٹی مڈلینڈ کے صدر چوہدری شاہنواز نے 27دسمبر کو برمنگھم کے ریسٹورنٹ میں ایک پروگرام منعقد کروایا جبکہ لندن، مانچسٹر، لوٹن، بریڈفورڈ اور دیگر بڑے شہروں میں کوئی تعزیتی جلسہ،دعائیہ تقریب یا یادگاری پروگرام دیکھنے میں نہیں آیا۔برمنگھم میں منعقدہ اس تقریب میں اگرچہ چند نمایاں شخصیات شریک ہوئیں جن میں لارڈ نذیر احمد، لارڈ قربان حسین، بیرسٹر چوہدری ایوب ایم پی آزاد کشمیر کے سابق وزیر چوہدری افسر شاہد، آزاد کشمیر ویمن ونگ کی جنرل سیکرٹری افرا شہزادی، سنیئر نائب صدر خواجہ کلیم، واجد برکی وقار کیانی اور دیگر مقامی کارکن یا افراد شامل تھے یہ ایک اچھا پروگرام تھا مگر مجموعی طور پر یہ پروگرام بھی اس شان اور وسعت کا عکاس نہ تھا جس کی توقع شہید محترمہ بینظیر بھٹو جیسی عالمی سطح کی رہنما کی برسی پر کی جاتی ہے۔ چوہدری شاہنواز نے میرے دریافت کرنے پر بتایا کہ انہوں نے پورے برطانیہ کے مرکزی عہدیداروں کو اس تعزیتی پروگرام میں شرکت کی دعوت دی تھی لیکن خواجہ کلیم جو قائم مقام صدر ہیں کے سوا کسی نے شرکت نہیں کی۔
میری ذاتی طور پر ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ بینظیر بھٹو کے قاتلوں کا اصل سراغ ملے اور یہ راز تاریخ کے سامنے آئے کہ اس عظیم رہنما کو کس جرم کی سزا دی گئی۔سب سے بڑی تشویشناک بات یہ ہے کہ آج کی پیپلز پارٹی کے لئے بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اب بیانیہ تک کیوں نہیں رہا ہے؟
میں ایک طویل عرصے تک بینظیر بھٹو شہید کی برسی کی تقریبات بطور صحافی کور کرتا رہا ہوں۔ ماضی میں ان تقریبات میں کارکنوں کا جوش، آنکھوں میں آنسو، نعروں کی گونج اور انصاف کے مطالبات واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے تھے، مگر اس سال پارٹی کی خاموشی اور کارکنوں کی بے رغبتی نے یہ احساس دلایا کہ شاید اب نظریات کی جگہ مفادات نے لے لی ہے۔اس صورتِ حال کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے نظریاتی سیاست کے بجائے پاور پالیٹکس کو ترجیح دینا بھی ہے۔ اقتدار میں شمولیت، مفاہمت اور طاقت کے مراکز کے ساتھ چلنے کی سیاست نے پارٹی کے بنیادی نظریے کو کمزور کر دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سندھ کے علاوہ پیپلز پارٹی پاکستان کے دیگر صوبوں میں بتدریج سکڑتی جا رہی ہے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں پارٹی کارکنان بڑی تعداد میں یا تو پارٹی چھوڑ چکے ہیں یا بددل ہو کر سیاسی عمل سے کنارہ کش ہو گئے ہیں جبکہ نوجوان نسل پیپلزپارٹی کے نظریات سے ہی روشناس نہیں ہے۔بالکل یہی صورتحال برطانیہ اور یورپ میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اوورسیز پیپلز پارٹی نہ تو منظم نظر آتی ہے اور نہ ہی عددی اعتبار سے اس میں وہ جوش و خروش باقی رہا ہے جو کبھی اس جماعت کی پہچان ہوا کرتا تھا۔ اکثر کارکن یا تو پارٹی چھوڑ چکے ہیں یا مایوسی کے عالم میں گھروں تک محدود ہو گئے ہیں۔ پارٹی کے اندر باقاعدہ انتخابات کا نہ ہونا، قیادت کا مخصوص گروہوں تک محدود رہنا اور کارکنوں کو نظرانداز کرنا اس زوال کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آزاد کشمیر میں نئی حکومت کے قیام کے بعد پیپلز پارٹی کے کئی بڑے نام وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں جس کے اثرات اوورسیز سیاست میں بھی نمایاں طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ جن شخصیات اور برادریوں کے مفادات وابستہ تھے ان کی سیاسی سرد مہری نے پارٹی سرگرمیوں کو شدید متاثر کیا حتی کہ شہید بینظیر بھٹو کی برسی جیسا اہم موقع بھی کارکنوں کو متحرک نہ کر سکا۔یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بینظیر بھٹو کا قتل ایک ناحق قتل تھا اور ان کی شہادت پاکستان کی قوم پر آج بھی ایک قرض ہے۔ وہ صرف ایک سیاسی رہنما نہیں تھیں بلکہ جمہوریت، مزاحمت، قربانی اور استقامت کی علامت تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد جس حوصلے اور جرات کے ساتھ انہوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی، وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ 1988میں وہ وزیراعظم بنیں، مگر ان کی حکومت کو آئی جے آئی جیسی سازشوں کے ذریعے ختم کر دیا گیا وہ دوبارہ وزیراعظم بنی لیکن ان کے اپنے صدر فاروق لغاری نے ان کی حکومت کو مار شل لا کے دور کی آئینی شقB 2 /58 کی تلوار چلا کر ختم کردیا ۔انہوں نے جلاوطنی برداشت کی، بیرون ملک رہ کر بچوں کی پرورش کی مگر پاکستان سے رشتہ کبھی کمزور نہیں ہونے دیا۔ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے برخلاف پاکستان واپس آ کر انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمے کی بنیاد رکھی، اور اسی جدوجہد کی قیمت انہیں اپنی جان دے کر ادا کرنا پڑی۔آج سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی واقعی بینظیر بھٹو کے نظریے کی وارث ہے؟
اگر پارٹی نے نظریاتی سیاست کو بحال نہ کیا، کارکنوں کو عزت اور اختیار نہ دیا اور شہید قیادت کی یاد کو محض رسمی تقریبات تک محدود رکھا تو یہ زوال مزید گہرا ہو گا۔آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ برطانیہ میں اس سال شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی پر چھائی خاموشی ایک سنجیدہ لمح فکریہ ہے۔ شہیدوں کو فراموش کرنے والی جماعتیں تاریخ میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہتیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے