یاسین ملک کا نام پوری کشمیری عوام کی پرامن مزاحمتی جدوجہد کی علامت بن چکا ہے۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے وہ برسوں سے بھارت کے جبر و تشدد کے خلاف سینہ سپر ہیں، لیکن ان کی جدوجہد تشدد سے پاک اور سیاسی عمل کے ذریعے رہی ہے۔ انہوں نے اسلحہ چھوڑ کر پرامن جمہوری جدوجہد کا راستہ اپنایا، جسے دنیا بھر میں سراہا گیا۔ تاہم آج یہی انسان بھارت کے اندر ہندوتوا کی انتقامی سیاست کا نشانہ بن چکا ہے اور اس پر لگائے گئے جھوٹے الزامات کی بنیاد پر سزائے موت دیے جانے کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔یاسین ملک اس وقت نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان پر دہشت گردی اور بغاوت جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں، جنہیں بین الاقوامی انسانی حقوق کے ادارے، ماہرین قانون اور مبصرین سیاسی انتقام کے مترادف قرار دے چکے ہیں۔ ان کی زندگی کو لاحق خطرہ صرف ایک شخص کی جان کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری کشمیری قوم کی سیاسی شناخت، جدوجہد، اور اخلاقی جواز پر حملہ ہے۔حالیہ دنوں میں امریکہ میں مقیم ممتاز کشمیری رہنما راجہ مظفر خان نے یاسین ملک کیخلاف بھارتی حکومت کے اس ممکنہ اقدام کیخلاف ایک بین الاقوامی آن لائن سیمینار منعقد کیا، جس میں دنیا بھر سے ساٹھ سے زائد ممتاز افراد، دانشور، سیاسی و سماجی کارکن، انسانی حقوق کے نمائندے اور کشمیری ڈائسفورا نے شرکت کی۔اس اجلاس کا مقصد ایک مربوط عالمی حکمتِ عملی تشکیل دینا تھا تاکہ یاسین ملک کی جان کو لاحق خطرات کے خلاف مثر آواز بلند کی جا سکے۔اس سیمینار کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں شرکت کرنے والے بیشتر کشمیری بزرگ رہنما وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگیاں تحریکِ آزادی کشمیر کے لیے وقف کر دیں۔ ان میں سے کئی بزرگ ایسے بھی ہیں جو برسوں سے امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں اپنے وسائل پر کام کر کے مسئلہ کشمیر کو عالمی ضمیر کے سامنے اجاگر کرتے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ان میں سے کچھ بزرگ اس جدوجہد کے دوران دنیا سے رخصت ہو چکے، مگر ان کا مشن آج بھی زندہ ہے۔ راجہ مظفر خان جیسے رہنماؤں کی مسلسل کاوشیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ کشمیری قوم اپنے ہیرو کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گی۔سیمینار میں اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے کئی تجاویز سامنے آئیں۔ ایک اہم تجویز یہ تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی جائے اور انہیں قائل کیا جائے کہ وہ یاسین ملک کے معاملے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے سفارتی سطح پر بات کریں، کیونکہ ان دونوں رہنماں کے ماضی میں بہتر تعلقات رہے ہیں۔ ایک اور اہم تجویز سابق بھارتی وزیراعلی فاروق عبداللہ کو اس معاملے میں مداخلت کے لیے آمادہ کرنے کی بھی دی گئی، تاکہ بھارت کے اندر سے بھی یاسین ملک کے حق میں آواز اٹھائی جا سکے۔سیمینار میں رفیق ڈار، پروفیسر ظفر خان، محمد حلیم خان، غلام نبی فائی، صابر گل اور جے کے ایل ایف کے دیگر کئی سینئر رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ یاسین ملک کے دفاع میں عالمی سطح پر 10 نومبر سے قبل بھرپور مہم شروع کی جائے گی۔اس مہم میں احتجاجی مظاہرے، دستخطی مہمات، سفارتی رابطے اور سوشل میڈیا کمپینز شامل ہوں گی تاکہ عالمی رائے عامہ کو بھارت کے ان غیر انسانی اقدامات کے خلاف متحرک کیا جا سکے۔عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے یہ ایک بہترین موقع ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے، اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی فورمز اگر واقعی انسانی حقوق کے محافظ ہیں تو یہ انکے لیے امتحان ہے۔ اگر ایک پرامن سیاسی رہنما کو محض اسکے نظریات کی وجہ سے سزائے موت دی جاتی ہے اور دنیا خاموش رہتی ہے، تو یہ عالمی انصاف کی ساکھ کیلئے ایک شدید دھچکا ہوگا۔پاکستان کو بھی اس معاملے میں سنجیدہ، عملی اور قانونی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ محض بیانات کافی نہیں۔ سب سے اہم قدم یہ ہے کہ یاسین ملک کا مقدمہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے جایا جائے، جہاں بھارت کی عدالتی ناانصافی اور سیاسی انتقام کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جا سکے۔اسکے ساتھ ساتھ، اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے دوران پاکستان کو بھرپور سفارتی مہم چلانی چاہیے اور یاسین ملک کے معاملے کو ایجنڈے پر لانا چاہیے۔امریکہ اور یورپ میں مقیم کشمیری ڈائسفورا پہلے ہی متحرک ہے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ ترتیب دیا جا رہا ہے، جبکہ لندن میں 17سے 20ستمبر کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے ممکنہ دورہ برطانیہ کے موقع پر بھی ایک بھرپور مظاہرہ کیا جائے گا۔ اس موقع پر تمام کشمیری تنظیموں کو متحد ہو کر شرکت کرنی چاہیے تاکہ ایک موثر پیغام دنیا کو جائے کہ کشمیری قوم اپنے رہنما کو موت کے منہ میں نہیں جانے دے گی۔یاسین ملک کو بچانا صرف ایک سیاسی قیدی کو بچانا نہیں، بلکہ یہ پوری کشمیری قوم کی پرامن جدوجہد، عزتِ نفس اور انسانی حقوق کے تحفظ کی جنگ ہے۔ اگر ہم آج خاموش رہے تو آنیوالی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی، اور تاریخ ہمیں ان قوتوں کے ساتھ کھڑا دکھائے گی جو ظلم کے ساتھی تھے، انصاف کے نہیں۔ آج بولنے، کھڑے ہونے اور عمل کرنے کا وقت ہے کل بہت دیر ہو چکی ہو گی۔مجھے بھی اس سلسلے میں گفتگو کرنے کی دعوت دی گئی میرا موقف یہ تھا کہ رواں سال 22 اپریل کو کشمیر پہلگام حملے کے بعد جو مئی میں پاک بھارت جنگ ہوئی ہے اس کے بعد بھارت بین الاقوامی برادری کو پاکستان کے پہلگام حملے میں کوئی ثبوت دینے میں ناکام رہا ہے اور یاسین ملک کو پرانے مقدمات میں خدانخواستہ پھانسی چڑھا کر یہ پروپگنڈہ نہ شروع کردے کہ یاسین ملک نے دہشت گردوں کو فنڈنگ کی تھی یا منصوبہ بندی کی تھی یا بھارت کو جس طرح پاکستان سے شکست ہوئی ہے اور نریندرمودی پر تنقید ہورہی ہے وہ اپنی عوام کو مطمئن کرنے کے لئے یاسین ملک بیگناہ کو ہی نشانہ نہ بنا دے اس سلسلے میں کشمیریوں کو باہم متحد ہونا ہوگا امریکہ لندن برسلز میں کشمیری ڈاسفورا بڑی تعداد میں موجود ہے سب کشمیر کی آزادی چاہتے ہیں کشمیری لیڈروں کی رہائی چاہتے ہیں جاوید راٹھور ہو یا غلام نبی فائی ہوں سردار ظریف، سردار زبیر راجہ مختار، پروفیسر رفیق بھٹی،لندن میں تحسین گیلانی، لارڈ قربان، لارڈ نزیر،سردار جاوید عباسی، راجہ نجابت محمد غالب، فہیم کیانی یا دیگر افراد مخلصانہ طریقے سے کوشاں ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ یہ سب اپنے اپنے نظرئیے اپنی جماعت اور اپنے اپنے بینرز کے تحت کام کررہے ہیں یہ ساری قوتیں جب تک یکجا نہ ہوں اس وقت تک خاطر خواہ نتائج برامد نہیں ہوسکتے ۔میری دست بدستہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ سے گزارش ہے خدا راہ بیرونی دنیا میں کشمیریوں کو متحد کرنے میں اپنا رول ادا کریں تقسیم نقصان دہ ہے اور ایسے دوستوں سے بھی گزارش ہے جو یہ نعرے لگاتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی فوج اوٹ اوٹ فرام کشمیر – اگر پاکستان کی افواج آزاد کشمیر سے نکل جائیں گئیں تو پھر انڈین کی فوج آزاد کشمیر میں اپ کی جان و مال حفاظت کرے گی؟