کالم

بے آسراوں کا سہارا

riaz chu

ملک بھر میں سٹریٹ چلڈرن کی بڑھتی ہوئی تعدادکے پیش نظرفوری اقدامات اٹھانا ہم سب کا اخلاقی فرض ہے۔ اس وقت پاکستان میں قریباََ 15لاکھ سٹریٹ چلڈرن ہیں جو حکومتی عدم توجہ اورمعاشرتی رویوں کے باعث گھروں اور تعلیمی اداروں میں اپنا وقت گزارنے کی بجائے سٹرکوں پروقت گزارنے پر مجبور ہیں۔ الخدمت فاﺅنڈیشن اس وقت چاروں صوبوں میں 65چائلڈ پروٹیکشن سنٹر چلا رہی ہے جن میں2750بچوں کو رسمی و غیر رسمی تعلیم، صحت کی بنیادی سہولیات، حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق خورک کے ساتھ ساتھ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں فراہم کی جارہی ہیں۔ ایجوکیشن پروگرام میں نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کےلئے سکل ڈویلپمنٹ سینٹرز کا قیام بھی عمل میں جاری ہے۔ اِس وقت الخدمت کے تحت 103 سکل ڈویلپمنٹ سینٹر ز میں 6 ہزار سےزائد مرد و خواتین ہنر مند بن کر اپنے اور خاندان کےلئے روزی کا باعث ہیں۔ ان بچوں کو الخدمت فاو¿نڈیشن سے وظائف و رہنمائی ملی اور انہوں نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں ان کے بارے میں شعیب ہاشمی نے بتایا کہ لالہ موسیٰ کے قریب گجو گاو¿ں سے تعلق رکھنے والے عمران خان نے میٹرک میں اے پلس نمبر تو لے لیے لیکن گھریلو مالی دشواریوں کے باعث مزید تعلیم کا حصول نا ممکن نظر آرہا تھا۔” الفلاح سکالرشپس “کوعمران کے گھریلو حالات کا معلوم ہوا تو انہوں نے عمران کا ہاتھ تھاما۔ ا±سے سویڈش انسٹی ٹیوٹ گجرات میں داخلہ دلوایا۔ عمران نے دل لگا کر محنت کی اور ڈپلومہ امتحان میں پنجاب بھر میں پہلی پوزیشن لی۔ا±س کا داخلہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں ہو گیا۔ الفلاح نے مالی مدد جاری رکھی اور عمران نے 2007 میںB.sc انجینئرنگ مکمل کر لی۔ کچھ عرصہ پہلے میٹرک میں نمایاں نمبر لینے کے باوجود جو بچہ صرف مالی دشواریوں کے باعث گلی محلوں میں آورہ گھومنے پر مجبور تھا ، آج وہ قطر میں گیس اینڈ آئل فیلڈ میں بطور سینئر انجینئرکام کر رہا ہے اورنہ صرف اپنے بہن بھائیوں اور خاندان کو بہتر معیار زندگی فراہم کر رہا ہے بلکہ اِس کے ساتھ ساتھ الفلاح کے نامزد ایک ضرورت مند طالب علم کو مستقل اََسپانسر بھی کر رہا ہے۔ کوٹلہ ارب علی خاں کی شبانہ جسے حصول علم کے شوق کے باوجود بڑا خاندان اور گھریلو حالات تعلیم کے حصول میں رکاوٹ تھے۔ الفلاح نے شبانہ کا حوصلہ بڑھایا اور سکالرشپ فراہم کیا۔ شبانہ کوثر نے 2007 میں اے گریڈ کے ساتھ ایم۔ ایس۔سی۔ مکمل کی۔ آج کل کوٹلہ ارب علی خاں میں گورنمنٹ کالج کی پرنسپل ہیں اور سینکڑوں طالبات کو روشنی کے سفر پر رہنمائی کر رہی ہیں۔ ضلع لورالائی بلوچستان کی رہائشی مریم رشی۔ خاندان میں چار بہنیں اور ایک بھائی ہے۔والد ایک چھوٹی سی ڈسپنسری میں ملازم تھے۔ اللہ نے مزید آزمائش میں ڈال دیا، والد بھی فوت ہو گئے۔ اسے لگا کہ دنیا اندھیر ہو گئی ہے۔مگر مریم نے ہمت نہ ہاری۔ الفلاح نے مالی سہارا دیا اوراب مریم انجینئرنگ مکمل کر کے واپڈا ہاو¿س لاہور میں بطور ایس۔ڈی۔او۔ ایک کامیاب زندگی کا آغاز کر چکی ہے اوراس کی بہنیں بھی تعلیم کے سفر پر رواں دواں ہیں۔ قدسیہ شمیم ہمت اور لگن کی ایک اور داستان ہیں۔ ضلع منڈی بہاو¿الدین کی یہ پ±ر عزم طالبہ ادب ،کھیل اور تقریری مقابلوں میں 29 میڈل جیت چکی ہے۔ اس نے 2012 میں علامہ اقبال میڈیکل کالج سے فیزیو تھراپی میں بی ۔ ایس ۔ آنرز مکمل کیا پھر ڈاکٹر آف فیزیو تھراپی کا امتحان پاس کرکے سی ایم ایچ لاہور میں ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ پشاور کا ایک ایسا نوجوان جو بچپن ہی سے معاشی مشکلات کے گرداب میں پھنسا ہوا تھا۔ اس کا بچپن کاغذ چنتے اور ردی اکٹھے کرتے گزرا۔ اس کے والد فروٹ منڈی میں چوکیدار تھے لیکن اب بیماری اور بڑھاپے کی وجہ سے صاحب فراش ہو چکے ہیں۔اس طرح کے معاشی حالات کے اندر اس نے اپنی زند گی کے سفر کو جاری رکھا اور کاغذ چننے کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ سکول میں داخلہ لے لیا جب وہ سکول میں تھا تو گھر کے حالات ایسے ہو گئے کہ اسے اپنی تعلیم جاری رکھنا مشکل لگ رہا تھا۔ ایسے میں الخدمت فاو¿نڈیشن نے اس کا ہاتھ تھاما اور پہلے اسے میٹرک اور پھرانٹرمیڈیٹ تک تعلیم مکمل کروا دی۔ اب وہ NADRA میں بطور سوفٹ وئیر انجینئر اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے