کالم

بے نظیر بھٹو شہید وطن کی بہادر لیڈر کو سلام ِ!

27 دسمبر2007 ءکی شام پاکستان کی تاریخ میںایک غمناک شام کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائے گی جب لیاقت باغ کے میدان سے دُختر پاکستان بے نظیر بھٹو کو نکلتے ہوئے ظالم دہشت گردوں نے جمہوریت کی بقا ءکی جدوجہد کرنے والی بھٹو شہید کی بیٹی کو شہید کردیا۔آج سترہ سال ہوگئے ۔اس دوران پیپلز پارٹی کی حکومت بھی آئی ۔اتحادی ن لیگ کے ساتھ اب بھی حکومت میں ہے اور عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد جو اتحادی حکومت ایک سال سے زائد رہی اس کا حصہ بھی پاکستان پیپلز پارٹی تھی ´۔جنا ب آصف علی زرداری دُوسری بار پاکستان کے صدر پاکستان بن گئے مگر بی بی کے نہ قاتلوں کا سُراغ لگ سکا اور نہ ہی کوئی عدالت کی طرف سے بے نظیربھٹو شہید کے قاتلوں کے لیے فیصلہ لکھا جاسکا۔ گڑھی خُدا بخش میں ابدی نیند سونے والی عظیم قائد آج اپنے انصاف کے لیے اپنی جماعت کی طرف دیکھ رہی ہے ۔جس نظریے وآزادی جمہوریت کے لیے وطن کی بہادر بیٹی نے جان دیا اس کو کس نے کس کے کہنے پر شہید کیا۔یہ سوال عدلیہ کے لیے بھی ہمیشہ انصاف کی گھنٹیوں کے درمیا ن اپنے لیے جواب مانگ رہا ہے ۔ بھٹو شہید کے کیس کو تو عدلیہ نے بھی چھیالیس سال بعد مانا کہ یہ غلط فیصلہ تھا مگر بھٹو شہید اپنی بیٹی کے قاتلوںتک پہنچنے والے فیصلے کا بھی انتظار کررہے ہوں گے کہ کب یہ فیصلہ بھی آئے۔ آج بھی لوگ بھٹو شہید اور بے نظیر بھٹو شہید کے نام پر پیپلز پارٹی کا ووٹ قومی وصوبائی اسمبلیوں میںپڑتا ہے۔بے نظیر بھٹو نہ جمہوریت کی جنگ گیارہ سال آمروںکے ساتھ لڑی۔ بھٹو شہید کے بعد اِن کی بیوی نصرت بھٹو مرحومہ اور بے نظیربھٹو شہید نے جس ہمت ،حوصلہ ساتھ جبر وطاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کیا اور پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب گیار ہ سالہ جلاوطنی کے بعد قوم نے والہانہ استقبال کیا اور جمہوریت کی جیت ہوئی اور بے نظیر بھٹو شہید نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اِسلام کی پہلی خاتون مسلم وزیر اعظم بن گئی ۔وہ 21جون 1953ءکوکراچی میں پیدا ہوئیں ۔بے نظیر بھٹو شہید نے عملی سیاست میں حصہ لینے سے قبل ہارورڈ یونیورسٹی اورآکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کی۔تعلیم مکمل کرنے کے بعدپاکستان آئیںجب اِس کے والد پاکستان کے وزیر اعظم تھے مگر پھر چند ہی ماہ میں اِن کے والد کے اقتدار کاتختہ اُلٹ دیا اورپاکستان میں مارشل لاءضیا الحق نے لگا دیا۔ایک سیاسی گھرانہ جس میں اِن کو وراثت میں ذوالفقار علی بھٹو شہید اور اپنی والدہ نصرت بھٹو کی سیاست ملی جب اُنہوںنے تعلیم مکمل کرنے کے بعد سیاست کے خاردار راستوں میں اُس وقت کے حالات کے مطابق آنا پڑا۔ان کے والد کو پھانسی دے دی گئی تھی۔گیارہ سالہ جلاوطنی کی زندگی اِن کو اوران کی والدہ کو گزارنی پڑی اورسیاسی بحران کی وجہ جلاوطنی میں زندگی گزارنی پڑی ۔وہ اپنی والدہ ساتھ دوبئی شفت ہوگئیں ۔ اُنہوںنے دُوسرے مُلک میں رہ کر جماعت کومتحرک کیا اور بھٹو شہید کے جیالوں اورپارٹی کی ساری قیادت کے ساتھ رابطہ میںرہیں۔ وہ1986 میں وطن واپس آئیں اور قوم نے ان کا لاہور ایرپورٹ پر والہانہ استقبال کیا۔ اگست 1988ءکوضیا الحق کے طیارے حادثہ بعد جنرل اسلم بیگ نے مُلک کی قیادت سنبھالی اور عام انتخابات کا اعلان کیا۔وہ اُس وقت کی برطانیہ کی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کی تھیچرائٹ اکنامکس سے متاثر تھیں اِس لیے الیکشن سے قبل ہی اُنہوں نے پی پی پی کے پلیٹ فارم کو ایک سوشلسٹ سے لبرل میں بدل دیا تھا ۔ الیکشن میںبے نظیر کی جماعت کو اکثریت ملی اور وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیرا عظم 2دسمبر1988ءکو بنی ۔اُن کو دُنیا کی پہلی مسلم خاتون وزیراعظم بننے کا بھی اعزاز حاصل ہوگیا۔اِن کی حکومت کو بدعنوانی سمیٹ دیگر چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان مرحوم نے بیس ماہ بعد ہی اِن کی حکومت کواپنے آئینی اختیارات جو کہ اِن کو آٹھویں ترمیم کی وجہ سے ملے تھے اِن کی طاقت پر مختلف الزامات اقرباءپروری ، بدعنوانی وکرپشن الزام لگا کر برطرف کردیا ۔1990ءسے 1993ءتک میاں نواز شریف کی حکومت رہی اور پھر انہیں بھی صدر غلام اِسحاق خان نے کرپشن کی بنیاد پر فارغ کردیا اور پھر الیکشن ہوئے اور پھر سے پاکستان پیپلز پارٹی کی جیت ہوئی اور بے نظیر بھٹو دوُسری بار مسند اقتدار پر آگئیں ۔ اپنے دونوں اقتدار میں اُنہوں نے عوام کی فلاح وبہبود پر کام کیا۔1995ءکی ایک ناکام بغاوت بے نظیر حکومت کے خلاف میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کی قیادت میںِ کی گئی ۔اِن کی اپنی ہی جماعت کے دیرینہ کارکن جو ساری جدوجہد میں بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ رہے ۔اِن کو جب پارٹی نے اِن کی خدمات کے عوض صدر پاکستان کا عہدہ دیا تو یہی فاروق لغاری نے جماعت پر الزامات لگا کر اپنی ہی حکومت کو فارغ کردیا۔پھر 1997ءکا الیکشن جماعت ہار گئی اور پھر بے نظیر بھٹو میں وہ خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی اورتک لندن اوردوبئی میں اپنا وقت گزارا۔اُس وقت کے صدر پرویز مشرف کے ساتھ امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے بعدوہ 2007ءمیں 2008ءکے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پاکستان واپس آئیں تو پھرعوام نے اپنی آنکھیں بے نظیر بھٹو شہید کے راستے میں بچھائیں۔اِس کے پلیٹ فارم نے فوج کی سویلین نگرانی اورمُلک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی مخالفت پر زور دیا۔پھر 27دسمبر کولیاقت باغ کے میدان میں جلسہ ختم ہونے بعد جب وہ ایک جم غفیر کے ساتھ واپس جارہی تھیں اِن کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا ۔ اِن کو زخمی حالت میں جنرل ہسپتال مری روڈ لایا گیا مگر وہ زخموںکی تاب نہ لاسکیں اور زندگی کو خداحافظ کہہ گئیں ۔سلفی جہادی گروپ القائد ہ نے بعد میں اِس کی ذمہ داری قبول کر لی مگر تاحال بے نظیر کے قاتلوں کو سزا نہ مل سکی۔ایک لیڈرجو ایک نظریے جمہوریت کے ساتھ پاکستان کی مٹی سے مخلص تھا جس نے ساری زندگی جمہوریت کی بقاءکی جنگ لڑتے ہوئے گزارہ وہ لیڈر ظالموں نے اِس قوم سے چھین لیا۔جس کا پوراخاندان جمہوریت پر قربان ہوگیا ،جس کی وجہ سے آج بھی بین الاقوامی دُنیامیں بے نظیر بھٹو کی پہچان سے پاکستان کو جانا جاتاہے کہ وہ پاکستان کی ایک بہترین لیڈر تھیں۔وہ اپنے ورکرز کو اپنا قیمتی اثاثہ سمجھتی تھیں اورہر خوشی غمی میں ،مشکل میں اِن کے ساتھ اقتدارمیںہوتے ہوئے اور اقتدار سے باہر بھی جب ہوتی تھیں وہ موجودہوتی تھیں ۔اِس مُلک کی بیٹی کو وہ بے نظیر بنا چاہتی تھیں ۔وہ ہربچے کو بلاول جیسا مستقبل دینے کاخواب دیکھتی تھیں ۔روٹی کپڑا مکان ہر ایک کی دسترس میں عملی طور پر ممکن بنانے کا خواب وہ پُور ا کرکے اپنے باپ کے نعرے کو عملی جامہ پہنانا چاہتی تھیں۔وہ کہتی تھیں بے شک جمہوریت بہترین انتقام ہے اوراِس نے زندگی میں طاغوتی ،ظلم وجبر کے بُت پاش پاس اپنے اِسی فلسفے ونظریے سے کیے اوراپنے باپ کا مشن عوامی کی خدمت کا جاری رکھا۔اللہ تعالی ٰ بے نظیر بھٹو شہید کو جنت میں بلند درجہ عطا فرمائے (آمین)۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے