کالم

تاریخ کا قرض

اگست کا مہینہ آتاہے توپون صدی پرانے زخموں سے خون رسناشروع ہو جاتا ہے ،سینے میں جیسے دھویں کے سبب سانس اکھڑنے لگتاہو، تصورمیں عورتوںکی کربناک چیخیں، نیزوں کی انی پر پروئے اپنے جگر گوشوںکی خون میں لت پت لاشوںکو دیکھ کربین کی صدائیں، عزت بچانے کی خاطر کنوئوںمیںچھلانگ لگانے والی بہنوں ، بیٹیوں کی دم توڑتی آوازیں ان کا تعاقب کرنے والے وحشی درندوںکے مکروہ قہقہے کانوںمیں گونجتے ہیں تو دل پھٹنے لگتاہے یاپھر میلوں لمبی مہاجرین کی قطاریں، بھوکے پیاسے بچوں، خواتین اور بزرگوں کی بے بسی اور ان پرہندو، سکھ بلوائیوںکے حملے،لوٹ مار،قتل و غارت کی کہی ان کہی کہانیاں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں تو کلیجہ منہ کو آتاہے لاہورکی فضائوںکو یقیناوہ منظربھی نہیں بھولا ہوگا جب قیام پاکستان کے اگلے روز آنے والی خون میں ڈوبی ریل اس کے تمام مسافراپنے ہی لہومیں ڈوبے آڑے، ترچھے ،کٹے، پھٹے جسموںکے ساتھ پلیٹ فارم پررکی تو ظلم وبربریت دیکھنے والی ہر آنکھ اشکبار تھی۔ یہ قیام پاکستان کا منظرنامہ تھا اب اس کا پس منظر جانے بغیر تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی1857ء کی کہانی کی نقاب کشائی کرتے ہوئے ایک انگریز مورٔخ ٹامسن کا کہنا تھا ”دہلی کے چاندنی چوک سے پشاور تک درختوں پر علماء کی گردنیں اور جسم لٹکے ہوئے ملتے تھے۔ روزانہ 80 علماء پھانسی پر لٹکائے جاتے تھے۔ میں دہلی کے ایک خیمے میں بیٹھا تھا، مجھے گوشت کے جلنے کی بو آئی، میں نے خیمے کے پیچھے جاکر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آگ کے انگاروں پر تیس چالیس علماء کو ننگا کر کے ڈالا جا رہا ہے۔ پھر دوسرے روز 40 افراداسی طرح لائے گئے انہیں ننگا کرکے بے انتہا تشددکیا گیا، ایک انگریز افسر نے ان سے کہا اگر تم1857 کے غذر میں شرکت کرنے والوںکے نام افشاء کر دو تو تمہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ ٹامسن کہتا ہے کہ ” خدا کی قسم سارے علماء جل کر مر گئے یعنی شہید ہوگئے مگر کسی ایک نے بھی انگریز کے سامنے گردن نہیں جھکائی”۔ نیرنگیٔ سیاست دوراں تو دیکھئے منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے افسوس صد افسوس آ ج ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں برطانوی سامراج کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے ، برطانوی جیلوں میں کوڑے کھانیوالے ‘غدار’ اور تاج ِ برطانیہ کے جوتے چاٹنے والے ‘آزادی کے ہیرو’ کہلاتے ہیں جو انگریز کے مخالف تھے انکے جسم انگریز نے توپوں کے آگے باندھ کر کر اڑا دئیے ، انکو پھانسیوں پر چڑھا کر انکی لاشوں کو جلا دیا گیا ، انکی راکھ کو دریاؤں میں بہا دیا گیا اسے تاریخ کا ستم کہیے کہ پاکستان کے مخالفین کی عیاری کہ آج کی نسل ان مجاہدوں کے نا م بھی نہیں جانتی جنہوں نے اپنی جانوںکا نذرانہ پیش کرکے جرأت و بہادری اور سرفروشی کی نئی تاریخ رقم کی تھی جنگ آزادی کے ہیروز میں سب سے پہلامقام مولانا کفایت اللہ کافی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کا ہے جن کو انگریزوں نے توپ کے آگے باندھ کر شہید کردیا جنکا آخری کلام تھا نہ کوئی گل باقی رہے گا نہ کوئی چمن رہ جائے گا بس محمد ۖ کا دین حسن باقی رہ جائے گا درجنوں رہنمائوں کی ہڈیاں کالا پانی کی جیل میں سڑ گئیں جنگ آزادی میں جب جرنیل بخت خان کی سرکردگی میں عارضی طور پر بہادرشاہ ظفر کی شاہی بحال کرتے ہوئے نظم ونسق قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو ایسے میں بادشاہ بہادرشاہ ظفرنے ایک مجلس تشکیل دی جس میں بخت خان کے ساتھ علامہ فضل حق خیرآبادی بھی شامل تھے جنھوں نے کمپنی بہادر کی لْولی لنگڑی بادشاہت کی بجائے باقاعدہ حکومت کیلئے ایک دستوری نظام مرتب کرکے آخری تاجدار کے حضور پیش کیا تھا۔ علامہ فضل حق کو عام معافی کے اعلان کے باوجود، اْن کے گھر سے بھوکا پیاسا گرفتار کرکے ‘کالاپانی ‘ بھیجا گیا۔ انھوں نے قیدوبند کی صعوبتوں میں بھی اپنا علمی کام جاری رکھا اور جب ایک مدت کے بعد، اْن کے فرزند علامہ عبدالحق خیر آبادی، اْن کا پروانہ رہائی لے کر انڈیمان پہنچے تو دیکھا کہ حضرت کا جنازہ جارہا ہے۔ (شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا میں ان کا سن پیدائش سہواً 1211ھ مطابق 1796/97ء اور سن وفات 1862ء درج ہے) کالاپانی میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے ایک اور مذہبی راہنما مولوی جعفر تھانیسری بھی نمایاں ہیں، جن کی کتاب ‘تواریخ ِ عجیب’ عرف ‘کالاپانی’ اسی موضوع پر بہت مشہور ہے۔ وہ سترہ سال دس ماہ تک وہاں قید رہنے کے بعد اپنے وطن تھانیسر، انبالہ (ہندوستان)واپس پہنچے تھے ۔ ” بڑا تو طرم خان بناپھرتاہے” کہاوت کے جیتے جاگتے کردار طور باز خان یا طرم خان حیدرآباد دکن کی مزاحمتی تحریک کے سربراہ تھے جنہیں 1857ء میں بغاوت کے الزام انگریزوں نے پھانسی دیدی اور ان کی جائیداد بحق ِ سرکار ضبط کرلی گئی۔آپ نے پنجاب کے مجاہد ہیرو سردار محمد احمد خان گھرل، عبداللہ بھٹی ،احمد خان کھرل، سلطانہ ڈاکو ،ملنگی،کاکا لوہار سمیت مزید کئی مجاہدین نے انگریز کا ناطقہ بند کئے رکھا یہ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے اور ان ہیروز کے حالات ِ زندگی،جدوجہد اور کارناموں کو کبھی ہمارے نصاب میں شامل ہی نہیں کیا گیاجنہوں نے انگریزوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا نصاب میں صرف چاپلوس غداروں کو ہیرو بناکرپیش کیا یہ کردار صرف فلموںتک محدود ہوکررہ گئے جو پاکستان کے سخت مخالف تھے ان کو بھی آزادی کے ہیرو بناکرتاریخ کو مسخ کر دیاگیا یہ مکروہ عمل آج بھی جاری ہے ۔قائد اعظم محمدعلی جناح کا ساتھ دینے والے ساری خانقاہیں، آستانے، پیر فقیر اور درویش تھے جن میں پیر سید جماعت علی شاہ پیش پیش تھے، پیر صاحب آف مانکی شریف ،میر محراب خان،کوڑا خان قیصرانی،غلام حسین مسوری بگٹی، علی حان مری، یوسف قیصرانی ،کاکا جی صنوبر حسین اور علامہ عبدالرحیم پوپلزئی بھی ابھی تک تاریخ کا حصہ نہیں بنے،عجیب بات ہے ہمیں آج تک کسی نے نہیں بتایا، کسی نے نہیں پڑھایا کہ کوئی بنگال کے فضل اللہ بھی تھے جوتحریک پاکستان میں پیش پیش تھے ،سندھ اسمبلی کے سپیکر جی ایم سید نے سب سے پہلے سندھ اسمبلی سے قرارداد پاکستان منظور کروائی، بلوچستان کے سردار اکبربگٹی نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیکر بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنا دیا ،خان عبدالقیوم خان نے احراریوں کو ریفرنڈم میں شکست ِ فاش دیکر ان کے عزائم خاک میں ملادئیے۔ اب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یہ بہت بڑا ظلم ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے