کالم

تبصرہ :کتاب حالِ سفراز فرش تا عرش

راقم ایک سادہ سا مسلمان ہے۔ قرآن و حدیث کے مسلسل مطالعہ سے ہمیشہ نیکویوں کی طرف رجوع کرتا ہے۔ برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب بھی کوئی معاملہ سامنے آتا ہے ،تواس کے مثبت پہلو کی طرف ذہن جاتا ہے منفی پہلو کی طرف نہیں۔مطالعہ کا شوق ہے۔ مطالعہ کے دوران یا فیس بک پر کسی کتاب کا ایڈ آئے، یاکسی دوسرے ذرایع سے کوئی نئی کتاب سامنے آتی ہے اُس کامطالعہ کرتا ہوں۔ مطالعہ کے بعد ابلاغ کے لیے تبصرہ لکھے کر اخبارات میں شایع ہونے کے لیے بھیج دیتا ہوں۔اس طرح تقربیا سوا سو کے قریب کتب پر تبصرہ کر چکا ہوں۔ جو اخبارات میں شایع بھی ہوئے ہیں۔ ان میں کچھ کو اپنی کتاب”کتابیں اپنے آبا کی ” میں پیش کر چکا ہوں ۔ ” کتابیں اپنے آباکی” حصہ دوم میں مذید تبصرے بھی شایع کروں گا۔ ان شاء اللہ۔ عرصہ داراز سے شعبہ علم و ادب،قلم کارواں، زیر اہتمام جماعت اسلامی، حلقہ اسلام آباد کی نگرانی میں چل رہا ہے۔اس میں سیکرٹیری کی ذمہ داری ادا کر رہاہوں۔منگل کے روز مکان نمبر ١، اسٹریٹ ٣٨۔ جی سیکس ٹو۔ اسلام آباد میں بعد نماز مغرب پروگرام منعقد ہوتا ہے۔بدھ رات ١٠ بجے لہروں کے دوش پر”عالمی مجلس بیداری فکر اقبال” جمعرات ١٠ بجے رات” عالمی حلقہ ذکر و فکر تصوف”جمعہ رات ١٠ بجے ” عالمی حلقہ سیرت النبی ۖ” ہفتہ رات ١٠ بجے” عالمی حلقہ تعلیم و تحقیق” ایتواررات ١٠ بجے” عالمی حلقہ شاعری ” سوموار رات١٠ بجے” عالمی حلقہ درس قرآن مجید” باقاعدگی سے منعقد ہوتے ہیں۔ ان پروگراموں پاکستان اور دیگر ممالک سے اہل علم حضرات شریک ہوتے ہیں۔عالمی حلقہ ذکر و فکر تصوف میں سعودی عرب سے محترم کرنل ڈاکٹرزمان رنجھا نے حضرت فقیر پروفیسر باغ حسین کمال کی تصوف پر لکھی گئی کتاب ”حالِ سفر: از فرش تا عرش تک” کا تفصیلی تعارفی مکالہ پیش کیا۔میرے سمیت پروگرام میں شریک کچھ صاحبان نے کتاب حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ جناب یار محمد چوھدری کی طرف سے مجھے یہ کتاب ملی۔کتاب کے مصف تصوف کے سلسلہ کمالیہ کے حضرت فقیر پروفیسر باغ حسین کمال ہیں۔صفحہ نمبر۔١ پر لکھا ہے۔ یا اللہ جل جلالہ یا کیبر۔۔۔یا محمد صلی اللہ علیہ و سلم یا بشیر۔۔۔من کما لم من فقیر۔ مصنف صفحہ نمبر ٢ پر حضرت شاہ ولہ اللہ محث دہلوی کی کتاب”انسفاس العارفین” کے حوالہ دیتے ہوئے ہوئے لکھتے ہیں” حکایتِ مشائخ، اللہ کے لشکروں میں سے لشکر ہے” ویسے بھی حکایت کے بارے لکھا ہے کہ یہ کہانیاں ہوتی ہیںجن کا مقصد اخلاقی سبق دیناہے۔مصنف ایف اے پاس کرنے کے بعد میو نسپل چکوال میں بطور کلرک ملازمت اختیاکی۔پرائیویٹ طور پو منشی فاضل،بی اے، ایم اے اُردو پنجابی کے امتحانات پاس کیے۔ پروفیسری تک پہنچے۔ادبی ذوق میں نکھار پیداہوا۔قلم کار کی حیثیت سے نگارشات رسائل و جرائد ریڈو ٹی وی سے منظر عام پر آنے لگے۔ نصف شب تک گھر سے غائب رہنا معمول بن گیا۔مشاغل کے حاصل کو سامنے دیکھتا تو بے چینی ہوتی۔لکھتے ہیںبرادر بزرگ قاضی غلام علی سے حضرت مولانا اللہ یار خان منارہ میں ذکر کا تذکرہ کئی بار سنا تھا۔٢٩جولائی ١٩٧٥ء کو منار ہ جاپہنچا۔ استاد مکرم کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔سادگی کی تصویر، بلا کی کشش، سادہ چارپائی، سادہ بستر،مصنوعی وضع قطع،سج دھج کوئی نہیں۔کسی نے سوال پوچھا ٹیٹھ پنجابی میں وضاحت کرتے ۔ اذان کی آواز آئی تو سب نماز کی طرف چل پڑے۔کہا گیانماز کے بعد ذکر اب ذکر ہوگا۔ جو نئے حضرات ہیں وہ طریقہ سمجھ لیں۔ ذکر میں طرف پیر صاحب کی زیارت ہی کافی نہیں، بلکہ عملاً راہِ” طریقت ”پر گامزن کیا جاتاہے۔نماز کے بعد پیر صاحب کی مجلس میں جا بیٹھا۔ رات وہیں قیام کیا۔نماز مغرب کے بعد پیر صاحب نے ذکر کرنا شروع کیا۔مراقبات میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد جب چلومقامِ احدیث، مقامَ معیت، مقامِ اقربیت، فنا فی اللہ،بقاء باللہ، سالک المجذوبی، منازلِ بالا، سیرِ کعبہ، روضہ اطہر اور دربار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ گوجنے لگے، تو یوں محسوس ہوا کہ یہ قافلہ سالکان عالمِ بالا کے سفر پر جادہ پیما ہو چکا ہے اور بدنصیب پیچھے بے دست پا بیٹھاہے۔نمازعشاء ادا کرے سب سو گئے۔ سحر دم آواز آئی، بھائی صاحب اُٹھیے۔ نماز تہجد ادا کریں۔ پھرحضرت جی نے ذکر شروع کیا۔ پھر نماز فجر ادا کی۔مسجد سے اُٹھ کر سکول پہنچے۔ حضرت کی کی تصوف و سلوک پر شہکار کتاب”دلائل السلوک” ایک نشست میں پڑھ ڈالی۔ دل د دماغ میں زلزلہ آگیا۔ دوسرے دن دوران ذکر انتہائی نق و نگار کی تختیاں سینما سلائیڈ کی طرح نگاہوں کے سامنے گرنے لگیں۔ایک ساتھی، ایک صاحب کشف کے پاس لے گئے، کہا کہ وہ آپ کے لطائف کی حالت بتا دیں گے۔موصوف نے میرے سینہ پر نظر ڈالی اور کہا کہ آپ کے تین کے لطائف منور ہو چکے ہیں۔ دو مدھم ہیں کل تک وہ بھی روشن ہو جائیں گے۔میں نے کہا کہ اتنی جلدی۔ کہنے لگے ۔جی ہاں!حضرت جی سالوں کاروحانی سفر دنوں میں طے کراتے ہیں ۔آپ کو جو نقش نظر آئے ان میں سفید ، سبز،سرخ،سنہری رنگ تھے نا۔ جب نیلے اور سیاہ رنگ دکھائی دیے تو سمجھ لیجیے گا کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آپ کے تمام لطائف منور ہو گئے۔چار دن بعد گھر لوٹا۔٢٥ جولائی ١٩٧٦ء کو حضرت جی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں روحانی بیعت کے لیے پیش کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دست اقدس میں اس گنہ گار کے ہاتھ؟ کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ۔ میں دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔حضرت جی کا انتقال ١٩ فروری ١٩٨٤ء کو ہوا۔ مصنف نے اپنی تصوف کی طرف بڑھنے کی یہ رُوداد کے بعدقرآن کی سورة آلِ عمران 🙁 آیات ١٦٤) درج کی۔ جس میں اللہ اپنے رسولۖ سے فرماتا ہے ” حقیقت میں اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ انہی میں ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا جو ان کو اس کی آ یتیں پڑھ کر سناتا اور انہیں پاک صاف کرتاہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے”۔ اس کی تشریع بیان کرتے ئے مصنف لکھتے ہیں گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تعلیم و تربیت کے لیے دو انداز اختیار فرمائے۔ ایک علمی و ذہنی اور دوسرا روحانی و قلبی۔ راقم کو اس کتاب کی تحریروں سے نظر آتا ہے کہ پیر صاحب نے طریقت سکھائی جبکہ اللہ کے رسول تو آتے ہی شریعت سکھانے کے لیے ہیں۔بہر حال تصوف بھی اسلامی دنیا میںایک ادارہ ہے۔ یہ کتاب اس ذخیرہ میں ایک اضافہ ہے۔مگر آج کے زمانے میں تصوف بھی دیگر اداروں کی طرح زوال پذیر ہے۔ اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ہمارے قلم کارواں عالمی حلقہ ”ذکر فکر تصوف” کے منتظم ڈاکٹر یاسر حسین ستی الخیری اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ قلم کارواںسارے مکالہ نگار بھی اکثرموجودہ تصوف پر تنقید کرتے ہیں اور اصلاح کی طرف متوجہ کرتے رہتے ہیں۔یہ کتاب حضرت فقیر پروفیسر باغ حسین کمال کا تصوف کی جانے کا سفر نامہ ہے۔ جسے اہل علم نے پسند فرمایا۔ان میںحکیم محمد سعید، احمد ندیم قاسمی، پروفیسر پریشان خٹک ، پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل نیازی وغیرہ شامل ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے