میرے تحریکی ساتھی لطیف صاحب نے مجھے، دو کتابیں ایک ”قوانین فطرت کا حصار“ جو کہ سجاول رانجھا کی تحریر کردہ ہے جس پر آج تبصرہ کرنا ہے اور دوسری کتاب”عورت اور نسل“ ان کی اہلیہ محترمہ زہراخان صاحبہ کی تصنیف ہے(جس پرآئندہ کبھی تبصرہ کرینگے) ۔ہدیہ کے طور پر اور مجھے شعبہ علم و ادب، قلم کاروان جماعت اسلامی ضلع اسلام آباد، کے صدر نشین ڈاکٹرپروفیسر ساجد خان خاکوانی تک پہنچانے کےلئے پیش کیں۔اس کتاب کے مطالعہ سے قبل میں جناب سجاول خان رانجھاواقف نہیں ہوں۔ ان کتاب سے ان کے اوران کی اہلیہ کے متعلق معلومات ملیں ۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں زاہرہ خان رانجھا فرماتی ہیں کہ سجاول خان کے قلم سے رب کریم نے جو کام لینا تھا ،لے لیا جوانہوں نے پوری استعداد کے ساتھ 1991ءسے 2020ءراولپنڈی انسٹیٹیوٹ تک کارڈیلوجی(RIC) کی بیڈ پر آخری دنوں تک انجام دیا۔ پھر 8 ستمبر 2020ءکو رب تعالیٰ کابلاواآنے پر وہ ا س کے حضور پیش ہوگئے اور ”اقدار ملت“ کے پلیٹ فارم کاکام یہیں چھوڑ گئے۔۔۔ آخری بات پر ختم کرتی ہوں یہ وونوں لطیف بھائی اور سیف بھائی بغیر کسی لالچ کے اللہ کی رضا کی خاطر ” اقدار ملت پبلی کیشنز“ کا کام کر رہے ہیں ورنہ میرے بس میں نہ تھاس کہ یہ کام کر سکوں۔کتاب ”قوانینِ فطرت کا حصار“کے مطابق سجاول خان رانجھا ایک سینئنرصحافی، سفر نامہ نگار اور دانشور ہیں۔ 1971ءمیں پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹر کرنے کے بعد فرائی یونیورسٹی برلن جرمنی سے اس کا اعادہ کیا۔ پاکستان میں صحافت کا آغاز ملک کے معروف قومی روز نامے سے کیا۔ نصف درجن سے زائد میگزینوں اور اخبارات کے ایڈیٹر رہے۔ کالم نگاری بھی کی۔ ایک درجن کے لگ بھگ کتابوں کی تصنیف اور تالیف کی۔ ادب میں سفر نگاری ان کی پہچان ہے۔اسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈزسے وابستہ طارق جان، اس کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ سجاول خان رانجھا، وہ واقعتاً تبدیلی کے آدمی ہیں اور اسے جنون کے حد تک چاہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بلاشبہ وہ نشاة ثانیہ کے آدمی ہیں۔کتاب کے مصنف اس کتاب کے حرف مدعا میں تحریر کرتے ہیں کہ کائنات کاخالق نے اپنے عظیم الشان کارخانہ قدرت کی ساخت کی۔ سو کائنات طبعی قوانین کے تحت چل رہی ہے۔ زیر نظر کتاب میری سال ہاسال کی طویل ذہی، فکری ور مطعالتی میراتھن کانچور ہے۔ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ ہمارے صدیوں کے ذہنی جمود کے اصل اسباب کیاہیںاور کون سے راز ہیں، جن سے آ گاہی حاصل کر کے ہمارے ”کزنز“(راقم یہود ونصارا) نے زندگی کے ہرشعبے میں غلبہ حاصل کیا۔ اس کتاب کو پڑھ کر شاید آپ کو بھی اسباب زوال امت اور اپنی فکری پراگندگی اور مادی زبوں حالی کاسبب معلوم ہوجائے ۔کتاب کوبار بار پڑھیں ۔ کتاب ”قوانین ِ فطرت کاحصار“ بہترین کاغذ اور سورج جیسے چمکتے گیٹ اپ کے ساتھ شائع ہوئی۔ 302 صفحوں پر مشتمل کتاب کو تین بابوں میں تقسیم کیا گیاہے۔باب اوّل میں 22 مضامین، باب دوم میں 16، باب سوم میں 20 اور آ خر میں” یونیورسٹی آ ف دی یونیورس“ میں 5مضامین ہیں۔ باب اوّل کے پہلے دومضامین میں” کائناتی قوانین“ کا تعارف بیان کیاہے۔ ان پر عمل کر کے انسان آگے بڑھ سکتاہے۔پہلے باب کے آخری مضمون میں ”یقین ضروری ہے“ میں لکھتے ہیںکہ جب آپ کو آسمان بادلوں سے بھرا نظر آتاہے تو آپ کویقین ہوتاہے کہ بار ش ہو گی اور آپ تصور کر سکتے ہیں کی بادل بارش کی صورت میں ڈھل جائیں گے۔ باب دوم کے پہلے مضمون میں لکھتے ہیں کہ اندرون ڈکٹیٹ کرتاہے۔(راقم مراقبہ قسم کی بات) کہ ایک انسان تنہا ایک کمرے میں تین دن تک بیٹھ جائے۔ تو اُسے اپنی طبعی حالت ہر کنٹرول حاصل ہو جاتا ہے ۔ ہر قسم کی سوچ کامنبع داخلی دنیاہے۔ رسد کائناتی سر چشمہ۔ لا محدود ذخیرہ، ہر فرد جس کے اظہار کاذریعہ ہے۔اس باب کے آخری حصہ میں مضمون ”امیری سوچ۔ غریبی سوچ“ میںلکھتے ہیں کہ امریکا کوامکانات کی دنیا کہا جاتا ہے ۔ ایک امریکی دانش ور کی تھیوری” ارب پتی ذہن“ کے مطابق یہ ہر شخص کاذہنی رویہ اور داخلی ذہنی بلیو پرنٹ ہے، جو دولت لانے کا سبب بنتا ہے اور اس بات کو ڈکٹیٹ کرتاہے کہ آپ کا پیسے کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ اس کی تھیوری یہ کہتی ہے کہ لوگ مظلوم بننے کےلئے بہت کچھ قربان کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اور اپنے حالات پر اپنے کنٹرول سے انکار کر دیتے ہیں۔ (راقم !کاش کہ مصنف نے اپنے ملک کے کسی ایسے کامیاب شخص کا کیس سامنے رکھاہوتا۔ ًمثلاً،عاشوانی وغیرہ ، جو اپنی محنت سے کھرب پتی بنے) تیسرے باب میں پہلے مضمون ”معافی اپنے لیے“ میں لکھتے ہیں ۔ کوئی شخص ماضی کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ لیکن آپ خود کو اتنا مضبوط بناسکتے ہیں کی اپنے احساسات کو تبدیل کر لیں۔ یہ وہ اصل فرق ہے، جو آپ کی زندگی میں فرق ڈالتا ہے ۔ اسی باب کے آخری مضمون ”مابعدالطبیاتی ذہین (2)“ میں تحریرکرتے ہیں کہ جیسے ہی ذہن ما ل طبیاتی رویے میں داخل ہوتا ہے، وہ فوری طور پر تعمیری ہو جاتاے۔ بابعد الطبیاتی رویہ فطری لحاظ سے تعمیری رویہ ہے ۔ یہ اس یقین پر مبنی ہے کہ تمام چیزیں اپنی ذات میں اچھی ہیں اور کسی بڑی اچھائی کےلئے مل کر کام کر رہی ہیں۔ تمام طاقت طاقت اچھی ہے۔تمام طاقت تعمیری ہے اور تمام طاقت سود مند ہے، اگر اس کی حقیقی مقصد کےلئے اس کااطلاق کیا جائے۔اس کتاب کے آخری باب” یونیورسٹی آف دی یونیورس “ میںاقدار ملت ہاﺅس آف نالج اینڈ وزڈم اسلام آباد کا بنایا ہوا” کائنات کی عظیم الشان درس گاہ کاخاکہ“ لگا کر بتایا گیا ہے کہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں قوانین فطرت کے مطالعہ، ان کی فہم و ادراک اور ان کے ساتھ تعاون سے ہم ممکنہ حد تک ایک کامیاب، روح کو سیراب کرنے الی، خوش کن اور صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں ۔ (راقم اسی تناطر میں شاعر اسلام، فاسفی شاعر، ڈاکٹر شیخ علامہ محمد اقبالؒ ؒنے اپنے ایک شعر میں فطرت کی ترجمانی کی ہے“:۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کا کوہستانی
اس کتاب کے اختتام پر”کائناتی درس گاہ کا تعارف“ شامل کر کے کتاب کے قاری کے لیے آسانی پیدا کی گئی ہے۔ مذید چند اہم اصطلاحات اور طالب علم بمطابق قرآن و حدیث میں بھی اسلام ایک آفاقی مذہب ہے ۔ ایک اُفق سے دوسرے اُفق تک پھیلی وسیع، عریض کائنات کی طر ح یہ پوری بنی نو ع انسان کااحاطہ کرتا ہے۔تمام پیغمبروں ؑ کا مذہب اسلام تھا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے قوانین کو سنت ہے اور کہتاہے کہ وہ ان میں ردوبدل نہیں کرتا۔ وہ حضرت آدم ؑ کی بربنائے علم باقی مخلوقات پر برتری کی کہانی سناتاہے۔ اس کا رسو ل ہمیں مرنے تک علم حاصل کرنے کی تاکید کرتاہے۔ یہ زماں مکاں ،ہر دو کااحاطہ کرتاہے۔ قرآن میں انسانی معاملات سے لیکر آسمانی تخلیقات تک کون سا علم کاشعبہ، جس کا احاطہ نہیں کیا گیا۔ بار بار ہمیں زمین و آسمان کی ساخت پر غور و خوض کا تک کون سا علم کا شعبہ ہے، جس کا احاطہ نہیں کیا گیا۔ بار بار ہمیں زمین و آسمان کی ساخت پر غور و خوض کا کہا گیاہے۔ کس لیے کہا گیاہے؟ آفاقی سے مقامی اپروچ کا نتیجہ ہے کہ بقول علامہ محمد اقبالؒ:۔
نہ تو زمیں کےلئے نہ آسمان کےلئے
علامہ اقبالؒ کے اس مصرعہ پر اختتام کر کے قاری کو علامہ اقبالؒ کے کلام تک رسائی کااشارہ بھی ہے۔یہ کتاب ”قوانینِ فطرت کا حصار“قاری کو قوانین فطرت سے ہم آہنگ ہونے کےلئے اُبھارتی ہے۔ اس کا مطالعہ انسان کےلئے مفید ہے۔
کالم
تبصرہ کتاب ”قوانینِ فطرت کا حصار“
- by web desk
- جنوری 7, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 259 Views
- 6 مہینے ago