اداریہ کالم

تحریک انصاف کا ملک دشمن رویہ

idaria

پاکستان تحریک انصاف اپنے عملی اقدامات سے ثابت کررہی ہے کہ وہ اس ملک کے عوام کے ساتھ کسی طورپر مخلص نہیں ، تحریک انصاف کے قائد اپنے دور اقتدار میں بیرون ملک دوروں کے ددوران اپنے ملکی سیاستدانوں کو کرپٹ کہتے رہے ، اقتدار سے رخصت ہوتے وقت آئی ایم ایف کے ساتھ کئے ہوئے معاہدوں کو توڑ گئے اور اب جب ملک معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے تو آئی ایم ایف کے وفد کو دوران ملاقات یہ مشورے دیتے ہیں کہ یہ قرضے نہیں دینے چاہیے بلکہ پہلے حکمرانوں سے میرے خلاف قائم کئے جانے والے مقدمات ختم کرنے اور الیکشن وقت پر کرانے کی شرائط منظور کروائی جائے ، سوال یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم اپنے دور اقتدار میں اپنی اپوزیشن پر الزام عائد کرتے تھے کہ وہ غیر ملکی وفود سے کیوں ملتے ہیں ، گزشتہ روز آئی ایم ایف کے وفد سے ہونے والی ملاقات کو وہ کس زمرے میں لائیں گے اور دوسرا ان کا بڑا مقبول نعرہ ہے کہ ہم کوئی غلام ہے ، قوم کو وہ خود انحصاری کا درس دیتے ہیں مگر عملی طور پر کبھی وہ امریکا سے اقتدار کی بھیک مانگتے ہیں تو کبھی آئی ایم ایف سے درخواست کرتے ہیں ، ملکی سطح پر قوم کی قیادت کرنے والے افراد ذمہ دارانہ سیاست کرتے ہیں اور ان کا سارا بھروسہ اپنے اللہ پر اور اپنے عوام پر ہوتا ہے ، وہ کسی غیر ملکی اداروں کی طرف نگاہ اٹھانا بھی پسند نہیں کرتے ، جہاں تک مقدمات کا تعلق ہے وہ بانی پاکستان کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو، خان عبدالولی خان ، نواب اکبر بگٹی، نواب رئیسانی ، نواز شریف، آصف زرداری جیسے رہنماو¿ں نے نہ صرف سالہا سال تک جیلیں کاٹیں اور تمام مقدمات کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کیامگر کسی غیر ملکی طاقت سے یہ درخواست نہیں کی کہ ان کیخلاف مقدمات ختم کئے جائیں، گزشتہ روزچیئرمین پی ٹی آئی اور آئی ایم ایف وفد کے درمیان لاہور میں ہونیوالی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی ہے،آئی ایم ایف چیف ناتھن پورٹر نے عمران خان سے ویڈیو لنک کے ذریعے بات چیت کی۔ ملاقات میں چیئرمین پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف وفد کے سامنے دو مطالبات رکھے ۔ انکا کہناتھا آپ اس بات کی کیا ضمانت دیتے ہیں کہ پاکستان میں انتخابات وقت پر ہوں گے؟ ۔ اس کے جواب میں آئی ایم ایف وفد نے کہا کہ آئی ایم ایف پاکستان میں ہونے والی صورتحال پر گہری نظر رکھتا ہے،ہم ایک حد سے زیادہ سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ تاہم حکومت ملک میں انتخابات کے انعقاد میں سنجیدہ دکھائی دیتی ہے ۔آئی ایم ایف وفد نے کہا کہ ایگزیکٹو بورڈ ممبران اپنی رائے دینے میں آزاد ہیں،آئی ایم ایف اسٹاف رپورٹ میں ان کا مو¿قف شامل کر دیا جائے گا۔ امید ہے نگران سیٹ اپ آئین کے مطابق وقت پر انتخابات کرا دے گا،توقع ہے کہ اقتدار کی منتقلی وقت پر ہو گی۔ آئی ایم ایف داخلی سیاسی صورتحال میں عدالتی معاملات بالخصوص کرپشن سے متعلق معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ،وفد نے چئیرمین پی ٹی آئی اور انکی ٹیم کو بتایا کہ آئی ایم ایف کو انکے مالیاتی مشیروں کے غیر سنجیدہ رویے سے متعلق تشویش لاحق ہے جیسا کہ ماضی میں شوکت ترین کی صوبائی وزراءخزانہ کے ساتھ آڈیو کالیک ہوچکی ہے جس میں وہ مبینہ طورپرآئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کونقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی جانب گامزن ہوجائے ۔ دلچسپ امریہ ہے کہ عمران خان نے جواب میں کہا کہ ایسا اس وقت ہوا جب وہ اپوزیشن میں تھے ،لیکن جب وہ حکومت میں ہوں تو ایسی چیزیں رونما نہیں ہونگی ۔اس موقع پر آئی ایم ایف کنٹری ہیڈ نے جواب دیا کہ اصل میں پنجاب اور کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت میں تھی اور حقیقت میں یہ چیز آئی ایم ایف کےلئے پریشان کن ہے ۔ آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ معاہدے کےلئے تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے کا خواہاں ہے کیونکہ چیئرمین پی ٹی آئی نے تحریک عدم اعتماد سے قبل آئی ایم ایف سے طے شدہ تمام شرائط کی خلاف ورزی کی تھی ۔آئی ایم ایف کا یہ بھی خیال ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی ماضی میں کہہ چکے ہیں وہ گزشتہ حکومت کی جانب سے لئے گئے قرضے واپس نہیں کرینگے ۔اس صورتحال کے بعد آئی ایم ایف وفد نے مسلم لیگ ن، پی پی پی اور پی ٹی آئی سے ملاقاتوں کا فیصلہ کیا ۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے پاک ، سوئٹزرلینڈمعاہدہ
پاکستان قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے اپنے طور پر حفاظتی اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے ، گزشتہ سال آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں نے پاکستانی معیشت کو بے پناہ نقصان پہنچایا تھااور عالمی برادری نے پاکستان کی مدد کیلئے اپنے طور پر بھر پور مدد بھی کی تھی ، خاص طور پر دوست ممالک عوامی جمہوریہ چین ، ترکیہ،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تاریخی امداد کی ، اس حوالے سے پاکستان نے ایک ڈونر کانفرنس کا بھی اہتمام کیا تھا جس میں بہت سارے دوست ممالک نے پاکستان کی مالی امداد کرنے کا وعدہ کیا تھا ، ایک سال گزرنے کے بعد بھی یہ دوست ممالک اس حوالے سے اپنا تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں ، اس حوالے سے پاکستان اور سوئٹزرلینڈکے درمیان قدرتی آفات سے نمٹنے کےلئے تعاون کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دوست ملک سوئٹزر لینڈ کے وزیرخارجہ کو خوش آمدید کہتے ہیں ، سوئس وزیرِ خارجہ سے مفید اور تعمیری بات چیت ہوئی۔ ماضی کی طرح وسائل کو ضائع نہیں ہونے دینگے ، جدید ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں تعاون کو بڑھائیں گے۔ دونوں ممالک سیاحت کو فروغ دیں گے، تعلیم، آئی ٹی اور خواتین کی تعلیم کے فروغ کیلئے پاکستان کردار ادا کرتا رہے گا۔ وزیرِاعظم شہباز شریف کے پاکستان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ کرنے کے ویژن کے تحت پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے مابین یہ مفاہمتی یادداشت پر دستخط ایک اہم قدم ہے ۔ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کے بعد پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے مابین قدرتی آفات و ان کے ممکنہ نقصانات کی پیش گوئی، فوری امدادی کاروائیوں اور بحالی کے اقدامات میں تعاون کو فروغ ملے گا۔ پاکستان دنیا میں امن اور خوشحالی چاہتا ہے ،پاکستان خطے میں تناﺅ نہیں چاہتا،ماضی کی طرح و سائل کو ضائع نہیں کرنا چاہتے ، جدید ٹیکنالوجی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون چاہتے ہیں۔اس موقع پر سوئس وزیر خارجہ جہ اگنازئےوکاسیس نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں، سوئٹرز لینڈ قدرتی آفات سے نمنٹے کےلئے پاکستان کی مدد کرے گا،سوئٹزر لینڈ نے 2010کے تباہ کن سیلاب میں بھی پاکستان کی مدد کی تھی آئندہ بھی کرتے رہیں گے ۔
عام انتخابات اور شاہد خاقان عباسی کے خدشات
جمہوری ممالک میں تسلسل کے ساتھ انتخابات کا انعقاد ایک جمہوری عمل کا حصہ ہے مگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں یہ روایت پوری طرح پنپ نہیں رہی اور وقتاً فوقتاً یہاں پر آمرانہ قوتیں طالع آزمائی کرتی رہی ہے جس کی بنیاد پر پاکستان بننے کے بعد نصف عرصہ انہیں آمروں کی حکومتیں رہی ہیں ، اگر کبھی جمہوری حکومتیں بن بھی گئیں تو انہیں اپنا عرصہ اقتدار مکمل نہیں کرنے دیا جاتا رہا جس کے باعث مکمل جمہوریت ایک خواب ہی رہا ، موجودہ حکومت اپنی آئینی مد ت اگست میں مکمل کررہی ہے جس کے بعد نگران حکومت نے معاملات سنبھال لینے ہیں مگر یہ خفیہ ہاتھ بار بار یہ افواہیں پھیلارہا ہے کہ انتخابات شاید اپنے وقت پر نہ ہوپائے ، اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ افسوسناک عمل ہوگا ، اسی حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما و سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نجی ٹی وی سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ بڑی سیاسی جماعت پر پابندی کیلئے ثبوت چاہیے ہوتے ہیں،پابندی کا معاملہ معاملہ الیکشن کمیشن سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ تک جاتا ہے، صوبائی اسمبلیاں کیوں تحلیل کی گئیں یہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب نہیں آیا، نواز شریف ملک میں واپسی کا فیصلہ خود کریں گے ، بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر وزیراعظم کو نا اہل کیا گیا ، ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوا، پاکستان کے مسائل کا حل صرف الیکشن نہیں ہے، اس ماحول میں الیکشن مزید سیاسی انتشار کا باعث بنے گا۔آئی ایم ایف کے وفد کی تمام سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں مثبت ہیں ، پاکستان کے مسائل کا حل صرف الیکشن نہیں ہے، اس ماحول میں الیکشن مزید سیاسی انتشار کا باعث بنے گا۔الیکشن کا وقت پر ہوجانا ملک کے معاشی اور دیگر مسائل کا بہتر حل ثابت ہوگا ، اس لئے ہم تجویز کرتے ہیں کہ الیکشن کو اپنی مقررہ تاریخ پر ہی ہونا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے