کالم

تحریک انصاف کی سیاسی بے بصیرتی

آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس پاکستان تعیناتی سے سیاسی ابہام میں کمی پیدا ہوئی ہے ۔ یہ ایک مستحسن فیصلہ ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کی احمقانہ سیاست نے جسٹس منصور شاہ کو متنازعہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی نے اس اہم عمل کو سیاسی معرکے کی شکل دے رکھی ہے۔نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی پیشہ ورانہ قابلیت ، دیانتداری اور غیرجانبداری کی بدولت اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ماضی میں سیاست زدہ چیف جسٹس نے انہیں بروقت ترقی نہ دے کر اپنے منظور نظر ججوں کی ترقی کی راہ ہموار کی تھی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے صبر و استقامت سے کام لیتے ہوئے اس زیادتی پہ کبھی شکوہ نہیں کیا اور اپنے فرائض منصبی نہایت دیانتداری سے ادا کرتے رہے ۔ یہ قدرت کا انصاف ہے کہ آج وہ پاکستان کے چیف جسٹس تعینات ہو چکے ہیں۔ سیاسی جماعتوں خصوصاً تحریک انصاف کو چاہئے کہ عدلیہ سمیت ریاستی اداروں کو سیاسی تنازعات میں گھسیٹنے سے گریز کرے۔ ماضی میں بھی جسٹس فائز عیسیٰ جیسے نیک نام جج کےخلاف پی ٹی آئی کی بے بنیاد مہم جوئی نے عدلیہ ، مقننہ اور انتظامیہ کے تعلقات میں زہر گھولے رکھا ۔قومی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے تحریک انصاف کی حکمت عملی اپنے بانی چیئرمین کی قید اور رہائی کے معاملات تک محدود ہو کے رہ چکی ہے۔ اب بشری ٰبی بی کی رہائی کے حوالے سے نت نئی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے اپنی صفوں سے جنم لینے والے سابقہ اور حالیہ ترجمان کئی خفیہ گوشے بے نقاب کرتے پھر رہے ہیں۔ ڈیل کےلئے اڈیالہ جیل میں اہم شخصیات کی آمد و رفت کی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں۔ یہ پیش گوئیاں بھی کی جارہی ہیں کہ رہائی کے بعد بشری بی بی تحریک انصاف میں وسیع ہوتے قیادت کے خلا کو پر کرنے کی کوشش کریں گی ۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ جماعت میں قیادت کی رسہ کشی تین گروپوں کے درمیان ہو گی۔ ایک گروپ دوسری سیاسی جماعتوں سے درآمد شدہ وکیلوں پر مشتمل ہے ۔ دوسرے گروپ کو بشریٰ بی بی کی رہائی کافائدہ ہے جبکہ تیسرے گروپ کی قیادت بانی چیئر مین کی بہنوں کے ہاتھ میں ہوگی۔ تحریک انصاف کی اس شیرازہ بندی سے نہ ملک کو کوئی فائدہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے او ر نہ ہی پارٹی کے ووٹرز کی تشفی ہو سکتی ہے۔ آئینی ترمیم جیسے اہم موقع پر اپنے ووٹرز کی امنگوں کی ترجمانی کے بجائے پوری جماعت شعلہ بیانی اور سوشل میڈیائی مہم جوئی میں مصروف رہی۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف گذشتہ دو برسوں کے دوران پارلیمانی کردار پر خاطر خواہ توجہ مر کوز نہیں کرپا رہی۔ تحریک انصاف کو اپنی طرز سیاست پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہر اہم قومی معاملے پر واویلا مچانے اور بے بنیاد الزام تراشی کی روش کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ ترمیم کے حوالے سے پارلیمان میں فعالیت دکھانے کے بجائے انصافی قیادت اپنے اراکین کی گمشدگی کا واویلا مچاتی رہی ۔ سوشل میڈیا پہ جماعت کے حامیوں نے دو سینیٹرز اور چند اراکین اسمبلی کے نام لے کر یہ دعوے کئے کہ انہیں ڈرا دھمکا کر آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ جن دو سینیٹرز کے نام لے کر یہ دعویٰ کیا جارہا تھا کہ وہ اپنی پارٹی سے غداری کے مرتکب ہوکر حکومت کے حق میں ووٹ کا استعمال کریں گے وہ اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوئے۔ بانی چیئر مین کی بگڑتی صحت اور جیل میں سہولیات کی عدم دستیابی کا ڈھنڈورہ پیٹا گیا ۔ الزامات کے برعکس چیئر مین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے میڈیا سے گفتگو کے دوران سابق وزیر اعظم کی صحت کو تسلی بخش قرار دیا۔جبکہ چند روز قبل تک ان کی جماعت کے ہر ترجمان اور سوشل میڈیائی جنگجو نے طرح طرح کے من گھڑت خدشات کا انبار لگا رکھا تھا۔ بعض شرپسندوں نے جیل میں زہر دیئے جانے کی جعلی خبر پھیلا کر ہیجان پھیلایا۔ اس فیک نیوز کی بنیاد پر عین ایس سی او کانفرنس کے موقع پر احتجاج کا اعلان کر کے بے یقینی کی فضا بنائی گئی۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر پی ٹی آئی کی قیادت سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارلیمان میں آئینی ترمیم کے حوالے سے موثر کردار ادا کر کے سیاسی طوفان سے بچ نکلنے کا راستہ بناتی۔آئینی ترمیم کے بجائے تحریک انصاف نے اپنا سارا زور موجودہ چیف جسٹس کی کردار کشی اور اپنے بانی چئیرمین کی قصیدہ گوئی پر مرکوز رکھی ہے۔ چئیر مین پی پی پی بلاول بھٹو نے درست تبصرہ کیا ہے کہ تحریک انصاف اپنے طرز عمل سے ثابت کر کے دکھائے کہ وہ ایک ذمہ دار سیاسی جماعت ہے۔ آئینی ترمیم کے معاملے پر پارلیمان میں صفر کارکردگی دکھانے کے بعد خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی جانب سے احتجاج اور اسلام آبادپریلغار کا اعلان تحریک انصاف کی مشکوک سیاسی بصیرت کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے