کالم

تضادات اور خطرات

مبصرین کے مطابق یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ اسلام آباد میں سہیل آفریدی کے خیبر پختونخوا کا نیا وزیرِاعلیٰ منتخب ہونے پر بجا طور پرشدید تشویش پائی جاتی ہے اور یہ تشویش بے سبب نہیں، کیونکہ تحریکِ انصاف ان تمام عناصر، گروہوں اور حتیٰ کہ بعض بیرونی قوتوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے جو وفاقی حکومت اور افواجِ پاکستان کے خلاف صف آراء ہیں— یعنی دراصل ریاستِ پاکستان سے برسرِپیکار ہیں۔کون نہیں جاتنا کہ سہیل آفریدی عمران خان کے انتہائی قریبی اور وفادار ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ موجودہ سیاسی حالات میں عمران خان کی حکمتِ عملی یہی ہے کہ ریاستی اداروں اور حکومت کے ہر اقدام کی ہر سطح پر مخالفت کی جائے۔ مبصرین کے مطابق، اسی سیاسی بیانیے کو سہیل آفریدی نے خیبر پختونخوا میں بھی اپنا نصب العین بنا لیا ہے۔ ان کا حالیہ نعرہ ”عشقیِ عمرانی” دراصل جذباتی وابستگی سے زیادہ ریاستی بغاوت کا استعارہ بنتا جا رہا ہے۔یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ سہیل آفریدی کے ایک ویڈیو بیان میں وہ کور کمانڈر ہاؤس پر ”حملہ کرنے” کے عزم کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، جو نہ صرف سیاسی بے راہ روی کی علامت ہے بلکہ آئین اور قانون کے بنیادی اصولوں سے انحراف بھی ہے۔ وفاقی حکومت کے نمائندے اور وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، اختیار ولی خان کے مطابق، یہ طرزِ عمل دراصل عسکری اداروں کے خلاف نفرت ابھارنے اور نوجوانوں کے ذہنوں میں انتشار پیدا کرنے کے مترادف ہے۔یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ تحریکِ انصاف خیبر پختونخوا میں مسلسل13برس سے حکومت میں ہے، مگر اس طویل اقتدار کے باوجود نہ تو کوئی بڑا اسپتال تعمیر ہوا، نہ کوئی نیا تعلیمی ادارہ قائم کیا گیا، اور نہ ہی صوبے میں قابلِ ذکر ترقیاتی منصوبے دیکھنے میں آئے۔حالانکہ یہ وہ صوبہ ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، مگر بدقسمتی سے اس کے حکمرانوں نے نہ عوامی فلاح کو ترجیح دی اور نہ امن و استحکام کو۔فی الوقت صوبے کے حالات نہایت نازک ہیں۔ افغانستان سے بڑی تعداد میں دہشت گرد سرحدی اضلاع میں داخل ہو چکے ہیں اور بنوں، ڈی آئی خان، کرک، لکی مروت اور شمالی وزیرستان جیسے علاقوں میں دہشت گردی کی نئی لہر جنم لے چکی ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ 2008 سے 2014 تک جب دہشت گردی اپنے عروج پر تھی، اس وقت بھی یہ علاقے نسبتاً محفوظ رہے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، پی ٹی آئی حکومت کے دوران دہشت گردوں کے ساتھ نرم رویّے اور مذاکراتی رجحان نے ان کے اثر و رسوخ میں خطرناک حد تک اضافہ کیا۔یہ امر خصوصی اہمیت رکھتا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور 2018 میں جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو ضرب عضب سمیت دوسرے مسلسل فوجی آپریشنز کے نتیجے میں فتنہ خوارج کا تقریباً صفایا ہو چکا تھا۔ حالات اتنے بہتر تھے کہ کئی فوجی یونٹس قبائلی اضلاع سے واپس بلائے جا چکے تھے۔ مگر عمران خان کی حکومت نے افغان طالبان کے زیرِ اثر گروہوں سے مذاکرات کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں تقریباً پانچ ہزار دہشت گرد جیلوں سے رہا ہوئے اور دوبارہ منظم ہونے لگے۔ ہر مذاکرات کے بعد دہشت گردوں نے نہ صرف اپنے زیرِ اثر علاقے بڑھائے بلکہ نئی بھرتیاں اور مالی وسائل بھی حاصل کیے۔پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ 2004 کے شکئی معاہدے سے لے کر 2021 کے مذاکرات تک، ہر امن کوشش کا انجام ایک ہی ہوا— دہشت گرد ہر بار مضبوط ہو کر واپس آئے۔ امن، درحقیقت، کسی بھی دہشت گرد تنظیم کے لیے موت کے مترادف ہوتا ہے، کیونکہ جب وہ حالتِ جنگ سے نکلتی ہے تو اس کی داخلی تقسیم اور مالیاتی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ جنگ کو زندہ رکھنے میں اپنا مفاد سمجھتی ہیں۔یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ وفاقی حکومت نے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو استحکام دینے کے لیے متعدد سفارتی کوششیں کیں۔اسی تناظر میں جولائی 2022 میں ممتاز عالمِ دین مفتی تقی عثمانی کی سربراہی میں علما وفد کابل گیا تاکہ طالبان اور ٹی ٹی پی دونوں کو پاکستان میں حملے روکنے پر قائل کیا جا سکے۔ اسی طرح 2023 میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے کابل کا دورہ کیا، اور 2024 میں وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی قیادت میں ایک اور اعلیٰ سطحی وفد نے افغان حکام سے انسدادِ دہشت گردی کے تعاون پر گفتگو کی۔ان تمام سفارتی کاوشوں کے باوجود طالبان حکومت نے دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی ترک نہیں کی۔ ایسے میں اگر خیبر پختونخوا کا وزیرِاعلیٰ افغانستان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کی حمایت کرتا ہے، تو یہ پاکستان کی قومی سلامتی سے انحراف کے مترادف ہے۔ذرائع کے مطابق، خیبر پختونخوا میں کئی وزراء اور اراکینِ اسمبلی دہشت گردوں کو باقاعدہ بھتہ ادا کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں اس بات پر بھی گہری تشویش پائی جاتی ہے کہ صوبے کے کچھ رہنما غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہیں اور سرحدی کمزوری ان کے مالی مفادات کے لیے سودمند ثابت ہو رہی ہے۔ایسے میںیہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ اگر سہیل آفریدی نے اپنی سیاسی وفاداری کو ریاستی مفاد پر ترجیح دی تو اس کے نتائج نہایت سنگین ہوں گے۔ صوبے میں فوجی آپریشن کے کسی بھی ممکنہ وقفے سے دہشت گردوں کو سانس لینے کا موقع ملے گا، اور خطرہ ہے کہ وہ پورے صوبے میں دوبارہ پھیل جائیں۔اختتامی طور پر، مبصرین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے عوام نے گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ اب اگر سیاسی قیادت نے دوبارہ وہی غلطیاں دہرائیں، تو یہ قربانیاں ضائع جانے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی قیادتیں ذاتی وابستگیوں کے بجائے قومی سلامتی کو مقدم رکھیں — کیونکہ پاکستان کے امن کا دار و مدار خیبر پختونخوا کے استحکام سے جڑا ہوا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے