صحافت ایک پُر کٹھن اور دشوارگزار راہ ہے۔ اس راہ میں مشکلات بے شمار ہیں اور ہر آن تکالیف و مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ حق اور سچ کا پرچار یقینا آسان کام نہیں ہے۔بہت سی دیواریں گرانا پڑتی ہیں ۔ جھوٹے کے ساتھ اکثریت مفادات کےلئے جڑی ہوتی ہے اور سچے کے ساتھ کم لوگ ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے مفادات کے لیے لبھانے یا ورغلانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔پھر سچ چونکہ تلخ اور تیکھا ہوتا ہے۔اس لیے سچا شخص ہمیں کڑوا لگتا ہے۔ یہ ایک معاشرتی المیہ ہے۔اس دور میں تو اب سچ سامنے لانا ویسے بھی آسان نہیں ہے بلکہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔اس مصنوعی ہیرا پھیرا کے دور میں یہ ایک بہت بڑا کام اور عظیم کارنامہ ہے۔کبھی صحافت میں سچ بولنے والوں کی مانگ ہوتی تھی اور اب جھوٹ ہی کا ہر طرف پرچار ہے گویا اب معاملہ کچھ یوں ہے کہ صحافت اب ایک گورکھ دھندہ بنی ہوئی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتاہے کہ کون رہنما اور کون رہزن۔اہل علم و دانش،سرمایہ صحافت افراد کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں اور فراڈیے اور بہروپئے رہنمائے صحافت کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔چند ایک افراد صحافتی تنظیمات بنائے اس کی آڑ لیے اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہے ہیں۔کتاب اشاعت کا اجازت نامہ لیے یا کاروباری اجازت نامہ تھامے کتاب فراڈ اور خودساختہ ایوارڈ ڈرامہ کا کاروبار رچائے ہوئے ہیں۔کیا کمال فن سے لکھاریوں کی آنکھوں میں ہمدردی،تعاون اور خدمت کے نام پر مسلسل دھول جھونکے خودساختہ ایوارڈ ، شیلڈ،میڈلز، تعریفی اسناد، کتاب فراڈ میں تحریر/کالم لگوا¶ ڈرامہ پیش کئے ہوئے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی جیبوں کاسائز بھی کمال ہوشیاری سے بڑھائے ہوئے ہیں۔لکھاری کو پھانسنا اور پیسہ ہتھیانا کوئی ان سے سیکھے کہ کیا کمال مہارت سے یہ کھیل سجائے ہوئے ہیں۔ کیا عجب بات ہے کہ کل کلاں جن کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا تھا کہ اپنا کالم اخبار میں کس فونٹ میں بھیجنا ہے وہ آج ”مہان“ بنے لکھاریوں کے”ناخدا“بنے ہوئے ہیں اور جو ایڈیٹرزصاحبان ان لکھاریوں کو بنانے ، تیار کرنے اور اس مقام پرلانے والے ہیں اُن کا کسی کو اتاپتہ ہی نہیں ہےان کو تو طفل مکتب سمجھے ہوئے ہیں اور خود استاد بنے بیٹھے ہیں ۔ کمال بات ہے کہ ایڈیٹروں کے نام اپنے اور دوسروں کے کالم لگوانے کےلئے پبلش پلیز سر،ابلائجنگ سر ، نوازش سر جیسے خطابات سے مدح سرائی کرنے والے والے مداری آ ج جادوگر بنے ہوئے ہیں اور اخبارات میں کالم شائع کرنے والے اصل ہیرو اور ایڈیٹرز کا کہیں تذکرہ تک نہیں ملتا ہے جن اخبارات کے ایڈیٹروں کے طفیل یہ مختلف تنظیمات کے مختلف کرتا دھرتابنے بیٹھے ہیں پتا نہیں کیا کیا بنے پھرتے ہیں کہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے سر پر تاج سجایا جائے اور مہمان خصوصی بنایا جائے۔جہاں یہ جائیں۔ان کو سر آنکھوں پر بٹھایا جائے۔ جو یہ حقیقت میں نہیں ہیں۔ کیا خوب صحافت کی دھجیاں بکھیرے ہوئے ہیں ۔ ایوارڈ شو سے لےکر کتاب شو تک سجائے بیٹھے ہیں۔ اس کے میزبان بھی خود اور مہمان بھی آپ ہی ہیں۔” اندھابانٹے ریوڑیاں مڑ مڑ اپنیاں نوں”۔یہ ایوارڈ اور کتاب تماشہ بھی کیسا ہے کہ اپنے واقف اور گاہک افراد پر ہی اثر کرتا ہے دوسروں پر برسنے سے اس پر بجلیاں گرتی ہیں۔اکثر تنظیموں میں ایوارڈ اورکتاب معاملہ ایسا ہے کہ تین کتابیں بھیجنے سے ہی ایوارڈ ملتا ہے،بغیر تین نسخے بھیجےایوارڈ اندھاہو جاتا اور لکھاری کو پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے۔اب بدنامی ہو جانے کے بعد دو کتب تک بات آگئی ہے۔ سب سے بڑی اور اہم بات یہ کیسے ”اعلیٰ“ اور”نفیس“ایوارڈ ہیں کہ اخبارات کے ایڈیٹروں اور اچھے نامور مصنفوں،کالم نگاروں سے گھبراتے ہیں اور نئے نئے ساتھی ، حواری اور کتابی افراد سے ہی چین پاتے ہیں۔کیا عجب ایوارڈاورکتاب ڈرامہ ہے کہ سینئرترین افراد سے کنی کتراتا ہے اور ”اِک ایوارڈ اور“ جیسے بے کار،خوشامدی اور پالشیے افراد پر ہی گر جاتا ہے۔اک ایوارڈ اوردراصل اندر کے احساس کمتری کی طرف اشارہ ہے کہ کام اس قابل ہے نہیں مگر تعلقات اور روابط کے زور پر ملنے والا ایوارڈ شاید دوسروں میں عزت دلا دے ۔ ان کا بس چلے تو صدارتی اور دیگر سرکاری ایوارڈذ بھی اپنے نام کرلیں مگر ابھی ان کا ہاتھ نہیں لگ رہا۔ایک دن لگ جائے گا کیونکہ ان کی خوشامد کے سامنے اس ایوارڈ کی مجال کہ ہاتھ نہ آئے۔ دراصل بات کچھ اس طرح ہے کہ یہ کھمبیوں کی طرح اگتی ادبی تنظیموں اور ایوارڈ حقائق ”خود سے خود میں ہی سماجا“ معاملہ اور”تومجھے ایوارڈ دے اور میں تجھے ایوارڈ دوں“کہانی ہے۔ان خود ساختہ تنظیمات کے خود ساختہ کرتا دھرتا¶ں کی شان دیکھیے کہ معاملہ اورکچھ بھی نہیں ہے،کچھ پیسوں اور محض صرف لگی دیہاڑی کا سوال ہے۔ہوس زر کیلئے تمام تر صحافتی اصول و ضوابط کا کریا کرم کئے مسلسل ذلت و شرمندگی کی حد تک ذلیل ہوئے پڑے ہیں مگر موجودہ حال عقل و فہم پر مہر لگی جیسا ہے خلق خدا کے بین اور دھائیاں سنتے ہی نہیں ہیں۔اپنے آپ پر صحافت کا ٹیگ لگائے مسلسل بازاروں،دفتروں، میں آوارہ، مٹر گشت کرتے،عجیب و غریب حرکتیں کرتے مختلف کرتب و تماشا دکھائے،کبھی کسی در کبھی کسی در محض صرف ایک کپ چائے کےلئے اور تماش بینوں،کامیڈین،گلوکاروں،فلم سٹار افراد کے درمیان اس گیت کی طرح۔۔”ذرا ساجھوم لوں میں ۔ ارے نا رے نارے نا۔ذرا ساگھوم لوں میں۔ارے نارے نارے نا ۔ آ،تمہیں چوم لوں میں۔ارے نارے نارے نا بابا نا۔ میں چلی بن کے ہوا۔ربا میرے مینوں بچا“گھوم پھر اور گھل مل رہے ہیں ۔ ایسے لوگ اور افراد ایسے لوگوں کو مبارک، اہل علم و دانش ایسے ہوتے ہیں؟۔یہ صحافت نہیں ہے اور نہ ہی صحافتی خدمات و پروگرام اور نہ ہی ایسے افراد کا صحافت سے کوئی حقیقی تعلق واسطہ ۔افسوس اگر یہ صحافت ہے تو ایسی صحافت پر اللہ ہی حافظ ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔
٭٭٭٭٭
