کالم

تلخ حقیقت

سیاست میں ملوث موجودہ عناصر کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت ہماری جمہویت کے نعرے محض نعرے ثابت ہورہے ہیں ،عوامی مسائل پہ وہ صرف مگر مچھ کے آنسو روتے ہیں اور جب سیاست دانوں کی مفادات پر ضرب پڑتی ہے تو ان کو عوام یاد آجاتے ہیں اور ان کو سڑکوں پر نکالنے کا شور شروع ہوتا ہے حالانکہ جمہوریت آزادی اور عوامی حقوق صرف الفاظ باقی ہیں روح کو نکال دیا گیا ہے۔ پہلے انفرادی غلامی ہوتی تھی اور آج کل اجتماعی غلامی کا دور دورہ ہے، پہلے ایک فرد آقا اور دوسرا غلام ہوتا تھا اسی طرح غلاموں اور لونڈیوں کی خریدد وفروخت ہوتی تھی اس مقصد کیلئے منڈی لگتی تھی اور غلاموں کی بولی لگتی تھی مگر آج کل پورے ملک کے ملک بلکہ ممالک اور خطوں کو غلام بنایا جاتا ہے اور یہ کام عالمی استعمار بڑی چالاکی کے ساتھ کر رہا ہے ۔ آئی ایم ایف اوردیگربین الاقوامی ممالک کے قرضے غلامی پھیلانے کے حربے ہیں۔ ایک آڑھتی جب کسان کو ادھار بیج دیتا ہے اور کھاد ڈیلر اور کیمیاوی ادویات کے بیوپاریوں کا کردار بھی غلامی کو فروغ دیاتا ہے اورنچلے درجے کے کھلم کھلا استحصال سے لے کر ڈھکے چھپے استحصال تک یہ سب غلامی کی شکلیں ہیں۔غلامی کے لغوی اور اصطلاحی معنوں کے مطابق کسی کی شخصی آزادی مسخ کر کے ا±سے اپنی ملکیت اور قابو میں اس نیت سے رکھنا کہ ان کا ناجائز ، غیر قانونی ،استعمال کیا جا سکے اور بوقت ضرورت انہیں کسی کے حوالے کر دیا جائے یا ساری عمر اسی حالت میں اپنے پاس رکھا اور استعمال کیا جاسکے۔ یعنی انسانوں کو دوسری اشیاءکی طرح سمجھا اور برتا جائے اور یہ سب کرنے کے لئے تشدد ،طاقت ‘ خوف اور دباﺅ استعمال کیا جائے ۔ انسانی سمگلنگ ، جبرمشقت کروانی ، قرضوں میں دبے لوگوں کے استحصال کو غلامی کی تعریف میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا میں آج بھی انفراددی غلامی کے اثرات موجود ہیں اعداد وشمار کے مطابق دنیا میں آج بھی تقریبا 30ملین غلام موجود ہیں امریکہ میں بھی غلاموں کی بڑی تعداد آبادہے ، چین ، پاکستان،نائیجیریا ،ایتھوپیا،روس ،تھائی لینڈ ، کانگو،برما اور بنگلہ دیش میں موجود ہے۔ انڈیا غلاموں کی تعداد کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے اس وقت دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت میں 14ملین غلام موجود ہیں ،پھر چین میں 2.9ملین اور پاکستان میںغلاموں کی تعداد 2.1ملین ہے۔ آزادی اور برابری کے انسانی حقوق کی جنگ یہ لڑی تو بار بار جارہی ہے مگر شائد جیتی نہیں جارہی اسی لئے تو آج بھی دنیا میں 30ملین لوگ غلام کے غلام ہیں اور دنیابھی ترقی کرتی جارہی ہے۔ آبادی کے تناسب سے غلاموں کی تعداد دیکھی جائی تو موریطانیہ پہلے نمبر پر جہاں کے لوگوں کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ وہ غلام ابن ِ غلام ہیں اور حکومتی سطح پر یہ 1980میں یعنی دنیا میں قانونی سطح پر سب سے آخر میں اس لعنت کو ختم کرنے کے قانون بنانے والا ملک تھا۔مگر عملی طور پر آج بھی ا س ملک میں غلام کثرت سے موجود ہیں اور حکومت کی سر پرستی میں سب کچھ ہوتا ہے ۔آبادی اور غلاموں کے تناسب کے لحاظ سے ہیٹی دوسرے نمبر پر ہے حتیٰ کہ سعودی عرب میں کفیل کا کردار قابل نفرت ہے یہ کفیل ملازم کے ٹریول ڈاکومنٹس ، پاسپورٹ وغیرہ اپنے پاس رکھ لیتا ہے یہ در اصل جدید نظام ِ زندگی میں انسانوں کے پاﺅں میں باندھنے والی جدید بیڑیاں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ ہمارے ہاں غلام ابنِ غلام ابن ِ غلام جاگیرداروں کی جاگیرداری چل ہی اسی وجہ سے رہی ہے۔ صبح سویرے کچرا چننے والے بچے ہوٹلوں میں کام کرتے گالیاں کھانے والے قوم کے نونہال ، سڑکوں پر بھیک مانگنے والے فرزندان قوم ، بڑے لوگوں کے گھروں میں کام کرنےوالے مستقبل کے معمار ، فیکٹریوں ملوں میں کام کرنے والے مفلس مزدور یہ سب غلامی کی جیتی جاگتی مثالیں ہی ۔ غلامی کی جدید تعریف کے مطابق کہا جاسکتا ہے کہ غلامی پوری دنیا میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے ۔ یورپی ممالک ، امریکہ اور کنیڈا میں بھی چائنا ایشیائی ممالک کی طرح مزدوروں کا استحصال ہورہا ہے زیادہ گھنٹے اور کم پیسوں کی ادائیگی والا کھیل ڈھٹائی سے جاری ہے اور یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کے نحوست بھرے اثرات ہیں اور سرمایہ پرستی کا نتیجہ ہے انسانیت اور انسانی حقوق کا ڈھنڈورہ تو پیٹا جاتا ہے اور نعرے وغیرہ بھی خوب لگائے جاتے ہیں مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب دنیا کو غلامی بنانے کے حربے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے