کالم

تنازعہ فلسطین دنیا مضمرات کوسمجھے

365 مربع کلو میٹر پر مشتمل غزہ کا علاقہ2007 سے عملاً اسرائیلی محاصرے میں ہے گزشتہ 16 برسوں کے دوران غزہ کی پٹی میں اسرائیل نے بد ترین ریاستی دہشت گردی اور مظالم کی جو داستان رقم کی ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے تاہم موجودہ حالات میں جب غزہ پر وحشیانہ بمباری جاری ہے-اسرائیلی فضائیہ تمام جنگی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر سکولوں اور پناہ گزین کیمپوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے غزہ کی شہری آبادی کے لئے شدید خطرات جنم لے رہے ہیں-فلسطین اسرائیل تنازعے کا یہ باب غیر معمولی ہے اور اس کے مضمرات شدید تر ہوسکتے ہیں-
حماس اور اسرائیل کی کی جنگ جاری رہی تو کشیدگی کے پھیلاﺅ کا خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا-غزہ کی پٹی میں بھڑکنے والے آگ کے شعلے اور دھوئیں کے بادل کسی بھی وقت پوری دنیا کے امن کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں- غزہ کی شہری آبادی پر اسرائیلی فضائیہ کی تباہ کن حملوں اور اس کے نتیجے میں بے گناہ شہریوں کی شہادتوں پر مسلم ممالک کے حکمران زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہ سکیں انہیں اپنے اپنے ممالک میں عوام کے شدید ترین رد عمل کے نتیجے میں کسی نہ کسی فیصلے پر پہنچنا پڑے گا اور یہ فیصلہ کیا ہوگا اس بارے اسرائیل کو پالنے اور اس کی ریاستی دہشت گردی پر پردہ ڈالنے والے ممالک بھی بخوبی جانتے ہیں-
ا اسرائیل کو ہلہ شیری دینے والے مریکہ’ برطانیہ’ فرانس اور دیگر ممالک کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ فلسطین اور اسرائیل میں کھلی جنگ کے اثرات مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ غالب امکان یہ ہے کہ موجودہ حالات عالمی طاقتوں میں دھڑے بندی اور محاذ آرائی کا ایک اور سبب بن سکتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے یوکرین اور روس کی کشیدگی نے دنیا میں محاذ آرائی اور دھڑے بندی کو بڑھا دیا ہے اور اس کے معاشی اثرات دنیا پر اپنے گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں- بہتر یہی ہوگا کہ عالمی طاقتیں بالخصوص پوری دنیا ماسکو کے اس انتباہ پر توجہ دے کہ حماس ‘ اسرائیل لڑائی میں تیسرے فریق کے شامل ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے’ ضروری ہے کہ جلد از جلد جنگ بندی کراکے مذاکرات کے عمل کی راہ نکالی جائے-
مشرق وسطی میں چھائے جنگ کے بادل گہرے اور صیہونی ریاست کی بربریت کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے-سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے طوفان الا قصی آپریشن کے بعد سے شروع ہونے والی لڑائی نہ صرف جاری بلکہ تیزی کے ساتھ سنگین انسانی المیوں کی جانب بڑھتی چلی جارہی ہے-متعدد ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ مسیت طاقتور ممالک کو جھنجھوڑنے اور جنگ بندی عمل میں لاکر انسانی المیے کو روکنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں- عالم اسلام کے حکمران بھی غزہ میں کسی بڑے انسانی المیے کو رونماءہونے سے روکنے کے لئے عملی اقدامات اٹھانے کے بجائے محض مذمتوں اور مطالبات تک محدود ہیں جس کے باعث صیہونی ریاست اور اس کے سرپرستوں کے حوصلے بڑھتے جارہے ہیں-
اسرائیل عالمی طاقتوں کے ہلہ شیری’ اقوام متحدہ کی بے بسی اور عالم اسلام کے حکمرانوں کی بے حسی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے غزہ پر زمینی’ فضائی اور سمندری حملے کی تیاریاں مکمل کرچکا ہے- فلسطینی مہاجرین کے لئے اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ جولیٹ ناﺅما کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق 10 لاکھ سے زائد افراد سات دنوں میں بے گھر ہوگئے ہیں-امریکہ نے بھی مقبوضہ بیت المقدس سے سفارتی عملہ اور شہری نکال لئے ہیں-غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسرائیل او رحماس میں جاری جنگ نے یورپ کو شدید خوف میں مبتلا کردیا ہے-
اسرائیل کی جانب سے غزہ پر وحشیانہ بمباری کا سلسلہ بھی جاری وساری ہے اور اب تک اسرائیلی بمباری میں شہید فلسطینیوں کی تعداد تقریبا تین ہزار ہوگئی ہے’24گھنٹوں کے دوران غزہ پر اسرائیلی حملوں میں مزید400فلسطینی شہید اور800زخمی ہوگئے ہیں’ اسرائیلی فوج کی حزب اللہ سے بھی جھڑپیں ہوئی ہیں شامی سرحد پر ایمر جنسی نافذ کردی گئی ہے’ حلب ایئر پورٹ پھر تباہ ہوگیا ہے’ اسرائیل غزہ پر بڑے حملے کی تیاری کر رہا ہے اور ہسپتال خالی کرانے کی وارننگ جاری کردی ہے-ادھر حماس نے اسرائیل کو غزہ کی پر زمینی کارروائی سے خبردار کرتے ہوئے اپنی تیاریوں کی ویڈیو جاری کردی ہے-
حماس کی جانب سے جاری کی گئی فرضی ویڈیو میں ٹینکوں کو نشانہ بناتے ہوئے دکھایا گیا ہے- ادھر امریکہ نے اسرائیل کے مخالفین کو پیغام دینے کے لئے دوسرا بحری بیڑا بھی بھیجنے کا اعلان کردیا ہے-علاوہ ازیں ایران نے سلامتی کونسل کو خبردار کیا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی نہ روکی تو حالات کسی کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے -مشرق وسطی کی سنگین صورت حال اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ اگر غزہ سے انخلاءاور اس پر بمباری کا سلسلہ فوری نہ روکا گیا تو انسانی المیہ سنگین تر ہوتا جائے گا جبکہ اس سے باقی دنیا کا امن بھی خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے-
چین کے وزیر خارجہ وانگ پی کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں اپنے دفاع کے حق کے دائرہ کار سے باہر نکل چکی ہیں اور اقوام متحدہ کو اس کو سنجیدگی سے لینا چاہیے انہوں نے مسئلہ فلسطین کو تاریخی ناانصافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ کے شہریوں کو اجتماعی سزا دے رہا ہے-صورت حال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لئے فریقین جلد از جلد مذاکرات کی میز پر آئیں’ انٹر نیشنل ریڈ کراس نے بھی اسرائیل’ غزہ جنگ سے جنم لینے والے انسانی المیوں سے متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس المیے میں سب سے بھاری قیمت عام شہریوں کو ادا کرنا پڑ رہی ہے-
فلسطین کا معاملہ مشرق وسطی میں تصادم اور تشدد کی بنیادی وجہ ہے-اقوام متحدہ کا چارٹر کچھ بھی کہے اگر فلسطین وکشمیر جیسے تنازعات پر امن طریقے سے حل نہیں کئے جاتے تو دنیا میں امن کی امید نہیں کی جاسکتی- رہی بات دو ریاستی حل کی تو اوسلو معاہدے میں فلسطینی تو اس پر راضی ہوگئے لیکن اسرائیل راضی ہونے کے باوجود فلسطینی عوام کو ان کا حق دینے کو تیار نہیں- اسرائیل کو مظلوم ثابت کرنے والے بڑے ممالک اسرائیلی فضائیہ کی غزہ کی شہری آبادی کی مذمت کیوں نہیں کرتے ان کا یہ دوہرا معیار ہی دنیا میں انتہاءپسندی اور تشدد کا باعث بن رہا ہے- جب تک دنیا غاصب کی مذمت اور مظلوم کا ساتھ نہیں دے گی تشدد جاری اور دنیا کا امن بدستور خطرے میں رہے گا-
امریکہ’ برطانیہ’ فرانس اور یورپی ممالک اسرائیل کو ہلہ شیری دینے اور بے گناہ معصوم فلسطینیوں کی شہادتوں پر خاموش رہنے کے بجائے اس لڑائی کے مضمرات کو سمجھتے ہوئے کشیدگی کے خاتمے کو یقینی بنانے کی کوشش کریں صرف یہی ایک صورت پوری دنیا کے امن کو یقینی بنا سکتی ہے اگر اب بھی اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو مشرق وسطی میں جاری کشیدگی اور اسرائیل فلسطین کی لڑائی تیسری عالمگیر جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے