کالم

تنازعہ کشمیرکاحل وقت کی ضرورت

مسئلہ کشمیر کے پس منظر میں اقوام عالم کے ہر امن پسند شہری کے زھن میں یہ سوال ضرور آتا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں جاری تنازعہ کا حل کیونکر ممکن ہے ، تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ معاملہ یہ نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین موجود اس قضیہ کو حل کرنے کی کوشش نہیں ہوئی اس کے برعکس چیلنج یہ ہے کہ کب اور کیسے تنازعہ کو پرامن انداز میں حل کیا جائے، وائس آف امریکہ نے اپنے ایک آرٹیکل میں اس سچائی پر مہر تصدیق ثبت کی کہ بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے لیاقت علی خان کو لکھے گے متعدد خطوط میں اس عزم کا اظہار کیا کہ” کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق مختصر مدت کےلئے ہے، مذید یہ کہ اس بات کا فیصلہ خود کشمیریوں نے اپنے حق خود ارادیت کے استعمال کے زریعہ ہی کرنا ہے کہ انھیں پاکستان کے ساتھ رہنا ہے یا بھارت کے ساتھ ” وائس آف امریکہ نے 8 اگست 2019 میں لکھے اپنے آرٹیکل میں یہ بھی بتایا کہ جواہر لال نہرو اپنی کئی تقاریر میں برملا کہتے رہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کے وعدے پر قائم ریں گے اور حالات بہتر ہوتے ہی اس پر عمل درآمد کیا جائے گا، ” بھارت نے محض جواہر لال نہرو کے دور اقتدار میں ہی مسلہ کشمیر کو حل کرنے کی یقین دہانی نہیں کروائی تھی بلکہ 17دن جاری رہنے والی 1965کی پاک بھارت جنگ کے بعد اس وقت کے سوویت یونین کے وزیر اعظم الیکسی کوسی گین نے بھی تنازعہ کشمیر کے حل میں کشمیریوں کے جذبات واحساسات کو مقدم رکھنے پر کامیابی سے آمادہ کیا ، اب اس سوال کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ آخر تاحال مسئلہ کشمیر کا دیرپا اور منصفانہ حل کیونکر تلاش نہیں کیا جاسکا، دراصل بطور کشمیری اور پاکستان ہمیں کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہے کہ دنیا کا موجودہ انتظام انصاف کے اصولوں کے مطابق ہرگز نہیں چل رہا ، اس کے برعکس دوسری جنگ عظیم کے فاتحین نے یوں قوائد وضوابط ترتیب دے رکھے ہیں جس میں ہر ملک کو محدود آزادی ہی میسر ہو ، یہ فاتحین ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران ہیں چنانچہ ایسا ممکن نہیں کہ اچانک ہی دنیا کی کوئی قوم ایسی حکمت عملی کا انتخاب عمل میں لے آئے جو سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران کے مفادات کے خلاف ہو، اس سلسلے کی تازہ مثال حالیہ فلسطین اسرائیل جنگ ہے ، مثلا دنیا کا کوئی بھی باضمیر شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ 7اکتوبر کے حماس حملہ کے بعد فلسطین کے نہتے عوام پر اسرائیلی جارحیت کا جائز ہے ، اس کے برعکس فلسطینیوں کا قتل عام روزانہ کی بنیاد پر جاری وساری ہے ، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل برملا اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے کا مطالبہ کرچکے مگر وہ امریکہ کے سامنے بے بس ہیں ، عالمی سطح پر رائج قوائد وضوابط کو یوں بھی بیان جاسکتا ہے کہ اب ڈرامائی تبدیلی محض اس صورت ہی ممکن ہے کہ اگر سلامتی کونسل میں ویٹو رکھنے والی پانچ ممالک کسی ایک نقطہ پر متفق ہو جائیں ، سوال یہ ہے کہ جاری صورت حال کشمیریوں کی دادرسی کیونکر ممکن ہوسکتی ہے ، زمینی حقائق یہ ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کئی محاذ اہل محاذ پر کشمیریوں کو جکڑے ہوئے ہے ، وادی میں سیاسی ، مذہبی اورمعاشی بنیادوں پر مقامی آبادی کا مسلسل استحصال کیا جارہا ہے ، اب جہاں تک اس دیرینہ تنازعہ کے حل کا سوال ہے تو یہ باخوبی سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ اہل کشمیر کے پاس منظم منصوبہ بندی پر تسلسل کے ساتھ عمل کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ، اہل کشمیر کو اپنی جاری جدوجہد میں کہیں بھی یہ تاثر نہیں دینا کہ وہ اپنی جدوجہد سے جلد یا بدیر دستبردار ہونےوالے ہیں، کشمیری قیادت کو سمجھ لینا چاہے کہ تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی قوم نے آزادی آسانی سے حاصل نہیں کہ بلکہ مکمل کامیابی کے حصول تک طویل اور صبرآزما جدوجہد کو ہی جاری رکھا گیا، مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کرنے یا نہ کرنے کی بحث سے صرف نظر کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ سیاسی اور سفارتی محاذ کو گرم رکھنا ہوگا، آرپار کے کشمیریوں کویہ بھی سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ مسئلہ کشمیر کو محض مخصوص دنوں میں اجاگر کرنا ہرگز اس مسلہ کا حل نہیں ،کسی دانشور نے خوب کہا کہ زندگی جلنے بجھنے نہیں بلکہ سلگنے کا نام ہے ، تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی بھی اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہر کشمیری جدوجہد آزادی کو اپنی ترجیح اول نہیں بنا لے، پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود کشمیریوں کی سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، تیزی سے بدل جانےوالی اس دنیا میں کشمیری قیادت کو خالصتان تحریک سے سبق سیکھنا ہوگا، جس طرح دنیا بھر میں پھیلی سکھ برداری اپنے الگ ملک کے مطالبہ سے کسی طور دستبردار ہونے کو آمادہ نہیں یہ صورت کشمیری قیادت کی بھی ہونی چاہے ، عصر حاضر میں سوشل میڈیا نے جائز وناجائز تحریکوں کےلئے یوں کام آسان کردیا ہے کہ وہ کم وقت میں زیادہ لوگوں تک اپنا پیغام پہنچا سکتی ہیں اہل کشمیر مقصد کے حصول کےلئے پوری جانفشانی کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کو بروئے کار لانے کا سلسلہ جاری وساری رکھیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے