کالم

تنازع کشمیر کا مقدمہ اقوام متحدہ خاموش کیوں؟

1947 کی تقسیم ہند برطانوی سامراج کے انخلا کا نقطہ آغاز ضرور تھی، مگر یہ خطہ برصغیر کے دو بڑے ممالک، پاکستان اور بھارت، کے درمیان ایک ایسی دائمی چنگاری چھوڑ گئی جو آج بھی سلگ رہی ہے۔ کشمیر اس تقسیم کا وہ نامکمل باب ہے جس نے جنوبی ایشیا کو مسلسل جنگ، کشیدگی اور معاشی عدم استحکام کا شکار بنا رکھا ہے۔آ زادی کے وقت برطانوی حکومت نے 562 ریاستوں کو اختیار دیا کہ وہ جغرافیہ، آبادی اور عوام کی خواہشات کی بنیاد پر پاکستان یا بھارت سے الحاق کریں۔ وادی کشمیر، جسکی90فیصد آبادی مسلمان تھی، نے پاکستان سے الحاق کا عندیہ دیا۔ لیکن بھارت نے مکاری، سازش اور طاقت کے بل پر27اکتوبر1947کو اپنی فوجیں وادی میں اتار کر اس پر ناجائز قبضہ کر لیا۔ ردعمل میں قبائلی لشکروں اور مقامی مسلمانوں نے مزاحمت کی، اور سپنی شکست دیکھکر بھارت خود اقوام متحدہ پہنچ گیا۔ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے 21 اپریل 1948 اور بعد ازاں متعدد قراردادوں کے ذریعے کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کرتے ہوئے وہاں "استصواب رائے” کا وعدہ کیا۔ قرارداد 47 میں کہا گیا تھا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام خود کریں گے۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھی پارلیمنٹ اور اقوام متحدہ میں بارہا اس عزم کا اعادہ کیا۔لیکن 78 سال گزرنے کے باوجود بھارت نے نہ صرف ان وعدوں سے انحراف کیا بلکہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم، تشدد اور نسل کشی کا بازار گرم کر دیا۔ اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنی رہی اور عالمی طاقتیں بھارت کی معاشی اہمیت کے پیش نظر اس کے مظالم پر آنکھیں بند کرتی رہیں۔ کارگل اور2025تک،پاکستان اور انڈیا کے درمیان پانچ بڑی جنگیں ہو چکی ہیں۔ ان سب کی جڑ تنازع کشمیرہے۔ 1965 کی جنگ میں پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے پوری شدت سے اٹھایا۔ 1971کی جنگ میں ہمارا بازو مشرقی پاکستان ہم سے الگ کر دیا گیا ہے جسکے بعد شملہ معاہدہ وجود میں آیا۔ اس معاہدے میں طے پایا کہ دونوں ممالک باہمی طور پر تمام تنازعات حل کریں گے، مگر بھارت نے اس معاہدے کو بھی یک طرفہ تعبیر دے کر اسے ہمیشہ سرد خانے میں ڈالے رکھا۔بھارت نے 5 اگست 2019 میں آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کر دیا۔ یہ اقدام نہ صرف شملہ معاہدے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی تھا۔بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کر دیا۔ یہ اقدام نہ صرف شملہ معاہدے، اقوام متحدہ کی قراردادوں بلکہ بھارت کے اپنے آئین کی کھلی خلاف ورزی تھا۔ اس کے بعد وادی کو ایک جیل میں تبدیل کر دیا گیا۔ انٹرنیٹ کی بندش، کرفیو، تعلیمی اداروں کی بندش، معیشت کی تباہی، جعلی مقابلے، نوجوانوں کا ماورائے عدالت قتل، اور خواتین کی بے حرمتی جیسے مظالم نے انسانی حقوق کی تمام حدیں پار کر دیں۔ کشمیری قیادت نے اس جدوجہد میں ناقابلِ فراموش قربانیاں دی ہیں۔ مقبول بٹ کو 11 فروری 1984 کو دلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی۔افضل گورو کو 2013 میں بغیر شفاف ٹرائل کے تختہ دار پر چڑھا دیا گیا اسوقت بھی حریت کانفرنس کے مرکزی رہنما یاسین ملک عمر قید کاٹ رہے ہیں،جبکہ آسیہ اندرابی اور مسرت عالم بٹ بھی طویل عرصے سے جیل میں قید ہیں۔علی گیلانی مرحوم نے اپنی پوری زندگی بھارتی تسلط کے خلاف مزاحمت میں گزاری اور نظر بندی میں ہی دنیا سے رخصت ہوئے۔سوال یہ ہے کہ کیا کشمیریوں کا حق خودارادیت مانگنا جرم ہے؟ کیا انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو وادی میں جاری ظلم نظر نہیںآ رہا؟ جب فلسطین، یوکرین، یا کسی اور خطے میں انسانی حقوق کی بات کی جاتی ہے تو کشمیر کو کیوں فراموش کر دیا جاتا ہے؟ اقوام متحدہ کی قراردادیں صرف کمزور ممالک کیلیے ہیں؟
تنازع کشمیر کے پرامن حل کے بغیر خطے میں امن کا خواب ادھورا رہے گا۔ پاکستان نے ہمیشہ سفارتی، اخلاقی اور سیاسی محاذ پر کشمیریوں کی حمایت کی ہے اور کرتا رہے گا۔ لیکن صرف مذمتی بیانات کافی نہیں۔ دنیا کو اس ناانصافی کا نوٹس لینا ہوگا۔ انسانی حقوق، عالمی انصاف اور اقوام متحدہ کا وقار تبھی بچ سکتا ہے جب ان اداروں کا اطلاق ہر مظلوم پر یکساں ہو، چاہے وہ فلسطینی ہو یا کشمیری۔کشمیر کے مسئلے کا واحد اور پائیدار حل وہی ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہو:۔ کشمیریوں نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ وہ اپنی آزادی کیلئے تن من دھن قربان کرتے رہیں گے۔ بھارت لاکھ ظلم کر لے، یہ تحریک اب رکے گی نہیں۔کشمیر صرف ایک خطہ نہیں، ایک نظریہ ہے۔ ایک مظلوم قوم کی آواز ہے جو 78 سال سے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ اس تحریک کو دبانے کے بجائے، اس کی صداقت کو تسلیم کیا جانا وقت کا تقاضا ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو تاریخ اسے انصاف کے قتل کے طور پر یاد رکھے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے