کالم

تن کے چاکر

اکثر سننے میں آتا ہے کہ سکون قلب نہیں اللہ تعالی نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے لیکن قلبی سکون نہیں آپ مجھ سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں سکون قلب اس لئے حاصل نہیں کہ زندگی کے تقاضوں اور مذہب کے تقاضوں میں بہت فرق کر لیا ہے۔ آج کے انسان کی شخصیت میں فشار ہے سکون قلب دل کی ایک حالت کا نام ہے ایسی کیفیت جس میں اضطراب نہ ہو بدقسمتی سے آج کا انسان نفسانی خواہشات کے پیچھے اس طرح بھاگ رہا ہے کہ اسے یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے جسکی کی زندگی میں سکون ہے جو کہ عطائے الٰہی ہے وہ انسان سود و زیاں کے چکر سے آزاد ہو جاتا ہے گلہ شکوہ شکایت نہ خدا سے اور نہ ہی اس کے بندوں سے وہ ہر حال میں راضی رہنے والی شخصیت بن جاتا ہے آج کے دور کا سب سے افسوسناک واقعہ یہ ہے کہ انسان خود گریزی میں مبتلا ہے سکون کےلئے خود شناسی اور خود آگہی ضروری ہے آسمان کی بلندیوں پر پہنچنے والا انسان اپنے دل کے دروازے تک نہیں پہنچتا یہی وجہ ہے کہ وہ سکون کی دولت سے محروم ہے یہ قیمتی گھر گاڑیاں مہنگا فرنیچر لباس دیار غیر کے سفر اسے مضطرب رکھتے ہیں جسے اپنے گھر میں سکون نہ ملا اسے سفر کی صعوبتیں اٹھا کر سکون کہاں سے ملے گا سکون قلب دراصل اپنے انداز فکر اور اپنی زندگی میں چھپا ہوتا ہے سکون قلب کا نہ ہونا اپنے حالات اپنے ماحول اور اپنی زندگی سے بیزاری کا اعلان ہے اگر خواہش اور حاصل کا فرق ختم ہو جائے تو سکون حاصل ہو جاتا ہے جب خواہشات کے پاﺅں حاصل کی چادر سے باہر جھانکیں تو سکون نہیں ملتا خواہشات کا پھیلاو ہی سکون سے محروم کرتا ہے کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہماری ذات سے کسی ضرورت مند کو فائدہ پہنچا ہوکیا اسکی ضرورت کو خاموشی سے پورا کرنے سے سکون مل سکتا ہے سکون دینے والے ہی کو سکون ملتا ہے یہ گیند کی صدا جیسی کہے ویسی سنے کینہ بغض نفرت انتقام حسد لالچ ذات پرستی سکون قلب سے محروم ہی رکھتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں یہ عوامل عروج پر ہیں اسی لیے ہر شخص کی زبان پر یہ جملہ رہتا ہے سب کچھ ہے لیکن سکون نہیں۔ مخلوق کو خالق کا ایک اعلیٰ ترین عمل سمجھ کر اسکی تکریم فرض ہے اسے اپنے سے کم ترین سمجھنا گناہ ہے اس مالک کے راز ہیں کسی کو حسن دیتا ہے دولت شہرت اور عزت سے نوازتا ہے اور کسی کو رزق کی تنگی دے کر آزماتا ہے لیکن ایسے لوگ بھی اس دنیا میں موجود ہیں جو مقام صبر کو بھی مقام شکر بنا دیتے ہیں امانت کو خیانت سمجھنے والے کبھی سکون کی دولت کو حاصل نہیں کر سکتے دھوکہ فریب حرص طمع لالچ سکون کی دولت کے قریب بھی نہیں آنے دیتے سکون قلب دینے والے بھی موجود ہونے کے باوجود اپنے آپ کو پردے میں رکھنا پسند کرتے ہیں طلبگاروں کو نظر کرم سے سکون ملتا ہے ہر ایک کے نصیب کی بات نہیں یہ مشکل فیصلہ اور منزل پر چلنے والے کا کھٹن ترین راستہ ہے لیکن جب انسان اپنی تطہیر کےلئے خود اپنے سامنے کھڑا ہوتا ہے جس طرح آئینے کے سامنے حقیقت آشکار ہو جاتی ہے اسی طرح خود احتسابی اسے جھنجھوڑ کر حق شناس بنا دیتی ہے اور پھر ایک نگاہ سے دل کا زنگ آلود قفل کھول کر اسے سکون کی دولت سے مالا مال کر دیا جاتا ہے رزق پاکیزہ نہ ہو تو سکون نہیں مل سکتا کسی دوسرے کا حق غضب کرنےوالا اس وادی کا مسافر نہیں بن سکتا پاکیزہ سوچ پاکیزہ عمل اور پاکیزہ آمدنی نہ ہو تو پھر بھلا کیسے اور کیوں سکون حاصل ہوگا۔ اس کو مقافات کے بچھو اندر ہی اندر ڈستے رہتے ہیں ایک دفعہ ایک شخص جسے گھر میں سکون حاصل نہیں تھا اپنی بیگم سے کہنے لگا سکون قلب کی خاطر میں مقدس مقامات کا سفر کروں بیوی سمجھ گئی کہ اس کا شوہر اس بیزاری اختیار کر رہا ہے کہنے لگی اتنے مقدس سفر میں اتنی دیر کیوں کر رہے ہو چلئیے میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں خاوند تھوڑی دیر خاموش رہا پھر کہنے لگا جانے دو ہمارے نصیب میں سکون کہاں ۔ میں اس جہنم میں ہی زندگی گزار لونگا یہ کبھی نہ بھولیے کہ سکون قلب اپنے موجودہ حالات میں ہی ملتا ہے فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے اور عمل بھی خود یعنی خواہشات کی ٹانگیں جتنی پھیلی ہوئی ہیں ان کو سمیٹنا ہے زندگی آسان اور اسے خدمت خلق سے بھی وابستہ کرنا ہے سودمندی صرف اپنے لیے نہیں بلکہ آسانیاں اور خوشیاں دوسرے لوگوں کا بھی حق ہے انہیں بھی اپنی زندگی میں شامل کرنےوالی بات ہے خود غرضی سے نکل کر فرض اور شوق کو یکجا کرنے سے بھی سکون قلب حاصل ہو سکتا ہے گناہ سے نفرت ہو گنہگاروں سے نہیں وہ جو زمین آسمان کا واحد مالک ہے اسکی مرضی ہے جسے اپنے قریب کر کے سکون کی دولت عطا فرما دے گناہوں میں ڈوبے ہوئے لوگ اسکی نظر کرم سے سکون پاتے ہیں چکڑ بھریاں لے گل لاوے تے کی اعتبار سنگار دا ۔ پنجرے میں بند پرندہ اگر مالک کے گھر بھوک سے مر جائے تو پرندے کا بنانے والا وہاں قہر نازل کر دیتا ہے کمزور کا ہر طرح سے خیال رکھنے والے کےلئے یہ عمل سکون قلب کا ذریعہ ہے سکون قلب مالک کے قرب سے ملتا ہے اور اسکا قرب سجدہ شکر میں مخفی ہے جس دور میں انسان کے پاس اپنی ضرورت کے حصول کےلئے دعا کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہے تو وہ اضطراب اور بے سکونی کا زمانہ کہا جا سکتا ہے دولت کو جمع رکھنے والے جو دولت کے پجاری ہوں انہیں سکون نہیں مل سکتا ایک ضروری نقطہ آپ کو بتانے کی کوشش کرتا ہوں اشیائے ضروری کےلئے تگ و دود اور پھر اسکا مشکل ہونا اضطراب کہلاتا ہے لیکن اسے اضطراب نہیں کہا جا سکتا ایسے لوگ ذہنی تکلیف میں ہوتے ہیں تکلیف الگ شے ہے اور اضطراب الگ۔ تکلیف کمی سے ہوتی ہے اور اضطراب کوتاہی سے پیدا ہوتا ہے اضطراب روح کی بے تابی اور تکلیف جسمانی تکلیف پریشانی جب انسان کا حق اسکی دسترس میں نہ ہو تو اضطراب پیدا ہوگا آج ہمیں اقبال اور جناح کی ضرورت ہے کوئی تو اس قوم کو تن آسانی کی نیند سے بیدار کرے تاکہ معاشرتی زندگی قوم ملک اور اداروں کے ساتھ وفا کے ساتھ گزاری جائے یہ وہ وقت ہے جہاں قوم کو عہد کہن یاد دلانے کی اشد ضرورت ہے ذکر بہار تو فصل بہار نہیں ہو سکتا خوش نصیب بننے کی کوشش ہونی چاہیے خوش نصیب وہی ہو سکتا ہے جو اضطراب اور تکلیف میں نہ ہو سکون کی دولت کا متمنی ہو لیکن خوش نصیبی ہے کیا اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے جب تک ہم کسی نمایاں شخصیت کی زندگی کی ورق گردانی نہیں کر لیتے ہمیں معلوم نہیں ہو سکتا کہ خوش نصیبی کسے کہتے ہیں مختصرا الفاظ میں حقیقت یہی ہے کہ پیغمبر ہی خوش نصیب ہیں جنکی زندگی دوسروں کےلئے ایک مثالی نمونہ ہے جن کا ذکر اہل فکر حضرات کےلئے سکون، برکت کا باعث ہے انسان جتنا اللہ کے قریب ہوتا ہے اتنا ہی مخلوق پر مہربان ہوگا یہی اصل حقیقت ہے اللہ کے حبیبﷺ جتنے اللہ کے قریب ہیں اتنے ہی عالمین کےلئے رحمت ہے اللہ کی عبادت انسانوں پر مہربان بناتی ہے تکبر رعونت اور خودپرستی سے بچاتی ہے مخلوق پر ظلم کرنے والا نہیں ان کے حقوق محروم کرنے والوں کو خدا سکون نہیں دیتا کسی کا حق چھین کر تقرب الٰہی کا دعویٰ کرنےوالا دلیل سے محروم ہوتا ہے صرف دعویٰ نہیں ثبوت بھی ضروری ہے عبادت انفرادی فلاح کا ذریعہ ضرور ہے لیکن اجتماعی عبادت ایک حقیقی اور اسلامی راستہ ہے معاشرہ اگر ایک دوسرے کا خیال رکھنے والوں پر مشتمل ہوگا تو پھر یہ ماحول سکون اور قلبی سکون کا باعث بنے گا سکون قلب ہم نے خود اپنے اعمال حرص طمع سے بے نیاز ہو حاصل کرنا ہے جب تک آپ آسمانوں سے اترے ہوئے اصولوں کو انسانی زندگی اور معاشرہ بنانے کے احکامات کو حاصل زندگی نہ بنائیں گے تو یقینا سکون قلب حاصل نہیں ہوگا زندگی تڑپتے رہنے خود ساختہ قید خانہ ہی رہیگی ہم سوچتے ہیں ہر انسان کی پیشانی پر کتبہ کنندہ ہے کون کس سے تعزیت کریگا یہاں ٹھہرنے کا مقام ہی نہیں سب مسافر ہیں اور بے پناہ دنیاوی سامان لیکر بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں عروج زوال کے تھپیڑوں میں وقت گزار رہے ہیں عمل کے بغیر بھی عمل جاری ہے انسان بوڑھا ہوتا چلا جاتا ہے کیا اسے یہ اختیار ہے کہ وہ اس پروسس کو روک سکے اس نے وہ مال و دولت جس طرح جس انداز سے سمیٹے اس فانی دنیا سے دوسروں کے کندھوں پر سوار ہو کر زمین کی آغوش میں چھپ جاتا ہے اصل زندگی اس وقت شروع ہوتی ہے جسکا ادراک ہمیں یہاں نہیں پھیلا ہوا انسان سمٹ کر قبر بن جاتا ہے اس حقیقت سے نظریں چرائے وہ اپنے خود ساختہ اعمال سے بے سکون رہتا ہے ہم اس زندگی کے مالک ہو کر بھی مالک نہیں جو ذات یتیموں کو پیغمبر بنا دیتی ہے مسکینوں کو مملکت عطا کر دیتی ہے اس ذات کا ہر عمل اٹل ہے اس کے احکامات پر عمل کرنا ہی دین اور دنیا میں کامیابی ہے اللہ پاک ہمیں اپنے احکامات پر عمل پیرا ہونے کےلئے نظر کرم سے نوازے پھر آسانیاں ہیں ورنہ ناکامیاں مقدر بنی رہیں گی سکون کہاں بس تن کے چاکر بنے رہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے