کالم

تکمیل نظرآنی چاہیے

taiwar hussain

عمل سے حاصل ہونے والا مقصد ندامت میں بدل جائے تو راہیں دھندلا جاتی ہیں ، راستے کی مزید مسافت طے کرنے کو دل نہیں چاہتا ، تذبذب کا یہ مقام ہی جذبوں کو سرد کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے ۔منزل پر پہنچانے والی کوئی اور سوچ ہوتی ہے ، جب انسانی عقل کو حرص، طمع کی آری دھیرے دھیرے کانٹنا شروع کردے تو پھر زوالِ ملت شروع ہوجاتا ہے ۔ مقصد بھول بھلیوں کی بارہ دری میں بھٹکتا رہتا ہے ، قیام پاکستان ایک مقصد تھا ، قائد اعظم محمد علی جناح کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ صادق تھے ، صداقت ہی ان کی خوبی تھی ، ان کا اپنا کردار اس وقت قوم میں وحدت کردار پیدا کرگیا، لوگ ان کے حکم پر مر مٹنے وطن سے بے وطن ہوئے ، صعوبتیں برداشت کیں ، مہاجرین بن گئے ، سب کچھ لٹا کے بھی خوش بختی کا احساس رہا ، ایک عظیم مقصد کےلئے جان مال اور آن کی پرواہ کئے بغیر لوگ پاک کے حصول کیلئے آمادہ سفر ہوئے ۔ قائد کی بے وقت موت نے قوم کو منتشر کردیا ، ان کی بنائی ہوئی صادق اکثریت بے مقصد ہجوم میں تبدیل ہوئی ، وقت او ر حالات نے صادق کی راہبری میں اکثریت کو صداقت آشنا بنادیا تھا لیکن وقت کے بے رحم ہاتھوں نے حق گوئی ، حق پسندی اور بیباکی چھین لی ۔ جمہوریت سے بہتر نظام کیا ہوسکتا ہے لیکن پیشہ ور سیاستدانوں نے قوم کے وقار کو خاک میں ملاکر اپنی تجوریاں بھرنے کا نظام متعارف کرادیا ، اب مقصد حیات صرف دولت کے نہ ختم ہونے والے انبار لگانا ہے ۔ یہ ملک کیوں کیسے اور کس مقصد کیلئے دنیا کے نقشے پر ابھرا ایک فرسودہ سوچ بن کر رہ گیا ۔ مطلب پرستی نے جمود پیدا کردیا ہے ۔ وطن پرستی کہیں گم ہوچکی ہے ۔ ہمارے ملک میں غریب نان نفقہ کے مسائل میں گرفتار ہے اسے اپنے اہل و اعیال کو دو وقت کا کھانا مہیا کرنا مشکل ہوچکا ہے ۔ کیا یہ ملک اس لئے معرض وجود میں آیا ہے کہ امیر دن بدن امیر ترین ہوتے جائیں اور غریب دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کی چکی پستا رہے۔ مایوسیوں کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے عوام ترقی اور خوشحالی کے عزم کی تکمیل ہیں ، جب تک ان کی زندگیوں میں امید کی شمع روشن نہیں ہوتی یہ کام کون کریگا۔ سیاستدانوں کو اپنے ذاتی منصوبے مکمل کرنے سے فرصت نہیں ، یہ لٹیرے ملک کی دولت کو گھن کی طرح چاٹ گئے ، ملک کو دیوالیہ کرنے کے قریب لے آئے لیکن ہوس ذرا ُسی آب ، تاب سے قائم ودائم ہے ۔ اب لیڈر کوئی نہیں مفاد پرست سیاست دانوں کے ٹولے نظر آتے ہیں جن کا مطمع نظر ہے ”لگانے والے کو ان کا رویہ کچھ اور ہوتا ہے اور الیکشن کے بعد کامیابی کی صورت میں ان میں نمایاں تبدیلی واضح ہوجاتی ہے ۔ یہ سب کا ملک ہے ، سب کیلئے ہے لیکن یہ ملک اب سب کا نہیں رہا یہ صرف طاقتور اور پیسے والوں کی تفریح گاہ بن چکا ہے جن کی گرمیاں یورپ امریکہ کینیڈا میں گزرتی ہے اور سردیاں یہ امیر مجبوری پاکستان میں ان کے مقاصد کی تکمیل بیرون جائیدادیں خریدنے اور منفعت بخش منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے سے ہوتی ہے ۔ انہیں سکون اور تفریح طبع غیر ممالک میں حاصل ہوتے ہیں ، وارداتیں کرنے کیلئے پاکستان یاد آتا ہے ، ایسے لٹیرے نما سیاستدانوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ، پرانے نقب زن سیاست دانوں کی اولادیں بھی ابھی لوٹ کھسوٹ کی وارداتیں کرنے کے ہنر میں طاق ہوکر میدان میں اتر چکی ہیں ، ملکی قوانین بے بس نظر آتے ہیں ان کا محاسبہ کرنے میں کمزور دکھائی دیئے ہیں انکا نظریہ یہ ہے قانون تو موم کی ناک کی طرح کسی طرف بھی گھمایا جاسکتا ہے صرف ہر طرح کی طاقت ہونا ضروری ہے ، مٹھی بھر مفاد پرستوں کا ٹولہ چہرے بدل بدل کر عوام کو بیوقوف بنارہا ہے ، یہ کھیل طویل عرصہ سے شروع ہے جو اب تک جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ ملک کے خزانے تو لٹ چکے اب قدرتی ذخائر باقی رہ گئے ہیں ان پر بھی حرص کی کمندیں پھینکی جاتی رہی ہیں یہ سلسلہ شاید اب تیزی کا رخ اختیار کرلے ۔ ایسے بے شرم لوگوں میں ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی دلوں پر مہریں لگ چکی ہوتی ہیں ، آنکھیں ہوس سے اندھی ہوچکی ہوتی ہیں ، دماغ شیطانی منصوبوں کی تکمیل میں مصروف رہتا ہے ، انہیں عوام غلام نظر آتے ہیں خود حکمرانی اور اقتدار کی مسند پر براجمان رہنے کو حق سمجھتے ہیں ، کچھ اس وقت ملک میں ہورہا ہے چار سال کا عرصہ پہلی حکومت نے ضائع کردیا ، کہا یہ گیا کہ پہلے ڈیڑھ دو سال تو ہمیں کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ کرنا کیا ہے جب شعور کچھ پیدا ہوا تو سازشیں شروع ہو گئیں، ایسے حالات میں کیا ہوسکتا ہے پھر بھی عوامی خدمت پیش نظر رہی ، وقت مکمل نہیں کرنے دیا گیا ورنہ ایسی بچے کچھے وقت میں دودھ اور شہد کی نہریں بہادی جائیں ۔ تقریباً چار سال اقتدار میں رہتے ہوئے کرپشن کس قدر عروج پر گئی اور ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ بدقسمتی سے ملک میں دیہاڑ ی دار سیاستدان ہیں جو ایک ایک دن کیش بنانے میں مصروف رہنا پسند کرتے ہیں نہ تو انہیں اللہ کا خود ہے کہ روز آخر اس کے سامنے جوابدہ ہونا ہے اور نہ ہی معاشرے کا خدشہ ہے کیونکہ قانون ان کے گھر کی باندی ہوتا ہے ۔ عوام اس دن کا انتظار میں ہیں کہ کوئی لیڈر نظر آئے سیاستدان نہیں ، لیڈر مستقبل پر نظر جمائے ہوتا ہے وہ عوام کو اپنے کردار افعال اور مثبت سوچ سے وحدت ملت کا تاثر دیتا ہے۔ اس کا ایمان ہوتا ہے کہ ننھے چراغوں کی وحت سے ہی چراغاں پیدا ہوتے ہیں ، قطروں کی وحدت سے دریا اور قلزم کے جلوے پیدا ہوتے ہیں ، عوام کی طاقت سے انقلابات پیدا ہوتے ہیں لیکن اگر عوام کو بھوک افلاس اور مایوسیوں کی دلدل میں رہنے دیا جائے اور خود ملک کی دولت پر ہاتھ صاف کرتے رہیں تو ایک وقت بھی آتا ہے کہ یہی عوام بپھرے ہوئے بھیڑیوں کی طرح حملہ آور ہوجاتے ہیں وہ مفاد پرست ٹولے کو سڑکوں پر گھسیٹتے ہوئے ایسی بے دردی سے لے جاتے ہیں کہ لاشوں کی بوٹی بوٹی ادھڑ جائے ۔ تاریخ کی کتابوں میں متعدد ممالک کے انقلابات محفوظ ہیں ان سے عبرت حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک جیسی کیفیت سے دوچار ہے ، سیاستدانوں جواپنے ذاتی مفاد کیلئے اقتدار حاصل کرتے ہیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حالات ہاتھ سے نہ نکل جائیں اب بھی وقت ہے کہ تمام سیاستدان پیشہ ور اور نان پیشہ ور حالات سے سبق سیکھیں ، عوام جو باشعور رہیں ان میں باہمی احترام کے جذبے کے ساتھ ساتھ بیداری بھی پیدا کریں،بد نصیب بننے والے غریب عوام میں بھی خوش نصیبی کا احساس پیدا کریں ۔ عوام کی تکالیف کا صدق دل سے ازالہ کیا جائے ۔ حال کی خوشحالی حاصل کرنے والے غریب عوام کو بھی ساتھ لیکر چلیں ۔ وہ وقت اب قریب پہنچ چکاہے کہ اقبال کے خواب کی تعبیر میسر ہو ۔ قائد اعظم کی محنت کا صلہ حاصل ہو ، قوم کیلئے شہید ہونےوالوں کی روحوں کو قرار نصیب ہو ، ہم احسان فراموش نہ ہوں ، آنےوالی نسلیں ہمیں عزت سے یاد کریں ترقی یافتہ بناکر پاکستان کو آنےوالی نسلوں کی تحویل میں دیا جائے اس کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے ۔ مستقبل میں بھی اسی طرح مضبوط ہاتھوں میں دیا جائے ، ہم عظیم قوم ہیں ہمیں عظیم تر ہونا چاہیے یہ ملک خدا کا ہے ، خدا کے رسول کا ہے انہیں کی منشاءکی تکمیل نظر آنی چاہیے تاکہ بھٹکے ہوئے مسافروں کو صحیح راہ مل جائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے