گذشتہ روز 27مارچ کو تھیٹر کا عالمی دن تھا ہم نے اس دن کو منانا تو درکنار بلکہ اس سے منسلک فنکاروں کے ساتھ ساتھ فن کو بھی ختم کرنے کا پروگرام بنا رکھا ہے الحمرا آرٹ کونسل ایک ایسا ادارہ تھا جو فن کے مردہ جسم میں بھی روح ڈال دیتا تھا لیکن کچھ عرصہ سے یہ ادارہ فن کی روح قبض کیے بیٹھا ہے نگران حکومت سے ہمارے سرکاری تھیٹر بند پڑے ہیں وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ فحاشی پھیلا رہے ہیں اسکی دو وجوہات ہیں جن پر بات کرنے سے پہلے تھیٹر کے عالمی دن اور اسکے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں کام کا ذکر کرلیتے ہیں اسکے بعد تھیٹر میں فحاشی کے ذمہ داروں کاتعین آپ خود کرسکتے ہیں تھیٹر کا عالمی دن ہمیں تھیٹر کے فن کو منانے اور دنیا بھر میں تھیٹر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے تھیٹر کا یہ عالمی دن 1961 میں انٹرنیشنل تھیٹر انسٹی ٹیوٹ (ITI) کے زیر اہتمام منایا شروع ہوا تھااس دن کا مقصد تھیٹر کے فن کو فروغ دینا تھیٹر کے فنکاروں اور کارکنوں کو خراج تحسین پیش کرنا اور تھیٹر کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں کے درمیان امن اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہے تھیٹر کا عالمی دن دنیا بھر میں مختلف تقریبات اور پروگراموں کے ذریعے منایا جاتا ہے جہاںتھیٹر کے فنکاروں اور کارکنوں کے لیے ورکشاپس، سیمینارز اور نمائشیں شامل ہوتی ہیں اس کے علاوہ تھیٹر کے فنکاروں اور کارکنوں کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈز بھی دیے جاتے ہیںتھیٹر کا عالمی دن تھیٹر کے فن کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا ایک اہم موقع ہے تھیٹر ایک ایسا فن ہے جو لوگوں کو تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں شعور اور آگاہی بھی پیدا کرتا ہے تھیٹر کے ذریعے ہم دنیا کو ایک بہتر جگہ بنا سکتے ہیں پاکستان میں بھی تھیٹر کی ایک شاندار تاریخ رہی ہے جہاں کلاسیکی اور جدید ڈراموں کے ذریعے معاشرتی مسائل پر روشنی ڈالی جاتی رہی ہے تھیٹر نہ صرف تفریح فراہم کرتا ہے بلکہ عوام میں شعور اجاگر کرنے اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے البتہ جدید دور میں ٹیلی ویژن، فلم اور ڈیجیٹل میڈیا کے فروغ کے سبب تھیٹر کو وہ پذیرائی نہیں مل رہی جو ماضی میں حاصل تھی تاہم اب بھی کئی فنکار اور ادارے اس شعبے کو زندہ رکھنے کے لیے کام کر رہے ہیںعالمی تھیٹر ڈے کا بنیادی مقصد تھیٹر کی طاقت کو اجاگر کرنا اور اس کے ذریعے امن، ہم آہنگی اور معاشرتی اصلاح کا پیغام دینا ہے اس موقع پر دنیا بھر کے تھیٹر گروپس اپنے بہترین فن پارے پیش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو اس منفرد اور قدیم فن کی اہمیت کا احساس دلایا جا سکے یہ دن دنیا بھر میں تھیٹر سے جڑے افراد کے لیے ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو منوائیں اور اس قدیم ترین فن کی اہمیت کو عام لوگوں تک پہنچائیں پنجاب میں بھی تھیٹر کی ایک بھرپور تاریخ ہے لیکن حالیہ برسوں میں اس کی صورتحال مختلف عوامل کی وجہ سے اتار چڑھاو¿ کا شکار رہی ہے بدقسمتی سے تھیٹر اور فنکاروں کے ساتھ جو کچھ اس دور میں ہورہا ہے اسکی ماضی میں مثال نہیں ملتی حالانکہ خوش قسمتی کے ساتھ اس وقت پنجاب کی وزیر اعلی محترمہ مریم نواز شریف،وزیر اطلاعات عظمی بخاری اور سیکرٹری اطلاعات پنجاب طاہر رضا ہمدانی بھر پور کوشش کررہے ہیں کہ پنجاب کا کلچر پروان چڑھے اور یہاں کے تھیٹر آباد ہوں اس حوالہ سے پنجاب حکومت تھیٹر کو مثبت اور باوقار تفریح کا ذریعہ بنانے کےلئے اقدامات کیے ہیں جن میںفنکاروں کی فلاح و بہبود کے لئے آرٹسٹ فنڈ قائم کیا گیا ہے لیکن انکے نیچے کام کرنے والی ٹیم انکی کوششوں کو ناکام بنانے میں مصروف ہے اگر دیکھا جائے تو آج کا ہر بڑا فنکار تھیٹر کے راستہ سے ہی شوبز انڈسٹر میں داخل ہوا پنجاب میں روایتی تھیٹر کی ایک مضبوط روایت ہے جس میں لوک کہانیاں، تاریخی واقعات اور سماجی مسائل پیش کیے جاتے ہیں دیہی علاقوں میں آج بھی روایتی تھیٹر مقبول ہے لاہور اور فیصل آباد جیسے بڑے شہروں میں تھیٹر جدید شکل اختیار کرچکا ہے یہ تھیٹر اکثر سماجی مسائل، سیاسی طنز اور مزاحیہ خاکوں پر مبنی ہوتا ہے تاہم حالیہ برسوں میں تھیٹر میں فحاشی اور عریانی کی وجہ سے خواتین نے تھیٹر سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے ان حالات میں پنجاب آرٹ کونسل اور الحمرا آرٹ کونسل کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ تھیٹر میں نئی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کیلئے اقدامات کرتی تاکہ ہمارے تھیٹر جدید ٹیکنالوجی اور رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر فن کی دنیا میں نئی راہیں متعین کرتے ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے ا پنے فن اور فنکاروں کے زریعے دنیا میں ایک خاص مقام حاصل کرلیا ہے ایک وقت تھا کہ ہمارے ڈرامے سرحد پار ہم سے بھی زیادہ دیکھے جاتے تھے اور دنیا ہمارے فن اور فنکاروں کی معترف تھی لیکن ہماری ناقص پالیسیوں کی بدولت پہلے ہماری فلم انڈسٹری اجڑی اسکے بعد فنکاروں کی نرسریاں ہمارے تھیٹر بدنام ہوئے اوراب تو ویسے ہی بند ہوچکے ہیں جسکی وجہ سے ہمارے فنکار اپنی زندگی کا مشکل ترین وقت گذاررہے ہیں اور انکی کہیں سنوائی بھی نہیں ہورہی رائٹر ،ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ڈاکٹر اجمل ملک نے تھیٹر کے عالمی دن کے حوالہ سے بتایا کہ پوری دنیا میں منایا جانے والا اتنا اہم دن ہماری حکومت نے خاموشی سے گذار دیا اس دن پوری دنیا میں تقریبات ہوئی اور فنکاروں کو نوازا گیا لیکن ہمارے ہاں حکومت کی طرف سے فنکاروں کو دیا جانے والا 5ہزار ماہانہ وظیفہ بھی کئی ماہ سے نہیں مل رہا اسٹیج اور ٹیلی ویژن کے نامور فنکار لکی ڈیئر اور عابدہ بیگ اس وقت اپنی بیماریوں سے لڑ رہے ہیں اور حکومت انہیں پوچھ نہیں رہی اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور انکے کلچر ونگ سے تعلق رکھنے والے سیاسی ورکر بھی فنکاروں کی طرح مظلوم ہیں جو اپوزیشن دور میں مشکلات میں گھرے رہے اور اب حکومت میں نظر انداز ہیں آج اگر کلچر کے حوالہ سے مسز نسرین ملک کو کوئی اہم ذمہ داری دی ہوتی تو آج فن مرتا نہ ہی فنکار مسز نسرین ملک مسلم لیگ ن کے کلچر ونگ کو لیکر اس وقت سے چل رہی ہیں جب مشرف کے سخت ترین دور میں مسلم لیگ ن کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں ہوتا تھا یہ تب سے لیکر آج تک فنکاروں کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں جو فنکاروں کے معاملات الحمرا اور پنجاب آرٹ کونسل میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے زیادہ جانتی ہے لیکن انہیں انکے شعبہ سے دور رکھا ہوا ہے جسکا نقصان پنجاب حکومت کو پہنچ رہا ہے کہ آج ہمارے تھیٹر بند ہیں اور فنکار بے روزگار ہو چکے ہیں انکے پاس روٹی کے لیے پیسے ہیں اور نہ ہی دوائی کھانے کو پیسے ہیں اگر حکومت نے اپنی یہی پالیسی رکھی تو ایک دن آئے گا جب تھیٹر بھی سینما ہالوں کی طرح مارکیٹوں یا پلازوں میں تبدیل ہو جائیں اس وقت سے بچنے کےلئے ضروری ہے کہ مسز نسرین ملک جیسی کلچر کوسمجھنے والوں کو اہم ذمہ داریاں دی جائیں ۔