کالم

جامعات پر توجہ دیں

تعلیم کے متعلق سقراط کا کہنا ہے کہ ” تعلےم اس سچائی کو تلاش کرنے اور فرد کو اس سے روشناس کرانے کا عمل ہے جو اس کے ذہن مےں پوشےدہ ہوتی ہے ۔ارسطو کے بقول ”تعلےم بچے کی مکمل جسمانی اور اخلاقی نشوونما کا عمل ہے “۔ افلاطون کا کہنا ہے کہ ” تعلےم کے ذرےعے صحت مند معاشرے کی تنظےم کا کام سر انجام دےا جا سکتا ہے ۔“ اسلامی نقطہ نظر سے تعلےم کے ذرےعے انسان کی شخصےت کی ہمہ پہلو تربےت اور کردار کی تشکےل کی جاتی ہے تا کہ وہ زمےن پر اﷲ تعالیٰ کے خلےفہ کے منصب کا اہل بن سکے ۔ےہ سب بجا ہے مگر ہم تعلےم کی ہمہ گےرےت کے باوجود اس شعبے مےں تجربے ہی کرتے چلے جا رہے ہےں ۔پاکستان کو دنےا کے نقشے پر ابھرے 75برس ہو گئے ہم اےٹمی طاقت بن گئے مگر بد قسمتی سے ہم ابھی تک طے نہےں کر پا رہے کہ تعلےمی پالےسی کےا ہونی چاہےے ۔پاکستان مےں کئی تعلےمی پالےسےاں ،کئی پنج سالہ منصوبے ،بے شمار تعلےمی کانفرنسز منعقد کی گئےں مگر نتےجہ وہی ڈھاک کے تےن پات ہی رہا ۔دنےا بھر مےں پاکستان کا شمار پسماندہ ترےن ممالک مےں کےا جاتا ہے جہاں پر معےار کے لحاظ سے تعلےمی حالت تشوےشناک حد تک غےر تسلی بخش ہے ۔بنےادی ےا پرائمری تعلےم کا ذکر چھوڑےے پاکستان کی تو شرح خواندگی خطرناک حد تک کم اور مشتبہ ہے ۔عالمی سطح پر پاکستان کی جو بدنامی ہو رہی ہے اس کا مقابلہ دنےا بھر مےں صرف چند ممالک ہی کر سکتے ہےں جن مےں افرےقہ کے کچھ ممالک اور افغانستان شامل ہےں ۔ہمارے ہاں تےن کروڑ بچے ابتدائی تعلےم سے محروم ہےں ۔چاروں صوبوں مےں لاکھوں بچے نا خواندہ رہ جاتے ہےں جس کی وجہ سے چائلڈ لےبر اور بے روز گاری بڑھی ہے اور ان برائےوں کے تمام ڈانڈے تعلےم کے ناقص نظام سے جڑے نظر آتے ہےں ۔کس قدر افسوس کی بات ہے کہ تمام بورڈز اور ےونےورسٹےز مےں اعلیٰ عہدوں کی تقررےاں لسانی تعصب ،مالی منفعت اور پسند و ناپسند کی بناءپر کی جاتی ہےں اور ان مےں اہلےت کا کوئی معےار نہےں رکھا جاتا ۔ان عہدے داروں کو ہر طرح کے فوائد حاصل ہوتے ہےں جو بالواسطہ اعلیٰ حکام تک پہنچائے جاتے ہےں ۔تعلےم مےں کرپشن ،اقربا پروری کے جتنے مواقع موجود ہےں کسی اور شعبے مےں نہےں۔ملازمتوں مےں جانبدارانہ ترقےوں کی جتنی سہولت اس محکمے مےں ہے کسی اور محکمے مےں شاےد ہی ہو کےونکہ ہر سال طلباءو طالبات کی شرح داخلہ لاکھوں مےں بڑھتی ہے اور اسی تناسب سے اساتذہ کی آسامےاں بھی پےدا ہوتی ہےں جو باآسانی اثرو رسوخ کی نذر ہو جاتی ہےں ۔سےنکڑوں آسامےاں سرے سے پر ہی نہےں کی جاتےں بلکہ انہےں گھوسٹ اساتذہ کے عوض ہڑپ کر لےا جاتا ہے ۔اس طرز عمل کا نتےجہ غےر معےاری تدرےس کی صورت مےں برآمد ہوتا ہے جس کے سبب پاکستان کی تعلےم عالمی معےار کے پےمانے پر بے وقعت قرار دی گئی ہے ۔ماضی مےں اےچ ای سی کے چئےر مےن ڈاکٹر عطاالرحمٰن نے اعتراف کےا کہ ہمارے ملک کی کوئی بھی ےونےورسٹی عالمی سروے مےں پانچ سو بہترےن ےونےورسٹےوں مےں شمار ہی نہےں ہوتی جو انتہائی افسوسناک حقےقت ہے ۔تازہ ترےن اعدادوشمار کے مطابق ہماری شرح تعلےم 45فےصد سے زائد ہے جو متعدد وجوہات کی بنا پر مبالغہ ہی لگتا ہے ۔قومی آمدن کا 2.4فےصد تعلےم پر خرچ ہوتا ہے ۔اس وقت ملک بھر مےں اےچ ای سی سے الحاق شدہ 180جامعات موجود ہےں جن مےں 59فےصد سرکاری جبکہ 41فےصد پرائےوےٹ ہےں ۔پاکستان مےں تقرےباً 81فےصد طالب علم سرکاری جبکہ19فےصد پرائےوےٹ جامعات مےں داخلہ لےتے ہےں ۔تعلےمی معےار کی حالت ےہ ہے کہ ہماری ڈگرےوں کو بےرونی ےونےورسٹےاں تسلےم ہی نہےں کرتےں ۔جامعات سے فارغ التحصےل نوجوانوں مےں بے روزگاری کی شرح مےں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔بہت کم طالب علم پےشہ وارانہ تعلےم مےں مہارت رکھتے ہےں ۔ ان جامعات سے فارغ بہت سے طلبا ءملازمت کی درخواست تک لکھنے سے قاصر ہےں ۔کہا جاتا ہے کہ کسی قوم کی تہذےب و ترقی کا جائزہ لےنا ہو اور اجتماعی صورتحال کا اندازہ لگانا ہو تو اس کی جامعات ےعنی ےونےورسٹےوں کا کردار دےکھو ۔ےونےورسٹےاں اپنی ساخت اور نوعےت کے اعتبار سے اپنے اندر بہت جامعےت سمےٹے ہوئے ہوتی ہےں۔جن معاشروں مےں ےونےورسٹےاں محض انتظامی جزےرے بن کر رہ جائےں وہاں سماجی پسماندگی وتنزلی لاعلاج ہو کر رہ جاتی ہے ۔تعلےم کے لڑ کھڑاتے نظام کو سنبھالنے کی نےم دلانہ کوششےں ہر دور مےں کی جاتی ہےں بلکہ ان کی تشہےر بڑے پےمانے پر کی جاتی ہے لےکن ہمارے ہاں کرپشن اور کرپٹ افراد کی بڑے پےمانے پر سر پرستی ہی اصل خرابی کی جڑ ہے ۔تعلےم کے شعبہ مےں جو مسائل درپےش ہےں ان مےں سے چند اےک اےسے ہےں جو پورے ملک کی سطح پر ےکساں ہےں اور ان کا تدارک کےا جانا چاہےے وگرنہ تعلےم محض امراءکے طبقہ تک محدود ہو جائے گی ،اعلیٰ تعلےم حاصل کرنا اےک خواب بنتا جا رہا ہے اور اس کی وجوہات مےں فےسوں مےں بے تحاشا اضافہ سر فہرست ہے ۔تعلےم کمائی کاذرےعہ ہے اور ےہ تصور کہ علم اےک قابل خرےدوفروخت شے ہے خالص مادہ پرستانہ مغربی تہذےب کا پےدا کردہ ہے ۔موجودہ صورتحال کافی دگرگوں ہے ۔تعلےم انتہائی مہنگی اور عام شہری کی پہنچ سے دور ہے ۔ےونےورسٹی کی فےسوں کو برداشت کرنا عوام کےلئے انتہائی مشکل ہے چنانچہ ذہےن طالب علموں کی اےک بڑی تعداد محض ےونےورسٹی اور ہاسٹل فےسوں کا بوجھ گراں اٹھانے کی سکت نہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلےم سے محروم ہو رہی ہے ۔موجودہ دور مےں جبکہ بنےادی ضرورےات کا حصول مشکل ترےن ہو گےا ہے فےسوں مےں اضافہ بلا جواز اور تعلےم دشمن کے مترادف ہے ۔مہنگے تعلےمی ادارے اےک پرائےوےٹ صنعت کا درجہ حاصل کر چکے ہےں تمام معاملات جن مےں نصاب ، مےڈےم ،اساتذہ کی تقرری اور فےس کے شےڈول شامل ہےں ۔ےہ ادارے خود مختاری کی حد سے کہےں آگے مادر پدر آزاد ہےں ۔رشوت کے طور پر اس کےٹگری کے بےشتر ادارے اعلیٰ حکام کے بچوں کو داخلوں کی رشوت دےکر ان کے منہ بند کر دےتے ہےں ۔کس قدر شرم کی بات ہے کہ حکومت نے ان اداروں کو بےس فےصد اہل بچوں کی فےس مےں رعاےت دےنے کا حکم جاری کےا لےکن ان اداروں نے اس سرکلر کو فوراً رد کر دےا ۔ اےسے خود سر اور سرکش تعلےمی اداروں اور ان کی اتھارٹی کا لائسنس معطل کر دےنا چاہےے ۔نئے مالی سال پر تعلےم کا بجٹ بڑھانا چاہےے ۔کوئی نئی ےونےورسٹی قائم کرنے سے بہتر ہے کہ موجودہ جامعات کی حالت بہتر بنائی جائے اور ان مےں نئے شعبے قائم کئے جائےں ۔ہائر اےجوکےشن مےں حکومتی دھونس اور دھمکی کی پالےسی ختم کی جائے اور اس کی خود مختاری کے متوازی صوبائی اور وفاقی سطح پر بنائے جانے والے کمےشن فی الفور ختم کر دئےے جائےں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri