کالم

جرمنی میں اردو زبان و ادب!!

گوئیٹے اور شیلر کی سرزمین جرمنی جہاں ایک طرف معاشی طور پر دنیا کے کئی اہم ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے وہیں یہ ادب کی دنیا میں بھی اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ اس سرزمین پر ادب کی دنیا سے ایسے ایسے نامور ادباءو شعراء نے جنم لیا ہے جن کی ایک طویل فہرست ہے اور جنھیں دنیائے ادب میں بہت عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ یوہان وولف گانگ گوئیٹے، فریڈریش شیلر، ہانیریش ہائینے، ہیرمین ہیسیے ، گ±نٹر گراس، ائیریش کیسٹنر، ذگفریڈ لینس، وغیرہ، شاید ہی ادب کا کوئی شخص ایسا ہو جو ان کے نام سے واقف نہ ہو۔
ادب کی اس زرخیز زمین میں جب ہم جرمن ادب سے نکل کر دوسرے زبانوں کے ادب کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھ کر حیرت اور خوشی بھی ہوتی ہے کہ اس ملک میں ادب کی بانہیں اتنی وسیع ہیں کہ اس میں دنیا جہان کے ادب بھی سما چکے ہیں اور سما رہے ہیں۔ دنیا بھر سے خوبصورت ادب کی تلاش اور اسے جرمن زبان میں ڈھالنا اس معاشرے کی ایک بہت اہم اور تندرست روایات میں شامل ہے یہی وجہ ہے کہ ادب کا یہ سرمایہ ایک سمندر ہے جس میں غوطہ زن ہو کر ہی اپنی ادبی پیاس کو بجھایا جاسکتا ہے۔اس لیے یہ بات بھی بہت اہم اور غور طلب ہے کہ ادب سے شناساءحاصل کرنے کے لیے زبان کی شناسائی سب سے اہم ہے۔ جس کا اہم تقاضہ ایک معیاری زبان ہے جس کی مدد سے ادب کے مختلف گوشوں تک رسائی حاصل ہوسکے۔یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ اپنے وطن سے ہجرت کرکے دنیا کے دوسرے خطے میں جابستا ہے اور وہاں کے حالات و مسائل سے نبردآزماہونے کے بعد جب وہیں مستقل رہنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو پھر وہ اس گھٹری کو کھولتا ہے جو وہ اپنے وطن سے چلتے وقت ساتھ لیکر آیا تھا۔ جس میں اس نے اپنے پیاروں کی یادوں کے ساتھ ساتھ اپنی زبان و ادب کو بھی چلتے چلتے باندھ لیا تھا اور دیار غیر میں جب ذرا اسے سکون و طمانیت میسر آتی ہے تو اپنی گھٹری سے زبان و ثقافت کو نکال کر اس کی خوشبو دوسرے در پر بھی پھیلانے کی کوشش شروع کردیتا ہے۔ ایسے ہی بہت سارے دیوانے ، جرمنی میں بھی موجود ہیں جو کسی نا کسی طرح اردو زبان کی آبیاری کررہے ہیں۔جرمنی میں جو لوگ ہجرت کرکے آئے اور پھر یہیں آباد ہوگئے وہ اپنے ساتھ اپنی زبان اپنے ادب کو لے کر آئے، زبان و ادب کے اعتبار سے ان پر ایک اہم ذمہ داری یہ بھی عائد ہوگئی کہ وہ اپنی زبان سے محبت کرتے ہوئے اس کے ادب سے اس ملک کو بھی روشناس کرائیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جرمن ادب کے ساتھ ساتھ اردو ادب کو جرمنی میں پروان چڑھانا ہم نے اپنا اولین فرض سمجھا، کیونکہ معاشرے میں اپنے وجود کا احساس صرف ہماری اپنی موجودگی سے ناکافی ہوتا ہے اگر ہم اس کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت اپنے ادب اپنے طور طریقے اپنے رہن سہن کو دوسرے معاشرے میں ایک اچھے اور مثبت انداز سے نہ روشناس کرائیں۔
آج سے بتیس سال قبل جب میں برلن یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور جرمن سیکھ رہا تھا وہاں ایک خاتون ٹیچر جو جرمن زبان پڑھاتی تھیں انہیں یہ نہیں پتہ تھا کہ ملک پاکستان کہاں واقع ہے لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ ان کو یہ ضرور پتہ تھا کہ “اردو” ایک زبان ہے جو ہندوستان میں بولی جاتی ہے۔وہ اردو کی تاریخ سے مکمل طور پر نا بلد تھیں انہیں اس بات کا بھی علم نہیں تھا کہ یہ کن کن زبانوں کے ملاپ سے وجود میں آئی ہے؟ان کا اردو کے بارے میں نہ جاننا کوئی حیران کن واقعہ بھی نہیں تھا کیونکہ دنیا میں اتنی زبانیں بولی جاتی ہیں ہر ایک کے بارے میں جاننا کچھ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ آج بتیس سال کے مختصر عرصے میں ہی اردو زبان یورپ میں بولی جانے والی غیر ملکی زبانوں میں چھٹے نمبر پر آچکی ہے جو کہ اردو سے وابستہ لوگوں کے لیے انتہائی مسرت کی بات ہے۔ کامیابی کی یہ منزل بہت کھٹن مراحل سے گزرنے کے بعد ہی مل پائی ہے جس کا سہرا زبان اردو سے محبت کرنے والوں کی اپنی انفرادی اور کبھی کبھار اجتماعی دیوانگی سے ہی ممکن ہوا ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ جرمنی سمیت یورپ کے ہر ایک ملک میں اردو زبان و ادب کی آبیاری ہورہی ہے۔جرمنی میں بھی اردو زبان و ادب کی کامیابی کے کارنامے اب بہت زیادہ منظر عام پر آرہے ہیں۔ جرمنی کے ہر صوبے اور ہر صوبے کے ہر بڑے شہر میں کوئی نا کوئی اردو زبان و ادب کی محبت میں گرفتار ہے اور اپنی ذاتی کوشش سے اردو کے فروغ کے لیے کوشاں بھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر جرمنی کے ایک صوبے کے ایک شہر میں اردو زبان والے گھر پر ہی اکھٹے ہوکر شعر و شاعری کی ہی محفل سجاتے ہیں تو یہ بھی اردو کی ایک خدمت ہے۔ اپنے ملک سے ہزار کلو میٹر دور بیٹھ کر اپنی زبان کو کسی بھی طرح سے یاد رکھنا اس زبان کی بقا کا ایک ذریعہ اور نشانی ہے۔یہ بات البتہ بہت اہم ہے کہ ہم اردو زبان و ادب کو جرمن معاشرے میں کس طرح پیش کررہے ہیں ؟ کیا جرمنوں میں یہ زبان و ادب سے واقفیت اب کافی ہوچکی ہے؟ کیا ان میں اردو زبان کی سدھ بدھ آرہی ہے ؟ کیا وہ اردو زبان سیکھ کر اس کو استعمال بھی کررہے ہیں ؟ ایسے اور اسی طرح کے کئی سوالات ہیں جن کے جواب کی تلاش ابھی ہمیں کرنی ہے۔
جرمنی میں اردو کی حالت اب کافی اطمینان بخش نظر آرہی ہے۔ لیکن یہ اطمینان اتنا بھی نہیں ہے کہ اسے منزل پر پہنچ جانا سمجھ لیا جائے۔ کیونکہ زبان و ادب کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں نئی نئی جدت پیدا کی جائے اور اسے جدید تیکنکی عناصر کے مطلوبہ عوامل سے پروان چڑھایا جائے۔ زبان ہمیشہ ایک ارتقائی سفر کی جانب رواں رہتی ہے اس لیے اس کی آخری منزل کا تعین کرنا تو ممکن ہی نہیں ہے اور پھریہ تو نئے آنے والے اور اس زبان و ادب سے محبت کرنے والوں کا کام ہوگا کہ وہ کس نظر و خیال کے تحت ا سے دیکھیں گے۔جرمنی میں ایک مدت سے اردو زبان و ادب کے شیدائی موجود ہیں جسے جرمن حکومت نے ہمیشہ کھلے دل اور بہت فخر سے قبول کیا ہے جس کے نتائج بہت ہی مثبت ہیں اور کیوں نا ہو کہ زبان اردو اپنی مٹھاس سے اپنی معتبرجگہ معاشرے میں خود بناتی چلی جاتی ہے۔ اردو زبان میں وسعت بھی ہے اور چاشنی بھی۔اس زبان کی خوبصورتی ہے کہ اس میں دنیا میں بولی جانے والی زبانوں کی آمیزش موجو ہے جو اسے مزید نکھارتی ہے۔ عربی، فارسی، ترکی، سنسکرت جہاں اس میں موجود ہے وہیں یورپی زبانوں میں فرانسیسی، لاطینی، ہسپانوی اور خود جرمن زبان میں بولے جانے والے کئی الفاظ جوں کہ توں مل جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اردو کو انڈو۔ یورپین زبان بھی کہا جاتا ہے۔
جرمنی کے دارالحکومت شہر برلن کو دنیا جہان میں جہاں ایک طرف جنگ عظیم دوئم کی نسبت سے ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے وہیں زبان و ادب کی وجہ سے بھی شہر برلن اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے۔ برلن میں دنیا کی شاید ہی کوئی زبان ایسی ہو جو نہ بولی جاتی ہو۔ یہ ایک کثیر ثقافتی شہر ہے اور یہاں نہ صرف اردو زباں یہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جا رہی ہے بلکہ زبان دانی کے پرائیویٹ اور سیمی گورنمنٹ کے اسکولوں میں بھی پڑھائی جاتی ہے۔
اس سے ایک قدم اور آگے بڑھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اردو زبان کی تعلیم ان جرمنوں کو بھی دی جا رہی ہے جو جرمنی سے نوکری کے غرض سے پاکستان جاتے ہیں ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو براہ راست محکمہ خارجہ میں نوکریاں کرتے ہیں اور تین سال کےلئے جرمن ایمبیسی یا کانسلیٹ میں ٹرانسفر ہوکر جاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ بھی ہے کہ اگر وہ تین سال کے بعد واپس آکر اردو کو مزید پڑھنا اور امتحان دے کر سرٹیفکیٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ بھی سہولت موجود ہے۔ اور مجھے فخر ہے کہ خداوند مجھ ناچیز سے یہ کام لے رہا ہے۔جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ زبان سے آشنائی ہی ادب سے آشنائی کرواتی ہے۔ اس لیے یہ بھی دیکھنا ضروری کہ ادب کے سلسلے جرمنی میں کہاں کہاں ہیں۔جرمنی کا تجارتی شہر فرینکفرٹ اردو ادب سے مالا مال ہے۔ اور اس کے قرب وجوار کے چھوٹے شہر بھی ادب کا سرمایہ ہیں۔ برلن اردو ادب کا ایک انتہائی اہم مرکز مانا جاتا ہے۔ ہائیڈل برگ بھی اب اردو ادب کے لیے جانا پہچانا جاتا ہے۔ جرمنی میں وہ ادب پروان چڑھ رہا ہے جو یہاں ہجرت کرنے والوں نے تحریر کیا ہے۔جرمنی کے اردو افسانہ نگار کے نام سے موسوم میری کتاب ” رنگ برگ ” میں آپ جرمنی کے اگیارہ افسانہ نگاروں کے رنگ اور انکی تحریر کی خوشبو سے محظوظ ہوں گے گو یہ تعداد بہت زیادہ نہیں ہے لیکن جرمنی کے سخت سرد موسم کی برف پگھلانے کیلئے بہت ہے۔ یقینا یہ تعداد اور بھی زیادہ ہوگی کیونکہ میری رسائی شاید زیادہ لکھنے والوں تک نہیں ہوسکی ہوگی کیونکہ ہر کوئی شوشل میڈیا سے جڑا بھی تو نہیں ہے۔ میرے پاس موصول شدہ افسانوں کو جب میں دیکھتا ہوں اور پڑھتا ہوں تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جرمنی میں افسانوں کا مستقبل بہت واضح ہے۔ اس کتاب میں شامل کئی نام بہت معتبر پرانے اور اردو ادب پر چمکنے والے روشن اور درخشاں ستارے ہیں،ساتھ ہی نئے لکھنے والے بھی موجود ہ اور یہ ہمارے ادب کے مستقبل ہیں۔
الغرض جرمنی میں افسانہ نگاروں کو پڑھکر آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان افسانوں میں کئی رنگ موجود ہیں، اپنے وطن اپنی ثقافت کا رنگ، تو دوسری طرف یورپ کی بھاگتی دوڑتی زندگی کا رنگ۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کا ان افسانوں میں جو نئے نئے موضوعات آپ کو ملیں گے وہ جرمن زباں میں موجود دنیا بھر کے شاہکار موضوعات کو پڑھنے کی وجہ سے ہے۔ اس لیے میں نئے لکھنے والوں کو ہمیشہ یہی کہتا ہوں کے نئے اور جدید موضوع کو اردو ادب میں لانے کےلئے دوسری زبان کے ادب کو پڑھنا بہت ضروری ہے۔میں محسن بھوپالی کے اس شعر پر اپنے کالم کو ختم کرتا ہوں کہ
اس لیے س±نتا ہوں مح±سن ہر فسانہ غور سے
اک حقیقت کے بھی بن جاتے ہیں افسانے بہت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے