کالم

جرمنی میں مسلمانوں کی تجہیز و تدفین کے مسائل

ishrat moeen

دنیا کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے جسے شکست دینے کے لیے انسان ازل سے کوشش کر رہا ہے لیکن ناکام ہے۔زمین پر جہاں انسانی آبادی بڑھ رہی ہے وہیں زندگی اپنے دیگر امور و معاملات کے ساتھ ساتھ موت اور اس کے بعد جسد خاکی سے نمٹنے کی بھی تیاریوں کے کام کا سلسلہ بھی تیز ہورہا ہے۔عموما دنیا کے ہر خطے اور خاص طور پر مغرب میں موت کی صورتحال سے دوچار ہونے کے بعد وفات پانے والے شخص کے لواحقین اس کی تجہیز و تدفین اس کے مذہب و عقیدے کے مطابق ہی کرنا چاہتے ہیں ۔ جس کے لیے نہ صرف اہل خانہ بلکہ شہر کی انتظامیہ بھی متحرک رہتی ہے لیکن جس شخص کے لواحقین نہ ہوں یا اس کے مذہب کے بارے میں معلومات نہ حاصل ہو سکیں اسے آسان اور سستے طریقے سے سفر آخرت پر روانہ کیا جاتا ہے یعنی اس کے جسد خاکی کو جلا کر اس کی راکھ دریا یا سمندر میں بہا دی جاتی ہے یا کسی جگہ نامعلوم طور پر بے نشان دفن کردی جاتی ہے۔
جرمنی میں زیادہ تر لوگ اپنی بیماری اور موت کی فکر اور ساتھ ہی مرنے کے بعد تدفین کے طریقہ کار کے لیے انشورنس پالیسی لے لیتے ہیں تاکہ ان کے دنیا سے گزر جانے کے بعد وہ ریاست یا لواحقین پر مالی بوجھ نہ ڈالیں ۔جرمنی چونکہ اسلامی ملک نہیں ہے لیکن یہاں بسنے والے ایک تہائی کے قریب باشندے اپنی موت کے بعد زمین میں دفن ہونا پسند کرتے ہیں۔ کچھ لوگ فطرت کے ساتھ تعلق جوڑتے ہوئے یا اپنے مالی حالات کے پیش نظراپنے جسدِ خاکی کو آگ کی نذر کرنا چاہتے ہیں اور اپنی خاک کو سمندر کے سپرد کرکے یا زمین کے کسی کونے میں دفن ہونا پسند کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ماحول کے تحفظ اور انسانی زندگی کی بقا کے لئے زمین کی اہمیت کو مقدم رکھتے ہیں اور تجہیز و تدفین کی ایسی پالیسی لیتے ہیں کہ ان کے جسم کی راکھ جنگل میں بکھیر دی جائے اور زمین کے سبزے کی نذر کردی جائے۔لیکن زیادہ تر عقائد اور مذہب کے ماننے والے اپنے مرتب کردہ مذہبی طریقے سے اپنی زندگی کا آخری سفر طے کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ تاریخی حوالے سے جرمنی میں گذشتہ صدی عیسوی سے ہی مسلمانوں کی باقاعدہ تدفین شدہ قبریں برلن شہر اور اس کے گرد و نواح میں موجود ہیں۔ یہ وہ مسلمان تھے جو جرمنی کے بادشاہ فریڈرش ڈیر گروس کی ذاتی محافظ فوج کے جوان تھے۔جن کی اموات کے بعد باقائدہ انہیں اسلامی طریقے سے سپرد خاک کیا گیا اور ان کی قبروں کی حفاظت ملک کی انتظامیہ اور ترک مسلمان تنظیموں کے زریعے ہی ممکن ہوئی۔اس کے باوجود یہ بات اپنی جگہ فکر کا باعث ہے کہ کسی بھی خطے میں کوئی شخص اپنے مذہبی عقیدے کو لے کر منفرد یا اقلیت میں ہو وہاں وہ مرنے کے لیے بھی اس جگہ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔گرچہ جرمنی میں اب اسلام دوسرا بڑا مذہب بننے کی تیاری میں سر فہرست ہے اور یہاں مسلمانوں کی تعداد ساڑھے پانچ ملین کے قریب ہے جو کہ جرمنی کی آبادی کا ساڑھے چھ فی صد سے زائد حصہ ہے لیکن اس کے باوجود یہاں بسنے والے مسلمان موت کے بعد اپنی تجہیز و تدفین اور قبرستان کے حوالے سے فکر مند ہیں۔
جرمنی میں غیر ملکیوں اور تارکین وطن کی مسلسل آمد نے یہاں کے اداروں اور وزارتوں میں نہ صرف ان کی آباد کاری کے حوالے سے کوششیں شروع کی ہیں بلکہ ان کے عرصہ حیات مکمل ہونے کے بعد ابدی آرام گاہوں اور مذہب و عقائد کی بنیاد پر تجہیز و تدفین کے حوالے سے بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں ۔ اس مشکل مرحلے سے مسلمان خاص طور پر گزر رہے ہیں اور کئی مسائل کے شکار ہیں ۔وہ ممکنہ حد تک کوشش میں ہیں کہ جہاں وہ اب مستقل بنیاد پر رہائش پزیر ہیں وہاں ان کو زندگی کی بنیادی سہولتوں کے ساتھ ساتھ مرنے کے بعد بھی سکون میسر رہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ ملک میں ایک اقلیتی حیثیت رکھتے ہیں ۔ مذہب اور عبادات کے حوالے سے آزاد ہونے کے باوجود ان پر کچھ سماجی اور ملکی قانون کی پاسداری کی ذمہ داری اس طرح عائد کی گئی ہے کہ وہ بھی ان کے لیے پابندی کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ قانونی پابندیاں حقیقی زندگی میں بہت سے پیچیدہ مسائل اور دشواریوں سے ہوکر گزرتی ہیں ۔ جرمنی میں اس وقت تین سو سے زائد قبرستان مسلمانوں کی تدفین کے لیے وقف ہیں جن کا رقبہ علاقے اور شہر میں مسلمانوں کی آبادی کے حساب سے متعین کیا گیا ہے جو کہ مسلمان تارکین وطن کی مسلسل آمد اور آباد کاری کے بعد اس بات کا متقاضی ہے کہ جرمنی کی ریاستی انتظامیہ اس میں اضافہ کرئے لیکن ابھی بھی یہ معاملہ جرمنی میں نئی مساجد کی تعمیر کے لیے دی جانے والی قانونی اجازت کے لیے التوی اور پابندیوں کا شکار ہے۔ کئی سالوں سے جرمنی میں بسے ہندوستانی پاکستانی بنگلہ دیشی اور دیگر مسلمان بھی ان ہی مشکلات سے دوچار ہیں۔ جرمنی میں یوں تو ہندوستان و پاکستان سے آنے والے افراد کا سلسلہ ساٹھ کی دہائی میں شروع ہوا لیکن پاکستان کی غیر مستحکم سیاسی صورتحال کے پیش نظر سن ستر کی دہائی میں پاکستانیوں کی محدود تعداد نے جرمنی کی جانب ہجرت کی۔ لیکن زبان سے نابلد ہونے اور کمزور معاشی صورتحال کے پیش نظر زیادہ تر افراد چند سالوں بعد جرمنی سے برطانیہ اور امریکہ ہجرت کرگئے۔ اس دوران زیادہ تر پاکستانیوں کی وفات کے بعد ان کی میت کمیونٹی اور سفارتخانے کی مدد سے پاکستان بھجوا دی جاتی تھی جہاں ان کے لواحقین ان کی تدفین کا انتظام کرتے تھے ۔ انیس سو اسی اور نوے کے درمیان گلف، بوسنیا ،صومالیہ کی جنگوں اور سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد مذید کئی مسلمان تارکین وطن جرمنی آکر پناہ لینے کے لیے آباد ہوئے اسی دوران پاکستان کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کے پیش نظر بہت سے پاکستانی مستقل طور پر جرمنی میں آکر رہائش اختیار کر گئے اور کئی لوگوں نے جرمن شہریت بھی حاصل کرلی۔ ابتدا اگر کوئی پاکستانی وفات پا جاتا تو پاکستانی کمیونٹی اپنی پچھلی روایت کے تحت آپس میں چندہ اکٹھا کرکے میت پاکستان بھیجوا دیتے لیکن رفتہ رفتہ مرحومین کےلواحقین اور ان کی اولاد میں یہ سوچ بیدار ہوئی کہ بجائے ہر بار رقم اکھٹی کرنے اور میت کو پاکستان بھجوانے کے دشوار گزار مراحل طے کرنے کے بجائے اس کو یہاں ہی پورے احترام کے ساتھ دفن کیا جائے ۔ہندوستانی مسلمانوں اور پاکستانیوں کی بڑی تعداد فرینکفرٹ ، ڈوزلڈورف کولون اور اس کے گرد و نواح میں بڑی تعداد میں رہائش پزیر ہے۔ کئی سال قبل وہاں کے قریبی شہروں جیسے زولنگن، ووپرٹال، ہاگن کی کمیونٹی نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ایک رجسٹرڈ تنظیم بنائیں گےجو اس دکھ کے موقع پر میت کو پاکستان بھیجے اور ساتھ ساتھ ہندوستانی و پاکستانی مسلمان بچوں کی دینی تعلیم پر بھی توجہ دےگی اس عزم کو لے کر انیس سو تیرانوے میں جرمنی میں پاکستانی کمیونٹی کی ایک تنظیم(پاک جرمن ویلفیر اینڈ اسلامک کلچر سوسائٹی رجسٹرڈ.) بنائی گئی جس کا صدر مقام ہاگن تھا ۔ اس تنظیم کی بنیاد سے قبل بھی غیر اندراج شدہ کچھ تنظیمیں اور گروپ اسی مقصد کے لیے جرمنی میں متحرک تھے لیکن اس تنظیم کی بنیاد سازی کے بعد جرمنی کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں رجسٹرڈ یا ان رجسٹرڈ دیگر ایسی تنظیمیں بنائی گئیں جن کا مقصد ہندوستانی مسلمانوں اور پاکستانیوں کی سماجی زندگی کی بہتری اور اسلامی طریقہ کار پر زندگی اور موت کے مراحل کا سامنا کرنا ہے۔
(جاری ہیں)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے