میں نے حال میں ہی 6 دن کا جرمنی کا دورہ کیا ہے اور ہینوور سے براستہ فرینکفرٹ سٹٹ گارڈ تک طویل سفر کیا ہے۔ مغربی یورپ میں جرمنی، آبادی اور رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے ایک اندازے کے مطابق جرمنی کی آبادی تقریبا ً85 ملین تک جاپہنچی ہے ایسا لگتا ہے کہ جرمن نسل تو سکڑ رہی ہے لیکن تارکین وطن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ جرمن کےلئے اب خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے حتی ٰکہ 23فروری کو جرمنی میں ہونےوالے عام انتخابات کا محور بھی تاریکن وطن کی جرمنی میں اسقدر آمد ہی سب سے بڑا ایشو بن کر ابھرا ہے دائیں بازو کی جماعتیں اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں اور مقامی باشندوں کے ووٹ اسی سنگل ایشو کی بنیاد پر حاصل کرنے کی دوڑ میں ہیں جبکہ روائیتی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی SPD جو امیگریشن کی حمایت یافتہ رہی ہے اس وقت تو حکومت میں ہے وہ بھی تارکین وطن کے بارے میں اپنی پالیسی کو بدلنے پر مجبور ہو رہی ہے یہاں حالیہ ماہ و سالوں میں آنے والے تارکین وطن میں شام سے تقریباً ایک ملین، یوکرین سے ایک ملین اور پچاس لاکھ کے قریب افغانی باشندے اور دوسرے ملکوں سے افراد جرمنی میں آئے ہیں ان کی اکثریت غیر قانونی راستوں کشتیوں کے ذریعے پہنچی ہے ٹرین سٹیشنوں، بس اسٹینڈوں اور بڑے بڑے پلوں کے نیچے بعض تارکین وطن نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جبکہ ہر بارڈر پر پولیس تعینات ہے لیکن پھر بھی کسی نہ کسی طرح تارکین وطن جرمنی میں داخل ہو رہے ہیں حالیہ دنوں میں 30ہزار تارکین وطن کو ڈی پورٹ بھی کردیا گیا ہے میں نے لاہور سے 40سال پہلے جرمنی جانےوالے سیاسی و سماجی رہنما سید ظفریاب زیادی کے ہمراہ جب شہروں کے مختلف حصوں کا دورہ کیا یا پھر پاکستان سینٹر ہینوور اور امہ مسجد میں پاکستانیوں جن میں چوہدری الیاس، افضل قریشی، الطاف قریشی، عمر کمال،راجہ نثار اصغر ساہی اور دیگر سے تارکین وطن کے بارے میں جب بات کی ہے تو وہ سب بھی اس حوالے سے فکر مند تھے کہ اب نسلی امتیاز اور تعصبات اور اسلام و فوبیا بڑھ رہا ہے چونکہ انہیں لگتا ہے کہ آنےوالے دنوں میں برے اثرات مرتب ہونگے اور جرمنی تبدیل ہوجائے گا میں نے جب جرمنی کی تیز ترین رفتار ٹرین انٹرسٹی جس کی رفتار 300 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اپنے سفر کے دوران یہ مشاہدہ کیا کہ ہر ملک کا باشندہ اس ٹرین میں سوار تھا مثال کے طور پر ایک واقعہ بیان کرتا ہوں ایک شام کی تارک وطن خاتون اپنے ساز و سامان کے ہمراہ تین کمسن بچوں کےساتھ سفر کررہی تھی میں نے لپک کر مدد کےلئے ایک بچہ تھام لیا جبکہ ایک جرمن خاتون جو انگریزی بول سکتی تھی اس نے بھی ازراہ ہمدردی ایک بچہ تھام لیا جبکہ شیر خوار بچے کو ماں دوران سفر اپنا دودھ پلاتی رہی جبکہ میں اور جرمن خاتون باقی دو بچوں کی دوران سفر دیکھ بحال کرتے رہے ہیں ہمیں اس شامی خاتون کے سامان اتارنے میں بھی اس کی مدد کرنی پڑی اسی طرح کے مناظر اور تارکین وطن کے بھی دیکھنے کو ہرجگہ ملتے ہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جرمن یا یورپین ممالک تارکین وطن کو اپنے ہاں مجبوری میں ویلکم کرتے چلے آرہے ہیں لیکن اب ان ممالک کو خطرہ لاحق ہے کہ تارکین وطن ہی یہاں میجارٹی میں نہ آجائیں نسلی تعصب برتنے والے سفید فام لوگوں کی نمائندگی کرنےوالوں کی بڑی پارٹی AFDجو باقی پارٹیوں کی بانسبت تبدیلی کی جماعت ہونے کی دعویدار ہے اس کی مقبولیت تقریبا بائیس فیصد ہوچکی ہے اور خطرہ یہ ہے کہ دوسری پارٹی کرسچین ڈیموکریٹک CDU پارٹی جو تیس فیصد پر جارہی ہے آئندہ دونوں حکومت ہی نہ قائم کر لیں ستم ظریفی یہ ہے کہ الیکشن سر پر ہیں اور جلتی پر تیل اس وقت چھڑکا گیا جب ایک 24 سالہ افغان لڑکے نے مبینہ طور پر میونخ میں ٹریڈ یونین کے احتجاجی مظاہرین پر چلتی گاڑی چڑھا دی جسکے نتیجے میں 16افراد جان بحق اور30زخمی ہوگئے ہیں مسلمانوں کی تعداد جرمنی میں کوئی چار ملین ہو گی جبکہ پاکستانیوں کی تعداد تقریبا دو لاکھ کے لگ بھگ ہے طالب علم بھی کافی تعداد میں آ چکے ہیں ۔ جرمنی میں23فروری کو ہونےوالے انتخابات کی ووٹنگ صبح 8 بجے سے شام 6بجے تک جاری رہے گی یہاں الکٹرانک ووٹنگ کے بجائے بیلٹ باکس کے زریعے ووٹنگ ہوتی ہے پہلا نتیجہ شام ساڑھے چھ بجے متوقع ہے۔جرمنی کی پارلیمنٹ، جسے وفاقی اسمبلی (Bundestag) کہا جاتا ہے، کے اراکین کی تعداد متغیر ہوتی ہے ہر عام انتخابات کے بعد، نشستوں کی تعداد انتخابی نتائج اور مخصوص قوانین کے تحت طے کی جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر 2021کے انتخابات کے بعد وفاقی اسمبلی میں 736اراکین شامل تھے اب اس تعداد کو اخراجات کو بچانے کےلئے ایک سو سیٹیں کردی گئی ہیں گزشتہ اسمبلی کے اخراجات 7 ملین یورو سے بڑھ کر ڈیڑھ بلین یورو تک بڑھ گے تھے معیشت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے یہ سیٹیں کم کی گئی ہیں یاد رہے جرمنی کو یوکرائن کی جنگ میں برطانیہ اور ڈنمارک کی طرح سط سے زیادہ اخراجات برداشت کرنے پڑ گئے ہیں جرمن اس جنگ سے قطعاً خوش نہیں ہیں جبکہ جرمنی کے انتخابات بھی اس لئے جلدی ہورہے ہیں کہ حکمران اتحاد ان ہی ایشوز کی بنیاد پر ٹوٹ گیا تھا جبکہ الیکشن کی مقررہ مدت ستمبر 2025 تھی یہاں پارلیمانی نظام حکومت یے چانسلر ہی وزیراعظم ہوتا ہے جبکہ صدارت کا عہدہ علامتی ہے عام انتخابات چار سال اور صدر پانچ سال کےلئے ہوتا ہے بڑی پارٹیوں میں گرین پارٹی، FDP ، CDU,LINKE،BSW انتخابات میں حصہ لے رہی اس دفعہ مسلمان اور پاکستانی بھی الیکشن میں حصہ رہے ہیں ہر ووٹر کے پاس دو ووٹ ہوتے ہیں ایک امیدوار کو ووٹ دیا جاتا ہے جبکہ دوسرا پارٹی کو جاتا ہے،جرمنی کے کل 18صوبے ہیںہر جرمن شہری، چاہے اسکی نسل یا مذہب کچھ بھی ہو، کو چاہیے کہ وہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنا چاہئے اپنی پسند کی پارٹی کو ووٹ دے ہر ووٹ گنتی ہوتا ہے اور وہ فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔میرا عمومی تاثر یہی ہے کہ اس پہلے حکمران جماعتوں (SPD، CDU، گرینز اور FDP)نے اقلیتوں کے حقوق کو کسی حد تک نظرانداز کیا ہے اگرچہ SPD اور گرینز تارکین وطن اقلیتوں کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں، لیکن جب فار رائٹس AfDاور CDUکی طرف سے دباو¿ آتا ہے تو وہ ہمیشہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔اگرچہ ان دونوں پارٹیوں میں تناسب کے لحاظ سے زیادہ تعداد میں تارکین وطن پس منظر رکھنے والے سیاستدان موجود ہیں، لیکن ان کی آوازیں پارٹی کے اندر اس وقت غیر موثر ہوجاتی ہیں جب اسلحہ کی ترسیل، امیگریشن قوانین میں تبدیلی انکی سکونت رہائش کا حق اور امتیازی سلوک وغیرہ کے معاملات دباﺅ آتا ہے سیدھے اقلیتوں کے تحفظ کےلئے یا خاص طور پر مسلمانوں کے سیاسی منظر نامے میں کوئی موثر پلیٹ فارم نہیں ہے البتہ جو مسلمان یا پاکستانی پہلے سے جرمنی میں قانونی طور پر سکونت اختیار کرچکے ہیں وہ سارے حقوق انجوائے کررہے ہیں۔جرمنی میں مقیم میری پاکستانیوں سے انکے مسائل اور پاکستان کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی ہے جس کا ذکر پھر سہی۔