کالم

جس ڈال پہ بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے

asad mustafa

دنیا میں ناموری کی خواہش اور ناموری دو بالکل الگ چیزیں ہیں۔کیونکہ نامور کوئی بن سکے یا نہیں ناموری کی خواہش ہر فرد میں ہوتی ہے۔محمد حسین آزاد نے اپنے مضمون شہرت عام اور بقائے دوام کادربار میں بقا کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک تو وہ بقاہے جس طرح روح فی الحقیقت مرنے کے بعد رہ جائیگی۔کیونکہ اس کے لیے فنا نہیں ہے۔ دوسری بقاعالم یادگار کی ہے،جس کی بدولت لوگ نام کی عمر سے جیتے ہیں اور شہرت دوام کی عمرپاتے ہیں۔اسی لیے اچھے سے اچھے کام اور برے سے برے کام بھی جن جن لوگوں نے کئے ان کے نام دنیا میں باقی ہیں۔بعض نمونہ رشک بن گئے تو بعض نمونہ عبرت ہیں۔ اس دار فنا میں نام باقی یا تو ان لوگوں کے رہ گئے جنھوں نے اپنا نام اور کام باقی رہ جانے کےلئے محنت کی۔ان میں ایسے بھی تھے جنھوں نے انسانیت کی فلاح اور حصول ثواب کےلئے کام کئے اور نام کمایا۔ لیکن جہاں تک ثواب کے حصول کی بات ہے اس کے لیے تو گم نام رہ کر بھی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے کیوں کہ اس معاملے میں شہرت کا چسکا اکثر اوقات تمام اعمال ظاہرہ کو ریا کاری میں تبدیل کر کے پل بھر میں ختم کر دیتا ہے۔جبکہ دنیاوی امور میں ناموری بہت محنت اور ریاضت مانگتی ہے ۔ بعض لوگ اندر سے ڈھول کی طرح خالی ہوتے ہیں۔ان کے اندر کا خلا خواہشوں سے بھرا ہوتا ہے۔ یہاں بے پناہ خواہشیں سما جاتی ہیں۔البتہ جب کبھی کوئی خواہش پوری ہوتی ہے تو وہ مر جاتی ہے لیکن اسی کی جگہ اس سے بڑی خواہش لے لیتی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اندر کا خلا بھرتا کیسے ہے؟تواس کا جواب بھی بڑا سادہ سا ہے کہ یہ اللہ والوں کی صحبت اور ضبط نفس سے بھرتا ہے۔جیسے فرمایا گیا کہ یک زمانہ صحبت با اولیا ۔ ۔۔بہتراز صد سالہ طاعت بے ریا ۔ بعض لوگ قناعت پسند ہوتے ہیں،جائز تعریف کے مستحق ہوتے ہیں اور کچھ نیا کر لینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں ۔ان کے اندر ڈھول کی طرح خالی نہیں ہوتے بلکہ وہ خود اعتمادی اور نفس کشی کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔اپنے اندر کو مضبوط کرنے کی یہ دولت آسانی سے ہاتھ نہیں آتی۔بہت تپسیا کرنا پڑتی ہے ۔ خواہشوں کی گردنیں مارنا پڑتی ہیں۔نفرتوں کی جگہ محبتیں کرنا پڑتی ہیں اور اپنے سے کم تر اور چھوٹوں سے جھک کر اور پیار سے ملنا پڑتا ہے۔جس طرح نفس کشی مشکل کام ہے،اسی طرح نامور ہونے کی خواہش سے ناموری تک بھی بہت مشکل مقام آتے ہیں۔اس میں آدمی کو کئی طرح کے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔چھوٹے بڑے لوگوں کی منت سماجت کرنا پڑتی ہے۔بہت سے ایسے لوگوں کو بھی دوست بنانا پڑتا ہے جنہیں آپ پسند بھی نہ کرتے ہوں۔ پھر کئی جھوٹ اور سچ بولنے پڑتے ہیں۔ کئی اہل لوگوں کا حق مارنا پڑتا ہے اور ان کی مخالفت کرنا پڑتی ہے۔ لوگوں سے جیلس ہونا پڑتا ہے کہ جس مقام پر وہ ہیں ، میں وہاں کیوں نہیں ہوں اور اسی طرح کے بے شمار غلط سلط کام کرنے کے بعد بھی ضروری نہیں کہ آپ نامور ہو جائیں۔جن لوگوں کے اندر کوئی خلا نہیں ہوتا ان میں خواہشات بھی محدود سی ہوتی ہیں۔جیسے اللہ کی رضا کے لیے نیک عمل کرنے اور لوگوں کی خدمت کرنے کی خواہش۔ ایسا شخص نام وری سے دور بھاگتا ہے کیونکہ وہ حقیقت میں دانا و بیناہوتا ہے اور جانتا ہے کہ نام وری کی نسبت گم نامی میں سو طرح کی سکھ رکھے گئے ہیں۔ ایسا شخص اگر اپنے ٹیلنٹ اور ہنرکو ظاہر بھی کر دے تو ایک دنیا اس کی مداح ہو جائے مگر اسے اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ناموری دراصل اس خالی گلاس کی خواہش کی طرح ہے جو اپنے بھرنے کےلئے بے چین وبے قرار ہوتا ہے لیکن جب اسے بھرا جاتا ہے تو چھلک اٹھتا ہے۔گم نامی اس لیے زیادہ بہتر ہے کہ گلاس کے چلو بھر پانی کی طرح ہوتی ہے جو پیاس بجھانے کےلئے بھی کافی ہو جاتا ہے اور جو چھلکتا ہے اور نہ گرتا ہے۔ آپ کہیں گے لبالب بھرا ہوا گلاس چلو بھر پانی والے گلاس کی نسبت زیادہ پیاس بجھا سکتا ہے مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ اس گلاس سے پیاس بجھانے کی خواہش کتنے زیادہ افراد میں ہوگی۔اور وہ کس کس کی پیاس بجھا سکے گا ۔ اس کے مقابلے میں چلو بھر پانی والے گلاس کی طرف کوئی دیکھے گا بھی نہیں۔برنارڈ شا نے کیا خوب کہا ہے کہ شہرت اور ناموری کی خواہش معمولی ذہن رکھنے والوں کی ایک کھلی ہوئی کمزوری ہے اور بڑے ذہن رکھنے والوں کی پوشیدہ کمزوری۔کسی کا یہ قول بھی کیا خوب ہے کہ زندگی کو ضرورت کی طرح گزارو ، خواہش کی طرح نہیں کیونکہ ضرورت فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہے اور خواہش بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہوتی۔ایسی ناموری بھی مانگے کا اجالا کہلاتی ہے جو کسی دوسرے شخص کی کوششوں کی وجہ سے ملی ہو۔اس طرح کے ناموروں کی اپنی گرہ میں کچھ نہیں ہوتابس دوسروں کے نام کی آڑ میں نام کمایا جاتا ہے ۔ سو آپ بخوبی جان سکتے ہیں کہ اس طرح کی مانگے کی کمائی کتنے عرصے کھائی اور لگائی جاسکتی ہے۔چنانچہ ختم ہونے پر پھر پہلی جگہ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔اب کوئی شخص اتنا سخی کیسے ہو سکتا ہے کہ بار بار ناموری کے چند سکے ، کسی کے گم نامی کے کاسہ قعر مزلت میں ڈالتا رہے۔ بقول بشیر بدر
شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے
جس ڈال پہ بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے