ربیع الاول کا مہینہ اہلِ ایمان کیلئے وہ نورانی موسم ہے جس میں دلوں پر رحمتوں کی بارش اور روحوں پر سکون کی لہر اترتی ہے۔ جیسے ہی یہ مبارک مہینہ جلوہ گر ہوتا ہے تو محبتِ مصطفے ۖ کی شمعیں دلوں میں فروزاں ہو جاتی ہیں، زبانیں درود و سلام کی محفل سجاتی ہیں اور فضا میں عقیدت و محبت کے نغمے گونجنے لگتے ہیں۔ نگاہیں جب اس بے مثال ہستی کے جمال کو یاد کرتی ہیں تو ایمان تازگی پاتا ہے اور روح سرشاری سے جھوم اٹھتی ہے، گویا کائنات سراپا مسرت ہو کر اعلان کر رہی ہو کہ محبوبِ ربِ کائنات ۖ کی آمد کا موسم آ گیا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ جشنِ میلاد کو ہم کس زاویے سے دیکھتے ہیں؟ کیا یہ محض ایک رسم ہے جس میں چراغاں اور جلوس ہوں یا یہ ایک عہد ہے کہ ہم اپنی زندگیاں اور اپنے اعمال حضور ۖ کی ناموس کے تحفظ کے لیے وقف کریں گے؟میلاد مصطفے ۖ دراصل تجدیدِ عہدِ وفا ہے۔ قرآن مجید ہمیں یاد دلاتا ہے: یعنی رسول اللہ ۖ مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اس آیت کی روشنی میں میلاد کا دن ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم کس حد تک اپنے نبی ۖ کے حق کو اپنی ذات پر مقدم رکھتے ہیں۔ اگر ہماری زبان پر درود ہے مگر اعمال اسکے برعکس ہیں تو سمجھ لیجیے کہ ہم نے میلاد کو محض رسم بنا دیا ہے۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ عشقِ رسول ۖ ہمیشہ ایمان والوں کا سرمایہ رہا۔ حضرت بلال حبشی کی اذیتیں ہوں یا امام احمد بن حنبل کے کوڑے، صحابہ و تابعین کے ایمان افروز واقعات ہوں یا برصغیر کے علما کی قربانیاں، ہر دور میں ایک ہی اعلان گونجا کہ ناموسِ رسالت ۖ پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔
جشن میلاد ہمیں اسی عہد کی یاد دلاتا ہے کہ ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک رسول اللہ ۖ کی حرمت کے محافظ ہیں۔پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں میلاد النبی ۖ کے جلوس دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔درود و سلام کی صدائیں اور نعتوں کی گونج ہر سمت فضاؤں میں نور بکھیر دیتی ہیں۔ ترکی میں مساجد کی رونق اور نعتیہ مشاعروں کی محافل، انڈونیشیا اور ملائیشیا میں قومی سطح پر ہونے والی تقریبات، مصر و مراکش میں رات بھر ذکر و درود سے لبریز محافل اور یورپ و مغرب میں اجتماعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ میلاد مصطفے ۖ کی خوشی کسی ایک خطے تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا کے عاشقانِ رسول ۖ کا مشترکہ جذبہ ہے۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ روشن ہے کہ جشن میلاد صرف چراغاں، نعت خوانی یا جلوسوں کا نام نہیں بلکہ یہ دن ہمیں اسو حسنہ ۖ کو اپنی عملی زندگی میں اپنانے کا درس دیتا ہے۔ اگر ہم واقعی میلاد منانے والے ہیں تو ہمیں اپنی زندگیوں کو صدق، امانت، انصاف اور محبت سے مزین کرنا ہوگا، کیونکہ یہی وہ اوصاف ہیں جو نبی کریم ۖ نے ہمیں وراثت میں دیے۔
یہ دن ہمیں ایک اور بڑی حقیقت یاد دلاتا ہے: مغرب میں توہینِ رسالت کے واقعات ہوں یا ہمارے اپنے معاشرے میں دین سے غفلت، دونوں کا مقابلہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے کردار کو مصطفوی کردار میں ڈھالیں۔ عشقِ رسول ۖ کا دعوی زبان سے نہیں بلکہ کردار سے ثابت ہوتا ہے۔
لہذا جشن عید میلاد النبی ۖ دراصل ایک عہدِ وفا ہے۔ یہ اعلان ہے کہ ہم اپنے گھروں کو سیرتِ رسول ۖ کا عکس بنائیں گے، اپنے بازاروں کو صداقت کا پیکر کریں گے، اپنی سیاست کو امانت و دیانت سے سنواریں گے اور اپنے دلوں کو عشقِ رسول ۖ سے منور کریں گے۔ تبھی دنیا پہچانے گی کہ ہم نے میلاد کو صرف روشنیوں کا کھیل نہیں بلکہ ایمان کا عہد بنایا ہے۔پس یاد رکھیے! میلاد مصطفے ۖ محض ایک تہوار نہیں، یہ دن دراصل ہماری زندگی کا منشور ہے۔
کالم
جشن میلاد مصطفے ۖ تجدیدِِ وفا اور ناموس رسالت ۖ
- by web desk
- ستمبر 3, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 20 Views
- 10 گھنٹے ago