کالم

جلاوطن سکھوں سے مودی حکومت کا ناروا سلوک

مودی سرکار کی سکھ دشمنی کا اصل چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہوگیا۔ امریکا سے جلاوطن بھارتیوں کے طیاروں کو بلاوجہ امرتسر میں اتار کر سکھوں کی عزت کو پامال کیا گیا۔ جلاوطن افراد کو ہتھکڑیاں اور زنجیریں لگائی گئیں جبکہ سکھ جلاوطن افراد کی پگڑیاں پرواز کے دوران ا±تار لی گئیں۔ مودی حکومت نے سکھوں کے مقدس شہر امرتسر میں جلاوطن بھارتیوں کو اتار کر سکھوں کو بدنام کرنے کی گھناو¿نی سازش کی جس پر پنجاب اور سکھ کمیونٹی میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔
مودی سرکار نے جلاوطن بھارتیوں کے بحران کو سکھ بحران میں تبدیل کر دیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت امیگریشن پالیسی کے تحت اب تک بھارت کے 332 شہریوں کو ملک بدر کر دیا گیا۔ یہ جلاوطنی امریکی حکام کی غیر قانونی امیگریشن کے خلاف جاری کریک ڈاو¿ن کا حصہ ہے جس کے نتیجے میں 5 فروری 2025 کے بعد سے تین پروازیں بھارت پہنچ چکی ہیں۔
سکھ رہنماو¿ں کا کہنا ہے کہ یہ دراصل سکھ کمیونٹی کے خلاف مودی کا ایک بڑا سازشی منصوبہ ہے جس کا مقصد ان کے خلاف عالمی سطح پر نفرت اور بدگمانی پیدا کرنا ہے۔ مودی سرکار ایسے اوچھے ہتکھنڈے استعمال کر کے سکھوں کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائیاں کررہی ہے اور انہیں بدنام کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت سنگھ مان نے ڈی پورٹ کیے گئے افراد کے طیاروں کو پنجاب میں اتارنے پر مودی سرکار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پنجاب بھارت کا زرعی مرکز اور دفاعی قوت ہے مگر بی جے پی کی حکومت نے ریاست کو بدنام کرنے کے لیے مہم شروع کر دی ہے۔ امریکا سے جلاوطن بھارتیوں کو امرتسر میں اتارنا مودی سرکار کا ایک اور حربہ ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر سکھوں کی شہرت کو نقصان پہنچانا ہے۔
بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے سوال کیا کہ وزارت خارجہ نے ان طیاروں کو امرتسر میں اتارنے کا فیصلہ کیوں کیا حالانکہ ملک بھر میں سینکڑوں دوسرے ہوائی اڈے موجود ہیں؟ اگر بنگلا دیش کی شیخ حسینہ کا طیارہ ہنڈن ایئرپورٹ پر اتارا جا سکتا ہے اور رافیل طیارہ امبالا میں اتر سکتا ہے تو جلا وطنوں کا طیارہ ملک کے کسی دوسرے حصے میں کیوں نہیں لے جایا جا سکتا؟ غیر قانونی امیگریشن صرف پنجاب کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک قومی مسئلہ ہے پھر بھی یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پنجاب اس سے شدید متاثر ہے۔ خود ساختہ عالمی رہنما“ مودی نے اپنی خود ستائشی کے سوا ملک کے لیے کچھ حاصل نہیں کیا۔مودی سرکار کی یہ شرمناک سازشیں سکھوں کے خلاف ایک واضح سیاسی انتقامی کارروائی ہے۔
حکام اور ماہرین نے کہا ہے کہ سیاسی و سلامتی کے تحفظات کے تحت بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سکھ علیحدگی پسندوں سے نمٹنے پر مکمل توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی ملک کی اس چھوٹی مذہبی اقلیت میں بہت کم حمایت حاصل ہے۔شمالی بھارت میں سکھوں کی علیحدہ وطن کی تحریک جسے دہائیوں پہلے کچل دیا گیا تھا حالیہ مہینوں میں عالمی سطح پر ایک بار پھر ا±س وقت خبروں میں آئی جب امریکہ اور کینیڈا نے بھارتی حکام پر سکھ علیحدگی پسند رہنماو¿ں کے خلاف قتل کی سازشوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔
نئی دہلی نے کینیڈا کے شہر وینکوور کے مضافاتی علاقے میں جون میں ہونے والے سکھ رہنما کے قتل سے کسی بھی تعلق سے انکار کیا لیکن نیویارک میں سکھ رہنما کے قتل کی مبینہ سازش کے بارے میں امریکی خدشات کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی سازشیں حکومتی پالیسی نہیں اور وہ بیرون ملک مقیم سکھ علیحدگی پسندوں کو نشانہ نہیں بنا رہی۔بھارتی حکومت کے عام طور پر واشنگٹن اور کینیڈا سے سفارتی تعلقات دوستانہ رہے ہیں مگر حالیہ واقعات سے تناو¿ پیدا ہوا جس نے نریندر مودی کی ہندو قوم پرست پالیسی اور سکھ علیحدگی پسندوں سے نمٹنے کے بارے میں سوچ کو ا±جاگر کیا۔
مودی سرکار کا کہنا ہے کہ بیرون ملک مقیم سکھ پنجاب میں ہونے والی جرائم سے منسلک ہیں اس لیے ا±ن کے خلاف کریک ڈاو¿ن ہونا چاہیے۔ دوسری جانب سکھ قوم پرست اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیراعظم مودی ان کی قیادت کو ختم کرنے اور اپنی ہندو بنیاد پرستی کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مودی کے دیگر ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں کیونکہ سکھ کسانوں نے ان کی حکومت کو زرعی اصلاحات کی واپسی پر مجبور کر کے سب سے بڑا دھچکا پہنچایا تھا۔سکھ علیحدگی پسندوں کا مطالبہ ہے کہ خالصتان نامی ایک علیحدگی ملک قائم کیا جائے جوبھارتی پنجاب کی زمین پر ہو اور جس کو وہ ’پاک لوگوں کی سرزمین‘ قرار دیتے ہیں۔
سکھ مذہب کی بنیاد 15ویں صدی کے آخر میں پنجاب میں رکھی گئی تھی، اور یہ واحدبھارتی ریاست ہے جہاں وہ اکثریت میں ہیں۔ بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی میں سکھ دو فیصد سے بھی کم ہیں۔حالیہ برسوں میں ملکی سطح پربھارت میں خالصتان کبھی ایک اہم مسئلہ نہیں رہا۔ خالصتان شورش کو کچلنے کے دوران بھارتی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 80 اور 90 کی دہائی میں ہزاروں افراد قتل کیے گئے۔ خالصتان کو آج پنجاب میں کوئی زمینی حمایت حاصل نہیں، لیکن بیرون ملک کچھ ممتاز علیحدگی پسند رہنما منشیات کے کاروبار اور جرائم کے سنڈیکیٹس چلاتے ہیں اور ان کے پنجاب میں بھی روابط ہیں۔
حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ایک اعلیٰ بھارتی سکیورٹی اہلکار نے خالصتان کو ’مردہ گھوڑا‘ قرار دیا لیکن ساتھ ہی کہ ’آپ کو ا±ن کے متحرک ہونے سے پہلے ا±ن کے خلاف کام کرنا ہوگا‘ کیونکہ وہ بیرون ملک پیسہ اکٹھا کر رہے ہیں، لوگوں کو تربیت دے رہے ہیں اور بھارت کی تقسیم کے لیے تحریک چلا رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے