کالم

جموں و کشمیر: متنازع علاقہ قرار

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلگام واقعہ پر مذمتی بیان میں جموں وکشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع علاقہ قرار دے دیا۔سلامتی کونسل نے جموں و کشمیر میں فائرنگ کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر قسم کی دہشتگردی عالمی امن اور سلامتی کیلئے سنگین خطرات میں سے ایک ہے، اس طرح کی کارروائیاں کوئی بھی کرے، کہیں بھی کی جائیں اور ان کا جو بھی مقصد ہو مجرمانہ اور ناقابل قبول ہیں۔پہلگام واقعہ سے متعلق پاکستان کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سفارتکاری کام کر گئی، بھارت ہاتھ ملتا رہ گیا، بھارت کی پاکستان کے خلاف خواہش پوری نہ ہو سکی، سلامتی کونسل کے بیان میں بھارت کی جگہ صرف تمام متعلقہ حکام کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔سلامتی کونسل میں بیان امریکا نے تجویز کیا تھا، متفقہ بیان منظور نہیں ہو سکا، پاکستان نے سفارتی کوششوں سے متنازع الفاظ شامل نہیں ہونے دیئے، پاکستان نے لفظ جموں و کشمیر بھی بیان میں شامل کرایا، بھارت چاہتا تھا لفظ پہلگام شامل ہو تاکہ یہ تاثر ہو کہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت ہڑپ کر چکا ہے۔پہلگام لفظ شامل کرانے میں ناکامی کے ساتھ بھارت فوری اظہار مذمت بھی نہیں کرا سکا، پہلگام میں حملہ 22 اپریل کو ہوا تھا جبکہ مذمتی بیان 4 دن بعد 26 اپریل کو جاری ہوا۔یو این اہلکار کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کو خطے کی صورتحال پر اظہار تشویش ہے، بھارت اور پاکستان صورتحال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کیلئے تحمل کا مظاہرہ کریں۔ بجا طور پر اس سلسلے میں پاکستان کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سفارتکاری کام آئی ہے جس کے بعد بھارت ہاتھ ملتا رہ گیا۔ بھارت چاہتا تھا کہ بیان میں لفظ پہلگام شامل ہو جس سے یہ تاثر دیا جاسکے کہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت ہڑپ کر چکا ہے۔ بھارت کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اور پاکستان نے اپنی بروقت سفارتی کوششوں سے متنازعہ الفاظ کی بجائے لفظ جموں و کشمیر بیان میں شامل کرایا۔ سلامتی کونسل کے بیان میں بھارت کی جگہ تمام متعلقہ حکام کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جس سے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ سلامتی کونسل جموں و کشمیر کو ایک متنازع علاقے کے طور پر ہی دیکھتی ہے۔ سلامتی کونسل میں بیان امریکا نے تجویز کیا تھا لیکن متفقہ بیان منظور نہیں ہو سکا۔پہلگام واقعے کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین بشمول غیر مستقل رکن پاکستان نے سخت الفاظ میں مذمت کی اور اس بات پر زور دیا کہ دہشتگردی کے اس قابل مذمت واقعے میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کےلئے بین الاقوامی تعاون کیا جائے تاہم 2019 میں جب پلوامہ حملہ ہوا تھا اس وقت سلامتی کونسل نے تمام ممالک سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بھارتی حکومت سے فعال تعاون کریں تاکہ دہشتگردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اس بار بھارت کی جگہ صرف تمام متعلقہ حکام کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جس سے اہم سفارتی محاذ پر بھارت کو ناکامی کا سامنا ہوا ہے۔سلامتی کونسل میں ہونے والی ہزیمت کے بعد بھارت کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہو جانا چاہیے کہ عالمی ادارے اور بین الاقوامی برادری کی نظر میں جموں و کشمیر کی حیثیت کیا ہے۔ بھارت اپنی سازشوں سے عالمی برداری کو نہ تو بے وقوف بنا سکتا ہے اور نہ ہی وہ اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ دنیا اس کے اشاروں پر چلنا شروع کردے۔ دو روز پہلے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے پہلگام واقعے کے حوالے سے جس غیر جانبدار تحقیقات کا حصہ بننے کی بات کی تھی اس سے متعلق اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل سمیت ہر بڑے فورم پر بات ہونی چاہیے تاکہ اس واقعے کو مثال بنا کر دنیا کو یہ بتایا جاسکے کہ بھارت کس طرح خطے میں امن و امان کی صورتحال کو بگاڑنے کے لیے ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت اس طرح کے ڈرامے صرف پاکستان کیخلاف ہی نہیں کرتا بلکہ اپنے تمام ہمسایوں کے خلاف وہ مسلسل سازشیں کرتا رہتا ہے اور اسی وجہ سے اس کے اردگرد واقع کسی بھی ملک کے ساتھ بھارت کے تعلقات اس سطح پر ہیں کہ انھیں دوستانہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔بھارت کی طرف سے پہلگام واقعے کا ڈرامہ جن وجوہ کو بنیاد بنا کر رچایا گیا وہ بھی آہستہ آہستہ سامنے آ ہی رہی ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا واقعے کی وجہ سے سعودی عرب کا دورہ فوری طور پر ختم کر کے اپنے ملک واپس آ جانا اور پھر وہاں پہنچ کر جائے وقوعہ پر جانے کی بجائے بہار کے انتخابی جلسے میں شرکت کرنا یہ واضح کرتا ہے کہ پہلگام میں حملہ کسی اور نے نہیں بلکہ بھارت کے اپنے ہی اداروں نے کیا جس کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا اور بھارت میں بالعموم تمام اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے نظر ہٹانا تھا۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما و¿ں کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے غیر قانونی اقدامات کیے، بھارتی قبضے کے خاتمے، حصول حق خود ارادیت تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ بھارت کو اقدامات واپس اور بات چیت پر آمادہ کیا جائے، بھارت نے اپنے غلط اقدامات دنیا کے سامنے صحیح پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے