کالم

جمہوری اتحادی حکومت احتجاج

مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد مرکز اور صوبوں میں پاور شیئرنگ کے فارمولے پر اتفاق ہو گیا۔ بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی شہباز شریف کی بطور وزیر اعظم حمایت کرے گی۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن حکومت بنائے گی مریم نواز کو پنجاب کی وزیر اعلیٰ نامزد کر دیا گیا ہے۔ بلوچستان اور سندھ میں وزیراعلیٰ پی پی پی کا ہوگا جبکہ سندھ اور بلوچستان کا گورنر پی ایم ایل این کا ہو گا ایم کیو ایم نے گورنر سندھ اور مرکز میں پانچ وزارتوں کی ڈیمانڈ کی ہیے پی ایم ایل این گورنر سندھ کا عہدہ ایم کیو ایم کو دے سکتی ہے۔ گورنر پنجاب اور چیرمین سینٹ پی پی پی اور اسپیکر قومی اسمبلی مسلم لیگ ن سے ہو گا۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہم آصف زرداری کو صدر پاکستان منتخب کروایں گے خواتین کی مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے پی ٹی آئی کے چھیاسی ارکان نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر لی ان میں بیرسٹر گوہر اور علی ظفر شامل نہیں ہیں خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے زیادہ سیٹیں حاصل کی ہیں اور وہ حکومت بنانے جا رہی ہے ۔ قیادت کی طرف سے علی امین گنڈا پور کو خیبر پختونخواہ کا وزیراعلیٰ نامزد کر دیا ہے انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ہم این ایف سی ایوارڈ کے تحت بھیک نہیں اپنا حق لیں گے۔ ان کے پہلے بیان سے ہی فیڈریشن کے ساتھ کنفرنٹیشن کی بو آ رہی ہیے۔ انتخابات میں مبینہ رگنگ کیخلاف پی ٹی آئی جے یو آی ف جماعت اسلامی پیر پگاڑہ کی جی ڈی اے اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ نے راولپنڈی کے تیرہ حلقوں میں دھاندلی کے الزامات لگائے لیکن جب الیکشن کمیشن نے بیان کےلئے بلایا تو صاف مکر گے اور جھوٹ بولنے پر قوم سے معافی مانگی۔ اب اس احتجاج میں شدت آتی جا رہی ہے پی ٹی آئی جماعت اسلامی اور جے یو آئی ف نے کراچی میں دھرنا دے رکھا ہے ان کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ مرکز میں کسی بھی جماعت کی حکومت بنے اسے قرضے کے حصول کے لے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔کیوں کہ پرانے قرضوں پر سود کی قسط بھی ادا کرنی ہوتی ہے۔ شہباز شریف کی بطور اتحادی وزیراعظم کارکردگی اچھی نہیں رہی کیوں کہ اس دور میں مہنگائی کا گراف بہت اوپر چلا گیا۔ دوسری طرف ملک کو ڈیفالٹ سے نکالنے کےلئے انہوں نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان لی تھیں امید کی جا رہی ہے کہ ان کے موجودہ دور میں بھی آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت کے تعلقات اچھے رہیں گے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کو خط لکھا ہے کہ پاکستان کی حکومت کو قرض کی منظوری کےلئے حالیہ انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات اور آڈٹ عدلیہ سے کرانے کی شرط رکھی جائے ۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ آئی ایم ایف کے نمائندے نے کہا سیاسی بیان نہیں دیں گے اور آنےوالی حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے۔ پی ٹی آئی کا یہ وہی رویہ ہیے جو شوکت ترین نے روا رکھا تھا ہمیں ایسی باتیں کرنے سے پہلے تاریخ میں جھانکنا ہو گا انیس سو ستتر میں ذوالفقار علی بھٹو نے انتخابات کراے حزب اختلاف کی طرف سے دھاندلی کے الزامات لگے نو جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک چلی ۔ آخر کار بھٹو حکومت کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑا ۔ دونوں فریق کسی سمجھوتے پر پہنچنے والے تھے بھٹو حزب اختلاف کو کچھ سیٹیں دینے پر رضامند ہو گئے تھے کہ جنرل ضیاالحق نے رات کی تاریکی میں مارشل لا لگا دیا اور گیارہ سال تک ملک پر آمریت مسلط رہی۔ مذاکراتی کمیٹی کے اہم رکن مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب اور لائن کٹ گی میں فوجی مداخلت اور اپنی گرفتاری کی تفصیل بیان کی ہے۔ عرصہ دراز سے تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کا مطالبہ کر رہی تھیں جن میں پی ٹی آی سب سے آگے تھی سپریم کورٹ کی مداخلت سے پر امن انداز میں انتخابات منعقد ہوئے۔ عوام نے بھرپور انداز میں اپنا حق راے دہی استعمال کیا کسی جماعت نے بھی واضح اکثریت حاصل نہیں کی۔ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کیا اب پی ایم ایل این اور پی پی کے درمیان حکومت سازی کا معاہدہ ہو گیا ہے۔ تمام صوبوں میں بھی حکومتیں بن رہی ہیں ممبران اسمبلی حلف اٹھا رہے ہیں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے رگنگ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے پی ٹی آی کی طرف سے عدالتی جنگ بھی جاری ہے امریکہ یورپی یونین اور برطانیہ نے دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی لیکن اب امریکہ نے کہ دیا ہے کہ نی حکومت کے ساتھ کام کریں گے ملک میں ایک بار پھر جمہوریت واپس آرہی ہے اس لیے سیاست دانوں کو مل جل کر کام کرنا ہو گا۔ اسمبلیوں کی رونقیں بحال ہو رہی ہیں پی ٹی آئی کو حزب اختلاف کے بینچوں پر بیٹھ کر حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہیے پہلے بھی پی ٹی آئی کو اسمبلیوں سے استعفوں کے بعد کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ ملک کو بہت سے معاشی مسال درپیش ہیں بیروز گاری مہنگائی نے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں عوام پٹرلیم مصنوعات اور گیس کی بڑھتی ہوی قیمتوں سے تنگ ہیں ۔ ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے پی ٹی آئی کی قیادت کو جارحانہ سیاست ترک کرکے ایوان کے اندر رہ کر جدوجہد کرنی پڑے گی سینٹ میں دھاندلی کے خلاف پی ٹی آی اور جماعت اسلامی کا احتجاج ایک مثبت قدم ہے نی قام ہونے والی جمہوری حکومت کو مخالفین کی پکڑ دھکڑ بند کرنی ہوگی کیونکہ مثبت اختلاف جمہوری معاشرے کا حسن ہے۔ میثاق معیشت وقت کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے