کالم

جمہوری تماشہ

پاکستان تحریک انصاف پاکستان کی سابقہ حکمران جماعت ہے جس کی حکومت مرکز کے ساتھ ساتھ پنجاب ،خیبر پختونخواہ ، بلوچستان تک رہی ہے ۔صوبہ سندھ میں بھی ایک مضبوط جماعت کے طور پر ابھری تھی، اپنی مدت پوری نہ کرسکی اورایک رجیم چینج گیم کا شکار ہوئی جسے انتہائی ڈرامائی اندازسے اس طرح سے فلمایا گیا کہ جس کی گتھیاں اب تک سلجھ کر بھی سلجھ نہ سکی ہیں۔اب تک سمجھ نہیں پائے ہیں کہ اس میں کون ملوث تھااپنے یا بیگانے اور امریکہ اور ڈونلڈ لو کا اس میں کتنا کردار تھااور سائفر حقیقت دراصل کیا؟اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اس صورتحال کو بھانپ لیا اور وہ اوراُن کی حکومتی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ سائفر ملکی سلامتی کیلئے خطرہ اور ایک رجیم چینج گیم کا حصہ ہے ۔اسے کابینہ میں پیش کیاگیا ،اس پر بحث ہوئی او رمتفقہ فیصلے کے تحت قومی اسمبلی اجلاس بلا کر ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی اس بارے رولنگ کے بعد اسمبلی توڑ دی گئی ۔ہر طرف عمران خان کی جانب سے اسمبلی توڑنے کے کھڑاک کی بازگشت تھی او ربھارتی چینل اس پر تلملائے ہوئے حیران و پریشان تھے کہ یہ کیا ہوگیا ہے کہ اچانک رات گئے ملکی عدالتیں کھلیں او رفیصلہ واپس ہوا اور فیصلے میں کہاگیا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہوچکی تھی ،اسمبلی نہیں توڑی جا سکتی ،یوں عدالتی حکم پر تحریک عدم اعتماد ہوئی اور عمران خان تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں چلے گئے ۔شہباز گورنمنٹ آگئی او رسولہ ماہ رہی ، اس دوران جو جو کچھ اس ملک میں ہوا ، سب نے دیکھا ہے۔ پاکستانی تاریخ کی اسے بدترین حکومت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔یہ حکومت بھی غریب مارہی رہی، اشرافیہ کو نوازنے والی بنی اوراس حکومت میں سب سے بڑی کابینہ بنی جو اب تک کا ایک ریکارڈ ہے ۔ عمران خان اس حکومت کے خلاف احتجاج پر چلے گئے اور مینار پاکستان پر امریکہ کے خلاف ایبسلوٹلی ناٹ جلسہ کرکے مینار پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کرنے کا ریکارڈ بنا ڈالااور کاغذکاایک ٹکڑا لہرا کر بتایا کہ یہ تھا وہ سائفر جو آیا او ر مجھے بیدخل کردیاگیا ۔یہ معاملہ کیاتھا ؟کیسا تھا؟ کون جھوٹا کون سچا؟کبھی نہ کبھی تو عوام جان ہی جائیں گے مگر جو ہوا اچھا نہ تھا کہ ایک مضبوط اور مستحکم حکومت ختم کردی گئی جس کا سبب بقول پی ٹی آئی افراد سائفر اور رجیم چینج گیم پلان تھا مگر پاکستان کی سطح پر تحریک عدم اعتماد کا آنا اور کامیاب ہونا ہی حکومت کی رخصتی کا سبب بنا ۔پنجاب میں بھی حکومت بدل دی گئی ،حمزہ سرکار آگئی ، کیسے آئی،یہ ایک الگ کہانی آئی ،پھرکبھی سہی مگر پھر حمزہ سرکار کیسے گئی ، ایک دلچسپ کہانی ہے ۔ کالم کی طوالت کے باعث اس بحث میں نہیں پڑوں گا کہ کرشمہ سازوں نے کیا سے کیا کیا، کیسے کسی کو پنجاب میں لائے ، کیسے پٹخ ڈالا کہ دوبارہ سے حمزہ کے آنے کے خواب ادھورے ہی رہ گئے اور پرویز الٰہی دوبارہ سے وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے مگر عمران خان کے کہنے پر پنجاب حکومت ختم کرڈالی گئی پھر چند روز بعد خیبر پختونخواہ حکومت بھی چھوڑ دی گئی۔ نگران سیٹ اَپ بیٹھ گیا اور پھر کیا کیااس ملک کے ساتھ ہوا ،قوم نہیں بھولی۔ اس نگران دﺅر میں جس طرح آئین و قانون سے کھلواڑ ہوا اور اس کی دھجیاں بکھیری گئیں ، اس کی کسی اور ملک میں مثال نہیں ملتی ہے۔ الیکشن الیکشن اور الیکشن کے صرف گیت ہی چلائے گئے مگر کروائے نہیں گئے ،اگر کوئی موقع الیکشن کروانے کابنا بھی تو ادارو ں کی کیا صورتحال تھی ، کیسے کیسے عذر ،بہانے اور تاویلات گھڑی گئیں ،سب کے سامنے ہے۔پورے نگران سیٹ اَپ میں آئین و قانون کہیں نہ تھا اور پورا انتظامی و اداراتی ڈھانچہ ننگا ہوا پڑا تھا۔الیکشن کاغذوں میں تو تھے مگر خیالوں میں نہیں تھے ۔ انتہائی بے یقینی او رناامیدی میں 8فروری کو ہوئے او راس دوران جو جو کچھ پی ٹی آئی جماعت کے ساتھ ہوا، سب نے دیکھااور اب تک دیکھ رہے ہیں کہ 9مئی واقعہ کو بنیاد بناکر یا آڑ لے کر اب تک پی ٹی آئی کی مشکلات کم نہیں ہورہی ہیں۔اس کے بانی جیل میں ہیں اور 200کے قریب مقدمات کا شکار ہوئے ، اب تک جیل میں ہیں او ران کی بیگم بھی ان کے ساتھ مقدمات کا سامنا کررہی ہیں اور پی ٹی آئی قیادت پربھی مقدمات ہیں ۔ آٹھ فروری کے الیکشن سروے بتا رہے تھے کہ ہر طرف پی ٹی آئی کلین سویپ کررہی ہے پھر جو پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا، سب نے دیکھا کہ وفاداریاں تبدیل ہوئیں ،پریس کانفرنسوں کا دﺅر چلا ، جو بول گیا چھوٹ گیا، جو نہ کہہ سکا پکڑا گیا ۔ پوری پارٹی توڑ دی گئی ۔جو بطور پی ٹی آئی امیدوار رہے تھے ساتھ تڑوا دئیے گئے ، مشکلات اور تکلیفیں راستے میں کانٹوں کی طرح بچھا دی گئیں ، پرانے توڑ دئیے اور نئے جوڑنے نہیں دئیے ۔ ایک جہاز پارٹی بنائی گئی جس میں پرو دئیے گئے ۔ اس پارٹی کا جہاز اگر نہ گرتا تو ناجانے کتنے آزاد جیتے ہووﺅں پر اس کا نزلہ گرتا ۔ جہاز کے دریا برد ہونے سے بہت سے معصوم بقا ءپاگئے ۔ضلع قصور میں بھی ان کا ایک جہاز گر گیا اور بہت سے شریف ،نادار ، غریب فلاح پاگئے وگرنہ ناجانے کتنے مقدمے اب تک بھگتتے رہتے یا یوں سزاہی پاتے رہتے۔ پی ٹی آئی سے نشان بَلا محرومی کے بعد بطور آزاد امیدوار معاملہ بھی بڑا خراب تھا ۔ امیدواروں کو کاغذفائل نہیں کرنے دئیے جاتے تھے جو کہتا کہ امیدوار پی ٹی آئی اس کی توخیر ہی نہیں تھی ۔ پی ٹی آئی حکمت عملی تبدیل ہوئی ،ایک ایک سیٹ پر کئی افراد پلان 1,2,3سامنے آئے ۔ پی ٹی آئی نشان تو تھا نہیں ، پی ٹی آئی کا انتخاب بھی جرم بن گیا ۔ آزاد ،آزاد او رآزاد امیدوار مہم چلی ، بھر پور چلی ، انتہائی ہتک آمیز ،ذلت آمیز انتخابی نشانوں وکٹ ، ڈنڈا ڈوئی، بینگن وغیرہ کے ساتھ چلی ۔عجیب صورتحال تھی کہ ایک پینل کے بھی نشانات ایک جیسے نہ تھے ،کسی کو کچھ تو کسی کو کچھ نشان ملا۔ پی ٹی آئی کے لئے یہ انتہائی مشکل الیکشن تھا ،افراد موجود تھے مگر خود بطور جماعت بَلا نشان چھن جانے کے باعث انتخابی دوڑ سے باہر تھی ،کچھ تو رجیم چینج کھیل لے ڈوبا ، رہی سہی کسر نو مئی نزلہ لے ڈوبا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اب تک سائفر ،رجیم چینج اور نو مئی پر بہت سی حکومتی اور اداراتی وضاحتیں آگئی ہیں مگر اس کے حقائق کیا ہیں ،قوم تک نہیں پہنچے ہیں۔ یہ حقائق عوام تک نہ پہنچنے کی وجہ حکومتی کمزوری ، اداراتی سستی و کوتاہی یا دال میں کچھ نہیں بہت کچھ کالاہے۔ ہمارے ملک میں اسے المیہ کہیے یا بدقسمتی کہ یہاں پر پلک جھپکتے ہی کسی بھی نازک معاملے پر یہ تو بتا دیا جاتا ہے کہ یہ غلط ہے مگر صحیح معاملہ کیا ہے اس پر روشنی کم کم ہی پڑتی ہے۔حقائق ہمیشہ چھپے ہی رہے ہیں اور چھپے ہی رہتے ہیں ۔ کچھ بھی تو عوامی سطح پر ٹھیک سے سامنے آتا نہیں ہے۔ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن درست نہ کا جوازبنا کر عین الیکشن وقت نشان بَلا چھین لیا گیا اور اب سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دینے کی اپیل میں مال غنیمت صحیح حقداروں (پی ٹی آئی)تک پہنچانے کے معزز سپریم کورٹ کے معززجج صاحبان کے 8-5کے فرق سے دئیے گئے فیصلے کے بعد اب حکومت تلملائی سی صورتحال میں اپنی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کی غرض سے بہت دیر کئے ، اُسی پرانے سفر اور پرانی ڈگر پر چلتے عمران حکومت گرانے کے فیصلے میں اس وقت کے صدر مملکت، وزیر اعظم اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ ،آرٹیکل 6لگانے اور نومئی سانحہ جواز بنا کر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا سوچ رہی ہے۔پی ٹی آئی عین الیکشن وقت بَلا نشان چھن جانے کے بعد بھی زندہ ہے اور اب تو اپنا حق مخصوص نشستیں پاکر موجودہ حکومت کے کسی بھی طرح کے نامناسب اقدام سے بھی مرنے والی نہیں ہے ۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ پی ٹی آئی ختم ہو جائے گی یا ہم اسے ڈھا لیں گے یہ اس کی بھول ہے ۔آزماکر دیکھ لیں ۔ پی ڈی ایم بالخصوص ن لیگ کی قسمت میں مخصوص نشستیں نہیں ہیں۔ ابھی تو الیکشن ٹربیونل ہتھوڑا بھی چلنے والا ہے ۔قوی امکان ہے کہ سارے فیصلے بمطابق فارم 45ریورس ہوںگے ۔اگر ایسا ہوگیا تو پھرکیا بنے گا ۔ مخصوص نشستوں سے زیادہ سوچنے والی اہم با ت یہ ہے اور یہ وقت زیادہ دور نہیں ہے ،آیا ہی چاہتا ہے اور قوی امکان ہے کہ پھرتبدیلی کے وہ جکھڑ چلیں گے کہ جسے کوئی روک نہ سکے گااور اس سیلاب میں بہت سے خش و خاشاک کی طرح بہہ جائیںگے اور حال بے نورسے ہوئے ، بکھرے ہوئے پتنگوں کی طر ح جیسا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے