کراچی اور اسلام آباد کا فاصلہ کبھی کم نہ ہو سکا۔شاید ایسا کوئی چاہتا بھی نہ ہو۔اکثر سوچتا ہوں کہ اگر کراچی ہی دارالحکومت رہتا تو کیا حرج تھا۔پھر ستم ظریف کی خود ساختہ اورکم تعلیم یافتہ توضیح یاد آ جاتی ہے ،جس کے مطابق ساحلی شہروں میں مارشل لگانے مشکل ہو جاتے ہیں۔میں ستم ظریف کی بے تکی توضیحات کو اہمیت نہیں دیتالیکن ان دو شہروں کے مابین فاصلے میں کمی کے طریقوں پر غور کرتا رہتا ہوں۔قونیہ اور انقرہ کے مابین چلنے والی فاسٹ ٹرین کی طرح،یا جاپان اور چین میں چلنے والی بلٹ ٹرین کی مانند کوئی ریل گاڑی اسلام آباد اور کراچی کے درمیان چل پڑے ۔ ہوائی جہاز کے دو گھنٹے اپنی جگہ ،مگر اس میں لگتی ہے قیمت زیادہ۔یہ تو زمینی فاصلے کی بات تھی، اصل مسئلہ ذہنی فاصلوں کا ہے لیکن جیسے ہی یہ سنا کہ حضرت راحت سعید کراچی سے اسلام آباد چلے آئے ہیں تو طبیعت باغ باغ ہو گئی اور یوں لگا کہ کراچی شہر کی آزاد روی، روشن خیالی اور ترقی پسندی یکجا ہو کر اسلام آباد شہر کے وقار کو بڑھانے کےلئے یہاں چلی آئی ہے۔اگرچہ وہ اسلام آباد تو آتے ہی رہتے تھے ۔اکثر قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کےلئے، لیکن ان کا اسلام آباد میں سکونت پذیر ہونا اس لاتعلق شہر کےلئے ایک بڑی خوشخبری تھی۔میںنے انہیںاسلام آبادچلے آنے پر خوش آمدید کہا ۔ مسکرائے ، کہنے لگے کہ بھئی ہم تو ہمیشہ آپکے ساتھ اور پاس ہوتے ہیں ۔ یہاں میں اپنے بیٹے کے ہاں رہتا ہوں ۔ وہ پہلے کی نسبت کافی کمزور نظر آئے،کچھ تھکے تھکے سے بھی ، شاید صحت اچھی نہیں تھی لیکن ان کی برق رفتار نگاہ کا جلال اور ہونٹوں پر قیام پذیر ذومعنی مسکراہٹ کا جمال ہمیشہ کی طرح قائم و دائم تھا۔کہنے لگے کہ یہ شہر بہت بڑا اور پھیلا ہوا شہر تو نہیں ، لیکن دوست احباب کے مابین فاصلے زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔لوگ گھر سے نکلنے اور دوسروں سے ملنے سے گریز کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔نہ آتے ہیں ،نہ بلاتے ہیں ۔اب میں جواب میں کیا کہتا۔اس شہر میں میرا اپنا چلن بھی کچھ اسی طرح کا تھا ۔ میں نے کہا کہ حضور میں تو آپکے ہاں آو¿ں گا، لیکن پہلے آپ میرے ہاں تشریف لایئے ۔پوچھنے لگے کہ آپ کہاں رہتے ہیں؟ جب انہیں علم ہوا کہ میں سیکٹر ایچ ایٹ میں رہتا ہوں تو بڑے خوش ہوئے ،کہنے لگے یہاں پر تو دوست احباب آسانی سے آ جا سکتے ہیں ۔ آپکے ہاں محفل جمائی جا سکتی ہے۔میں نے کہا یہ تو میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہوگی ۔ کچھ دیر بعد پوچھنے لگے ارے بھائی تمہارے یہاں بیٹھ کر بے تکلفی کےساتھ بات چیت کر سکتے ہیں، کھا پی سکتے ہیں؟ وہ ایک مدھم مسکراہٹ کے ساتھ براہ راست میری آنکھوں میں دیکھ رہے تھے، میں نے اکثر محسوس کیا ہے کہ ؛ بعض معاملات میں آنکھوں کی فراست دماغ سے زیادہ اور بہتر ہوتی ہے ۔ میں چپ رہا ،کیا کہوں دماغ کا سانس درست کر کے عرض کیا کہ حضور کھانا ضرورت اور پینا توفیق سے تعلق رکھتا ہے ۔آپ تشریف لائیں گے تو محفل خودبخود آباد ہو جائے گی ۔ قہقہہ لگا کر کہنے لگے کہ ہاں ہاں مگر پہلے آپ ہمارے ہاں آئیں ، پھر ہم آئیں گے۔ہماری جگہ دور ہے ، پر پابندیوں سے آزاد ہے۔ میں نے گزارش کی کہ حضور چک شہزاد کچھ زیادہ دور بھی نہیں ہے ،اور پھر زمینی فاصلے ذہنی قربت میں کہاں حائل ہو سکتے ہیں۔ یہاں چک شہزاد سے متصل سوسائٹی میں انکے صاحبزادے مکان کی بالائی منزل پر رہتے تھے۔مجھے یاد ہے اس مکان کی بالائی منزل پر ان کے ڈرائینگ روم بیٹھے تھے، باتوں باتوں میں پروفیسر قاضی عبدالرحمن عابد کا ذکر بڑی محبت سے کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ان کے ملاقات ہوئے دیر ہوگئی ،کیا حال ہے ان کا ، ذرا ملائیں ٹیلی فون ، ان سے بات کرتے ہیں؟ ایک اذیت ناک لمحہ سامنا آن کھڑا ہوا، دراصل وہ پروفیسر قاضی عابد کی وفات سے لاعلم تھے ۔ وہ میرے ہاتھ میں پکڑے فون کو دیکھتے ہوئے بولے ملائیے فون پوچھیں تو سہی کہ وہ پروگرام کیا ہوئے جن کی منصوبہ بندی ہم نے کر رکھی ہے۔میں نے شکستہ دل کےساتھ انہیں بتایا کہ قاضی عابد وفات پا گئے ہیں۔ ارے نہیں ۔وہ تقریبا اپنے صوفے سے اچھل پڑے۔کیا بات کر رہے ہیں؟ کیسے ؟ کیا ہوا؟ پھر میں نے ایک نہایت مضبوط اعصاب کے مالک دانشور کو گریہ کرتے دیکھا ۔ہائے ہائے ہائے ۔ قاضی چلا گیا، کیسے مان لوں۔وہ ہچکیاں لے لے کر رو رہے تھے، اس وقت کمرے کی ہر شے اشکبار اور گریہ کناں تھی۔حضرت راحت سعید کمال درجے کی حکمت عملی ترتیب دینے کے ماہر تھے۔ اب سال تو یاد نہیں ،یہاں اسلام آباد میں اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام ادیبوں کی ایک قومی کانفرنس ہو رہی تھی۔دیگر کے علاوہ ملک بھر سے نمائندہ ترقی پسند دانشور اور اُدباءتشریف لائے ہوئے تھے ۔ اس کانفرنس کے دو سیشن علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں بھی تھے۔ اسلام آباد کے ترقی پسند دوستوں نے کانفرنس کے سیشن کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین کا قومی اجلاس منعقد کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا ۔ کانفرنس کا سیشن مکمل ہوا ، باہر شرکا چائے وغیرہ پی رہے تھے تو دیکھا کہ اچھے لوگوں کا ہجوم چائے پینے کی بجائے گفتگو میں مصروف ہے ۔ مسئلہ یہ پیدا ہو گیا تھا کہ جس کسی نے بھی اجلاس کےلئے کمیٹی روم دینےکا وعدہ کر رکھا تھا ، اس نے سرخوںکو جگہ دینے سے انکار کر دیا تھا ۔ اب بات چل رہی تھی کہ کیا کیا جائے۔ اچانک راحت سعید صاحب نے پوچھا کہ ڈاکٹر کامران آپ کے آفس میں میٹنگ ہو سکتی ہے؟ مجھے بات سمجھنے میں چند لمحے لگے،پھر جواب دیا جی کیوں نہیں ،اگر سب اس میں پورے آ سکیں تو بسم اللہ ۔ پوچھنے لگے کہ آپ کےلئے کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا؟ جی میرے ساتھ مسئلہ نہیں ہو سکتا ۔تو پھر ٹھیک ہے انہوں نے میرے آفس کا بلاک نمبر اور کمرہ نمبر پوچھا ۔ پھر سب کو متوجہ اور مخاطب کر کے حکم جاری کیا کہ حضرات! ہماری میٹنگ بلاک آٹھ کے کمرہ نمبر ٹرپل ون میں ہو گی۔کامران صاحب کے آفس میں ۔ کچھ ہی دیر کے بعد میرا آفس واقعتا کچھا کچ بھرا ہوا تھا۔ ہر کامریڈ بجائے خود ایک ہجوم سے کم نہیں ہوتا ۔ کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کوئی کہاں بیٹھا یا کدھر کھڑا ہوا ہے۔ اجلاس شروع اور ختم ہوا ،یہاں طبقاتی تقسیم تو نہیں تھی، لیکن ایجنڈا اور گفتگو سراسر جدلیاتی معلوم ہو رہی تھی۔ حضرت راحت سعید باہم متحارب دوستوں کے بیچ ایسا احسن راستہ نکالتے کہ پھر جس پر دونوں فریق خوشی خوشی چلنا شروع کر دیتے۔اجلاس کے بعد وہ بہت پرجوش اور خوش تھے ۔میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے کہ کامران اجلاس ہو گیا ۔میں حسب عادت کہا کہ حضور زندہ باد ہوگیا۔اسی طرح اسلام آباد میں حضرت امداد آکاش اور دیگر دوستوں کی توجہ اور حضرت راحت سعید کی قیادت میں ترقی پسند ادیبوں کی بین الاقوامی کانفرنس ہو رہی تھی ۔وسائل کم اور مسائل زیادہ تھے ۔اس کانفرنس کا بطریق احسن انعقاد حضرت راحت سعید کی انتظامی صلاحیتوں کا مرہون منت تھا۔غیر ملکی ادیبوں کے طعام و قیام سے لیکر ٹرانسپورٹیشن تک کا بندوبست انہوں نے بڑی حکمت عملی سے کیا تھا۔حسن انتظام اور کمال اہتمام کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے راولپنڈی اسلام آباد میں مقیم دوستوں سے پوچھ لیا کہ کون کون اپنی گاڑی میں آئے گا اور اس کی گاڑی میں بیٹھنے کی گنجائش کتنی ہے۔یوں انہوں نے مندوبین اور شرکا کی کانفرنس آڈیٹوریم اور ہوٹل کے درمیان آمدورفت کو مختلف دوستوں میں تقسیم کر دیا تھا ۔ سیشنز کے دوران چائے اور کھانے وغیرہ کےلئے بھی اسی طرح کے انتظامات موجود تھے۔جب تک کانفرنس جاری رہی اور غیر ملکی مہمان اسلام آباد میں موجود رہے ، حضرت راحت سعید نے آنکھ نہیں جھپکی،ان کی رحلت کی اندوہناک خبر سن کر سوچ رہا ہوں کہ چاہنے والوں کے ہجوم وہ کیسے اپنی آنکھیں بند کر سکتے ہیں؟یہ کس طرح ممکن ہے کہ خوابوں کی تعبیر ابھی باقی ہو اور آنکھوں کا دیا بجھ جائے ۔ آہ حضرت راحت سعید بھی رخصت ہوئے، گویا پرخلوص ترقی پسندی اور بے ریا روشن خیالی کا ایک عہد تمام ہوا۔کیسے شفیق اور صاف دل دانشور تھے۔بہت تھوڑا عرصہ اسلام آباد میں بھی رہے، بے رخی کے استعارے اس شہر کےلئے یہ بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔لیکن اس شہر کی تنہائی انہیں اداس رکھتی تھی۔ آہ کتنا بڑا آدمی علم و شعور کا ایک بڑا ذخیرہ لئے رخصت ہو گیا اور ترقی پسندی کی تاریخ کا ایک روشن باب پیچھے چھوڑ گیا۔ حضرت راحت سعید صاحب اگلی دنیا میں یقینی طور پر تنہائی اور اداسی نہیں ہوتی ہو گی، وہاں پر رنگا رنگ بزم آرائیاں آپ کی منتظر ہوں گی۔دکھی دل کے ساتھ الوداع کہتے ہوئے خیال آتا ہے کہ یہ دوسرا جہان بہت دور بہت ہی دور سہی ،پر کیا پتہ کہ وہ جگہ دکھ ، درد ، ظلم ، ناانصافی ، طبقاتی تفاوت، شعوری حماقتوں اور پابندیوں سے آزاد ہو ؟