کالم

جھوٹ سے فیک نیوز اور پیکا ایکٹ تک

” جھوٹ بولنے کے بعد انسان کو اچھے حافظے کی ضرورت ہوتی ہے "کوئی کتنا ہی شاطر ، چالاک اور ذہین عام شہری ہو یا مقبول راہنماحافطہ جواب دے ہی جاتا ہے جس سے جھوٹ کا عیاں ہونا ناگزیر،جھوٹ سے متعلق بارے ایک اور معروف قول کہ "جھوٹ گھڑا جاتا ہے اور سچ موجود ہوتا ہے * جھوٹ گھڑنا تو اب باقاعدہ صنعت، ذریعہ روزگار اور مقبولیت کےلئے معیار۔اب جھوٹ پہ ڈٹ جانے کو حریت کا استعارہ سمجھا جانے لگا ہے۔زیادہ دور نہ جائیں چار، پانچ دہائیاں قبل تک بامر مجبوری بھی جھوٹ بولنا مشکل، زبان لڑکھڑاتی تھی اور ضمیر کچوکے مارتا تھامگر وقت کے ساتھ اقدار و روایات بدلیں زندگیوں جدت آئی تو جھوٹ میں بھی۔یہ بھی درست کہ اس نے مقبولیت سیاست دانوں سے ہی پائی۔کہا جاتا ہے کہ کورٹ کچہری اور شعبہ سیاست میں اس کی پذیرائی ہے تو شعبہ صحافت والوں نے بھی اس سے حق دوستی خوب نبھائی ۔ اگرچہ پرنٹ و الیکٹرک میڈیا میں اخلاق و ضوابط پر بہت حد تک عمل ہوتا ہی ہے مگر سوشل میڈیا تمام اخلاقی حدود سے آزاد۔آزادی اظہار ضروری مگر آداب کے دائرے اور حدود کے اندر۔یہ درست کہ نام نہاد شعور نے جھوٹ کو آرٹ کا درجہ دیا اسی لیے اب سچ روزے سے ہے ۔ پہلے پہل جھوٹ کی تباہ کاریاں فرد و افراد تک ہی محدود رہتیں مگر سوشل میڈیا کی بے لگام آزادی نے اسے معاشروں کےلئے تباہ کن بنا دیا ۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ سوشل میڈیا کی آمد اور آزادی سے قبل فتنہ گری اور انتشار اس حد تک نہ تھا۔بیشمار امثال میں سے دو پیش، فیک نیوز نے ایک رنگ لاہور کے پرائیوٹ تعلیمی ادارے میں زیادتی کی من گھڑت کہانی کی صورت میں دکھایا کہ جس نے کئی شہروں کو لپیٹ میں لیا، کروڑوں کی املاک کا نقصان ایک طرف اور پرتشدد مظاہروں پر گرفتاریاں جبکہ نفرت کا الا الگ.وقوعہ کی رپٹ، راوی، شاہد، گواہ نہ مدعی، دوسرا ڈی چوک میں لاشوں کے پشتے، کسی نے اسے سینکڑوں کہا تو کوئی 400 سے کم کسی طور راضی نہ تھا۔کسی نے تو آنکھوں دیکھے احوال سنائے تو 270عدد . تو کوئی ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر 300پہ ڈٹ گیا 20پر اگر کسی کو اطمینان ہوا تو اتفاق رائے 12پر۔مگر آج تک نہ رپٹ نہ پوسٹ مارٹم، دو ماہ گزرنے کے بعد کسی والی وارث کو پیش نہ کر کے مقتولین (اگر ہیں تو)کے ساتھ ظلم الگ، کہ ان کی داد رسی ہو سکتی۔مزے کی بات کہ یہ سب اعداد و شمار کسی جاہل، ان پڑھ یا عامی کے نہ تھے، پوری جرات اور سچائی بیان کرنےوالے نامور قانون دان تھے تو کچھ صف اول کے سیاستدان اور بانی الگ ۔ ان حالات میں صحافیوں کی تیسری جنس کیسے پیچھے رہتی، کچھ مردہ ضمیروں نے تو مردہ خانوں کے احوال بین کر کر کے بیان کئے۔یو ٹیوبرز کی صنف کو مرحومین میں سے کسی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ نہ ملی تو انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا پوسٹ مارٹم کر کے بھڑاس نکالی۔سوشل میڈیا پر متحرک رہنے والوں کو تسلی نہ ملی تو غزہ اور شام کے مناظر بطور ثبوت پیش ہوئے عین ممکن تھا کہ بعض اینکرز عالم برزخ سے شہدا کی براہ راست بات چیت نشر کا اہتمام کرتے مگر بھلا ہو سیٹلائٹس کا، کہ انکی وہاں رسائی ممکن نہ تھی۔غرض ہر سو جھوٹ کا طوفان، گرد چھٹنے پر بھی مجال کہ بیان کرنےوالے کسی چہرے پر کوئی ملال ہو اور اسے سچ جان کر ابلاغ کرنےوالوں کو کوئی شرمندگی۔یہ دونوں خصوصیات تو ویسے بھی اب رخصت پر ہیں ۔ حقیقت تو یہ کہ سیاستدانوں نے اگر سچ کو طلاق دے رکھی ہے تو شعبہ صحافت بھی اس باب میں زوال کا شکار۔صحافت کی تیسری جنس کا وبال اب حقیقی غیر جانبدار اور صاف ستھری صحافت کرنےوالوں پر ان پڑا۔ان کی فتنہ گریوں کی زد میں آج پورا صحافتی شعبہ پیکا ایکٹ کے نفاذ کی صورت میںاب یہ اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ لاگو ہونے کو تیار۔سوشل میڈیا والوں نے تو یہ جانا کہ جس طرح سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کئے بغیر شعبہ انصاف نہیں چلتا۔ اسی طرح بیشتر یو ٹیوبرز کی روزی بھی اسی سے جڑی ہے ۔ ایسے ایسے عنوانات قائم کرتے ہیں کہ عامل نجومی اور پامسٹ بھی زچ دکھائی دینے لگتے ہیں۔اسی طرح ہماری سیاست کا بھی جھوٹ کے بغیر چلنا بھی ناممکن۔ایک نے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ فروخت کیا تو دوسری جماعت نے پہلے قرض اتارو ملک سنوارو کا چکمہ دیا۔پھر موقع ملنے پر پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے چل نکلے ۔ 2018ءمیں تیسری مقبول جماعت کی جانب سے50لاکھ گھروں کی تعمیر اور ایک کروڑ نوکریوں کا غلغلہ رہا، مگر افسوس کہ ہر جماعت کے باشعور کارکنان کے اذہان سیاسی غلامی میں اتنے مقید کہ انہوں نے کبھی اپنی جماعت کی نااہلیوں اور جھوٹے وعدوں پر قیادت سے باز پرس کی، زندہ باد کے نعروں سے توبہ کی اور نہ کارکنان کا اجتماعی شعور کبھی بیدار ہوا ۔یہی تو وجہ ہے کہ آئے روز پارلیمنٹ میں سچ کی درگت بنتی ہے، اسی طرح تجارتی معاملات میں سچ کی مٹی پلید ہونا معمولی بات اور اسے کاروبار کا حصہ جان کر قبول کیا جاتاہے۔ذاتی زندگیوں سے لیکر قومی معاملات میں جھوٹ کا راج ہو تو پھر برکات کیسی۔قلب و روح میں بےاطمینانی اور جان و مال میں بے برکتی بے وجہ نہیں۔ فیک نیوز جھوٹ کے ابلاغ کا نکتہ عروج ہے جس کے بعد انتشار و فتنہ گری اور فتنہ قتل سے شدید تر۔ میری نظر میں اس ضمن میں میڈیا تنظیموں کی اپنے فرائض سے کوہتائی پیکا ایکٹ کے نفاذ کا سبب بنی۔یہ حقیقت تسلیم کرنے سے ہم کیوں گریزاں کہ بحیثیت قوم ہم اپنی اخلاقی اقدار کی حفاظت میں ناکام ہیں ۔ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ ترقی، ذہنی و قلبی سکون کا دروازہ اقدار پر عمل سے ہی کھلتا ہے۔جھوٹ اور بددیانتی کی نحوست نے نہ صرف ہمارے قلوب و اذہان کو منتشر بلکہ معاشرے کو بھی پراگندا کر رکھا ہے ۔ اجتماعی توبہ وقت کی ضرورت اور اگر قومی رہنما اس میں پہل کریں تو پیکا ایکٹ بھی واپس ہو سکتا ہے اور قومی زوال سے نکلنا بھی ممکن، وگرنہ یہ احتجاج اور شور شرابہ لا حاصل۔آپ سوچیے اور میں بھی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے