کالم

جہاں فن کی صدا ہو، وہاں دلوں کے در وا ہوتے ہیں

فن صرف ایک اظہار کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک روحانی تجربہ ہے۔یہ انسان کے دل میں چھپے جذبات کو آواز دیتا ہے اور ایسی سرحدیں مٹاتا ہے جو قوموں، مذاہب یا رنگ و نسل کے نام پر قائم کی گئی ہوں۔ سچا فنکار وہی ہوتا ہے جو دلوں کو جوڑتا ہے، محبتیں بانٹتا ہے، اور انسانیت کا پرچم بلند رکھتا ہے۔ وہ کسی سرحد، ویزے یا پاسپورٹ کا محتاج نہیں ہوتا، اس کی آواز براہِ راست دل پر اثر کرتی ہے۔ایسا ہی ایک جگمگاتا چراغ حال ہی میں آسٹریلیا کے شہر میلبورن کے فیڈریشن اسکوائر پر روشن ہوا، جب پاکستان کے نامور قوال اور صدارتی ایوارڈ یافتہ فنکار شیر میاں داد نے قوالی کی روح پرور محفل سے نہ صرف پاکستانی کمیونٹی بلکہ دنیا بھر سے آئے ہوئے مختلف مذاہب و ثقافتوں کے افراد کو جھومنے پر مجبور کر دیا۔ فیڈریشن اسکوائر "اللہ ہو اللہ ہو” اور "تو کجا من کجا” کی صداں سے گونج اٹھا، وہ لمحہ ایک عالمی روحانی ہم آہنگی کا پیغام بن گیا۔سرد رات، کھلا آسمان، اور ہزاروں سامعین۔ جب شیر میاں داد نے قوالی چھیڑی، تو یوں محسوس ہوا جیسے وقت تھم سا گیا ہو۔ ان کی آواز صرف نغمہ نہیں تھی، بلکہ صوفی ازم کا وہ بہتا دریا تھی جس میں ہر دل نہا رہا تھا۔ وہ روح کو جھنجھوڑنے والا سوز، وہ وجد انگیز کیفیت یہ سب کچھ صرف ایک فنکار کے سروں سے ممکن تھا، جو قوالی کو محض فن نہیں بلکہ عبادت سمجھتا ہے۔شیر میاں داد کا تعلق برصغیر کے اس عظیم قوالی گھرانے سے ہے جس کی جڑیں امیر خسرو، بلھے شاہ، اور سچل سرمست جیسے صوفی شعرا سے جڑی ہیں۔ ان کے فن نے پاکستان کی سرزمین سے نکل کر دنیا بھر میں روحانیت کے چراغ روشن کیے۔ سوئٹزرلینڈ سے لے کر کوپن ہیگن یونیورسٹی تک، وہ صرف قوال نہیں بلکہ ایک استاد بھی رہے، جو قوالی کو اگلی نسلوں تک علم و محبت کے ساتھ منتقل کر رہے ہیں۔میں نے شیر میاں داد کو پہلی بار قریب سے اس وقت جانا جب میں روزنامہ پاکستان میں خدمات انجام دے رہا تھا اور شیر میاں داد بھی بلندیوں کی طرف محو سفر تھا۔ انہی دنوں میرے بھائی کی شادی تھی۔ جب ان سے محفل موسیقی کی بات کی تو انہوں نے خلوص سے کہا:قوالی ہو گی، اور میں خود آؤں گا۔اور پھر سبز زار، فارسٹ کالونی، راوی روڈ میں جو محفلِ سماع سجی، وہ صرف ایک شادی نہیں رہی، بلکہ ایک وجد آفریں روحانی لمحہ بن گیا۔ جب انہوں نے "دم مست قلندر مست” چھیڑا تو ایسا لگا جیسے ہر دل دھڑکنے کے بجائے جھوم رہا ہو۔ آج بھی وہ لمحے میرے حافظے میں ایک روشن چراغ کی مانند محفوظ ہیں۔وقت کا پہیہ گھومتا رہا۔ میں لاہور سے اسلام آباد منتقل ہو گیا، اور زندگی کے مصروف دھارے میں رابطہ دھندلا گیا۔ لیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ تقریبا 28 سال بعد، ہم آسٹریلیا کی سرزمین پر ایک بار پھر ملے۔ صوفی نائٹ کی اس محفل میں، فیڈریشن اسکوائر میں اس سے ملاقات ہوئی ۔ دنیا کے رنگ، وقت کا سفر، لیکن شیر میاں داد ویسا ہی تھا سادہ اور محبت سے بھرپور۔مختصر ملاقات میں پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ ان کی آنکھوں میں وہی چمک، لبوں پر وہی عاجزی۔ میں نے ان سے بس اتنا کہا:”شیر میاں داد، تم نے فن کو نبھایا بھی، سنوارا بھی، اور اسے انسانوں کے درمیان ایک پل بنایا۔ بس ایک بات یاد رکھنا، عروج کو سنبھال کر رکھنا، کیونکہ غرور اللہ کو پسند نہیں۔” واقعی، فنکار وہی ہوتا ہے جو شہرت کے باوجود انسانیت کا دامن نہ چھوڑے۔ شیر میاں داد اسی قبیلے سے ہے، جس کے فن میں عشقِ الہی ہے، پنجتن پاک سے عقیدت ہے، اور دلوں میں عاجزی ہے۔ وہ جہاں جاتا ہے، اپنے کلام سے عشق، امن، اور روحانی سکون بانٹتا ہے۔آج جب دنیا نفرت، تعصب اور نسل پرستی کی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے، ایسے فنکار امید کی آخری کرن بن کر سامنے آتے ہیں۔ وہ سفارتی نمائندے نہیں، لیکن ان کی آواز وہاں تک پہنچتی ہے جہاں حکومتوں کی رسائی نہیں ہوتی۔ وہ سچے سفیر ہوتے ہیںمحبت، امن اور ہم آہنگی کے۔شیر میاں داد، تم جہاں بھی رہو، سلامت رہو۔ تمہاری آواز میں جو عشق ہے، جو سوز ہے، وہ ہماری روحوں کا حصہ بن چکا ہے۔ تم نے ہمیں یاد دلایا کہ جہاں فن کی صدا ہو، وہاں دلوں کے در خود بخود وا ہو جاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے