معاشی مشکلات اورمعاشرتی نمود و نمائش کے ساتھ جہیزکے بڑھتے رجحانات کے سبب پاکستان میں کروڑوں بچیاں شادی کے انتظارمیں بوڑھی ہورہی ہیں،گزشتہ سال اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں پاکستان میں35سال سے بڑی عمرکی غیرشادی شدہ خواتین کی تعدادایک کروڑسے زائدبتائی گئی تھی جبکہ حقیقت میں یہ تعدادکہیں زیادہ ہے ۔ جہیز اور نمائش ہمارے معاشرے کےلئے سنگین مسائل بن چکے ہیں، اجتماعی طور پر ان کے خلاف شعور بیداری،اسلامی تعلیمات پر عمل،سادگی کے ساتھ نکاح،صاحب ثروت خاندانوں کوعدم نمائش کاپابندبنانے کے ساتھ جہیز کیخلاف سخت قانون سازی کی جائے توان مسائل کاآسان اورپائیدارحل ممکن ہے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی قومی اسمبلی میں رکن شرمیلا فاروقی نے قومی اسمبلی میں جہیزکی ممانعت کا بل پیش کیاہے جس کا نام اسلام آ باد دار الحکومتی علاقہ جہیز کی ممانعت کا بل 2025 ءبتایاگیا ہے،بل کے متن میں جہیز لینا، جہیزکے لین دین میں کسی قسم کی معاو نت،حوصلہ افزا ئی یا اس کیلئے معاہدہ کرنا جرم قراردیاگیاہے، جہیزکی ممانعت کا بل قائمہ کمیٹی کو مزید غور کیلئے بھیج دیاگیاجسے قا ئمہ کمیٹی کی منظوری کے بعدایوان میں پیش کیا جا ئے گا،بل کا اطلاق اسلام آباد کی حدود میں ہوگا۔نفاذ پرکم ازکم 5سال قید بمعہ کم از کم اڑھائی لاکھ یا پھر جہیز کی مالیت کے برابر جرمانہ کا مستوجب ہوگا، بل کے مطابق جہیز سے مراد شادی کے سلسلے میں دلہن کو اس کے والدین کی جانب سے با لواسطہ یا براہ راست کسی رقم یا کسی دیگر املاک کا انتقال ہے ،وہ جا ئیداد شامل نہیں جو وراثت اور جانشینی سے متعلق قوانین کے دلہن پر قابل اطلاق ہونے کے باعث اسے ورا ثت کے طور پر دی جا ئے،بل کے نفاذ کی صورت میں کوئی شخص جہیز کے لینے دینے میں مدد کرتا ہے یا لیتا ہے یا اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے یا اس کیلئے کوئی معاہدہ کرتا ہے تو وہ کم ازکم پانچ سال قید بمع جرمانہ جو کم از کم اڑھائی لاکھ یا پھر جہیز کی مالیت کے برابر ہو سکتا ہے۔دولہا اور دلہن کو دیئے گئے تحائف پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوگا،واسطہ یا بالواسطہ جہیز کا مطالبہ کرنے پر کم سے کم دو سال کی سزا کم سے کم اڑھائی لاکھ روپے کا جرمانہ عائد ہو گا،عدالت مخصوص وجوہات پر سزا ایک سال سے کم کر کے آٹھ ماہ تک سنا سکتی ہے، جہیز کے حوالے سے اشتہارات پر بھی پابندی عائد ہوگی، کوئی رشتے کے لیے جائیداد یا کسی کاروبار کی پیش کش کرتا ہے تو وہ سزا کا مستحق ہوگا،سزا کی مدت دو سال جبکہ ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی ہو سکتا ہے،ایکٹ کے تحت یہ جرائم ناقابل ضمانت، ناقابل راضی نامہ ہوں گے ۔ جہیزکے لین دین کیخلاف بل قابل تحسین ہے پربل کا اطلاق صرف اسلام آباد کی حدود تک محدودرکھنے کی بجائے پورے پاکستان میں نافذکیاجاناچاہیے،امیدکرتے ہیں کہ ایوان جہیزممانعت بل صرف اسلام آبادکی حدتک نہیںبلکہ پورے پاکستان کیلئے منظورکرے گا،اس بل کے ذریعے جہیزممانعت کے ساتھ نمائش کیخلاف سخت قانون سازی اورنکاح کی تقریب کوسادہ ترین بنانے پربھی زور دیا جانا چاہیے۔یہ توہم سب جانتے ہیں کہ والدین کی طرف سے بیٹی کے نکاح کے موقع پردئیے جانے والے تحائف کو جہیز کہا جاتا ہے ، والدین اپنی حیثیت کے مطابق اپنی خوشی سے جوبھی تحفہ دیناچاہیں اس میں نہ توکوئی ممانعت ہونی چاہیے اورنہ ہی یہ برائی ہے،جہیزبرائی تب بنتاہے جب امیرخاندان اپنی بیٹی کے جہیزکے سامان کی نمائش کرکے غریب کی بیٹی کے نکاح کومشکل بنادیتے ہیں،جب لڑکے والے بیٹی کے والدین سے جہیزکامطالبہ کرتے ہیں،مطالبہ چاہے ایک روپے مالیت کاہویاایک ارب روپے مالیت کی چیزیانقدرقم کاہوانتہائی گھٹیااوربے شرمی کامظاہرہ سمجھاجاناچاہیے اورجہیزکامطالبہ کرنے والوں کیخلاف سخت ترین قانون سازی کی جانی چاہیے جس پرسختی کے ساتھ عمل درآمدبھی کیاجاناچاہیے ،جہیزکی ممانعت کیلئے حکومتی اقدامات کے ساتھ عوامی سطح پرآگاہی کی بھی ضرورت ہے۔ مسلم معاشرے میںنکاح ایک مقدس رشتہ ہے جسے اسلام نہایت سادگی اور آسانی کے ساتھ انجام دینے کادرس دیتا ہے، نکاح کا بنیادی مقصد دو انسانوں کے درمیان محبت، سکون، اور ہم آہنگی پیدا کرنا ہے،دین اسلام میں سب سے بابرکت نکاح اسے قرار دیا گیا ہے جس کے اخراجات انتہائی قلیل رکھے جائیں، دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں کم خرچ اور انتہائی سادگی کے ساتھ انجام پانے والے نکاح کو پسندیدہ اور بابرکت قرار دیا گیا ہے ،نبی کریم ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کی سادگی سے شادی عظیم مثال ہے، حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کے نکاح سے پہلے نئے جوڑے کی ضروریات زندگی کا سامان حضرت علیؓ کی زرہ بیچ کر خریدا گیا جوکہ نہایت ہی مختصر اشیاءپر مشتمل تھا۔اسلامی تعلیمات کاعملی نمونہ اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے ؟افسوس صدافسوس کہ مسلم معاشرے نے نکاح جیسی انتہائی اہم تقریب کو بھی دنیاوی نمائش کانمونہ بنا دیا ہے،قرآن و حدیث میں واضح حکم دیا گیا ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے بالغ ہوتے ہی انہیں سادگی سے نکاح کے بندھن میں باندھ دیا جائے تاکہ وہ حلال رشتے میں بندھ کر پاکیزہ اور صحت مند زندگی گزار سکیں اور گناہوں سے بچے رہیں،دین اسلام نے جس رشتے کی بنیادپاکیزگی رکھی تھی مسلمانوں نے جہیزاوردیگررسم ورواج کاپابندبناکراس قدرپیچیدہ بنادیاہے کہ اکثرغریب خاندانوں کی بچیوں کو جہیزکی چیزیں پوری کرنے کی غرض سے جسم فروشی جیسی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے ، کیاایسے معاشرے کواسلامی معاشرہ کہلانے کاحق حاصل ہوناچاہیے جہاں جہیزکاسامان پورا کرتے کرتے نکاح کی عمر گزرنے کے ساتھ پاک دامنی بھی کہیں ماضی میں گم ہوجائے،جہاںجہیزنہ لانے یاکم لانے پربیٹیوں پرتشددکے واقعات عام ہوں ، بہو ، بیٹیوں کوزندہ جلادیاجائے ؟رکن قومی اسمبلی محترمہ شرمیلا فاروقی کی جانب سے پیش کیاجانے والاجہیزممانعت بل انتہائی اہم اور سنجیدہ معاملے کی طرف توجہ دلانے کیلئے کافی ہے جسکی جتنی حوصلہ افزائی کی جائے کم ہے !