76 سالوں سںے ہماری کشتی ہچکولے کھا رہی ہے۔ 14 اگست کا دن ایا بگل بجا کر گزار دیا۔ آبادی اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ مہنگائی کا طوفان روکنے کا نام نہیں لے رہا۔۔کہا جاتا ہےاگر وزیر خزانہ ڈار صاحب کو وزیراعظم بنا دیا جاتا تو کم از کم اتنی جلدی پٹرول کی قیمت میں اتنا زیادہ اضافہ نہ ہوتا۔ایسا سب کچھ ڈار صاحب کیا دھرا ہے۔ جب کہ پڑوسی ملک افغانستان نے اسی ہفتہ پٹرول کی قیمت میں کمی کر چکا ہے۔ جب کہ یہاں پٹرول کی قیمت بلند ترین سطح پر ہے۔عوام کے غصے اور غربت کی پرواہ کسی کو نہیں جبکہ ملکی حالات روانڈا جیسے ہو چکے ہیں۔ الیکشن جلدی کرانے اور مہنگائی کو روکنے کے موڈ میں کوئی دکھائی نہیں دے رہا۔جس سے افراتفری پھیلنے کا امکان ہے۔مہنگائی سے ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ بھی ہے۔ نگران وزیراعظم پٹرول کی قیمت میں اضافہ کر کے پچھلی حکومت کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں کابینہ بھی شیروانی والی نہیں بوٹوں والے آئی ہے دوسری طرف ڈالر کی پرواز بھی بہت تیزی سے اوپر جا رہی ہے۔ ابھی ملک کی اسمبلی کی مدت پوری ہونے پر ایک نگران وزیراعظم کو رکھا جانا تھا۔ جس پر ہر کوئی اندازے لگا رہا تھا کہ فلاں شخص آ? گا ایسا ہی حال نگران کابینہ کا ہوا۔جو نام میڈیا پر سنائی دے رہے تھے کابینہ اس کے برعکس بنی۔وزیر قانون نوجوان احمد عرفان اسلم کو بنایا گیا ہے۔ بہت اچھا محنتی نوجوان ہے۔بس یہی ادا ان کی اچھی لگی۔۔سچ تو یہ ہے کہ ہر ایک کے تبصرے اندازے غلط ثابت ہو?۔ شیروانیاں پہنتے والے دیکھتے ہی رہ گ? اور بازی بوٹوں اور سنیکر والے لے گئے۔بابا کرمو نے کہا یہ اپنا اور ہم سب کا خیال رکھتے ہیں۔ہمیں بھی چاہیے ان کا خیال رکھیں۔اب ایسا یہ خیال انہیں بھی عوام کا رکھنا ہو گا۔یہ ہمیشہ سے اپنی مرضی پسند کا بندہ لاتے ہیں عوام کو اور سیاسی پارٹیوں کو تکلیف نہیں دیتے۔سب کا خیال رکھتے ہیں۔اگر یہ زمہ داری ساری سنبھال لیں تو کیا ہی اچھا ہو۔۔امید ہے ایک نیا شعبہ بنا کر ملک سے الیکشن کا خاتمہ کر دیں گے۔کہا جاتا ہے ایسا کرنے سے اربوں روپے کی بچت ہوسکتی ہے۔ الیکشن اور سلیکشن کا تعلق بانس اور بانسری جیسا ہے۔نہ بانس ہو گا اور نہ بانسری بجے گی۔سیاسی جماعتوں کی ضروت نہیں رہے گی۔ قوم پر یہ بوجھ ہیں۔جیسے نگران وزیراعظم اور نگرانکابینہ لاءگئی ایسے ہی چار سالہ حکومت بنا لی جا?۔اسمبلیوں کی ضرورت نہیں۔ نیا قانون بنانے کی ضرورت نہیں اس لیے اسمبلیوں کی قوم کو اداروں کو ضرورت نہیں۔ اس بچت سے پٹرول بجلی آٹا چینی سستی کر دی جائے تو کوئی جمہوریت کو یاد نہیں کرے گا۔اس جمہوری دور میں ہماری معیشت پہلے سے زیادہ ہچکولے کھا رہی ہے۔اس لئے ہر کوئی پریشان ہے۔آءایم ایف اگر قرض نہیں دیتا تو پریشان الیکشن کمیشن الیکشن نہیں کراتا تو پریشان لارجر بنچ نہیں بنتا تو پریشان بنچ ٹوٹتا ہے تو پریشان۔قانون سازی ہوتی ہے تو پریشان۔قانون سازی کے خلاف فیصلہ اتا ہے تو پریشان۔مدر ان لا کی سنی جاتی ہے تو پریشان جب کہ اس ملک میں قدرت نے سب کچھ دے رکھا ہے۔ صرف ہم کوغلامی کی زنجیروں سے آزاد نہیں کیا۔ جس سےاپنے فیصلے خود نہیں کرتے۔کہتے ہیں سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا۔جھوٹ کو لپیٹ لو لنگوٹی نہیں تو کیا۔کاش ہم دوسرے سے کچھ سیکھ لیں۔اپنے سے جدا ہو جانے والے ملک کی مثال کو سامنے رکھیں۔جو نہ شیروانی پہنتے ہیں اور نہ ہی بوٹ۔ وہ دھوتی اور واسٹک پہن کر گزارہ کر رہے ہیں۔ جنھوں نے آءایم ایف والوں سے ٹکر لی اور اپنی مدد اپ کے تحت تاریخی پل بنا کر دکھا دیا وہ ملک اگر اپنے پا¶ں پر بغیر قرض ل? کھڑا ہوسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں۔ کہا جاتا ہے بنگلہ دیش کا سب سے طویل پل بننا تھا۔ ورلڈ بینک نے 1.2 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا مگر پھر الزام لگا دیا کہ بنگلہ دیشی کرپٹ ہےاور یہ کہہ کر قرضہ کینسل کر دیا۔حسینہ واجد کی حکومت نے اپنے ذرائع سے پیسہ اکٹھا کر کے چھ کلومیٹر سے زیادہ طویل پل دریائے پدما پر بنایا۔ یہ 6.51 کلومیٹر طویل پل تقریبا? 3.6 بلین امریکی ڈالر کے برابر لاگت سے تعمیر ہوا۔ اتوار کی صبح 6 بجے سے عام ٹریفک کے لیے کھولے جانے کے بعد سے پدما پل پر پہلے آٹھ گھنٹوں میں کل 82,19,050 روپے جمع کیے گئے ہیں۔ اگلے آٹھ گھنٹوں میں پل کے زجیرہ پوائنٹ پر 35,29,500 روپے اور ماوا پوائنٹ سے 46,89,550 روپے جمع ہوئے۔ ایک ہی وقت میں، 15,200 گاڑیاں دونوں سروں سے گزریں اور آج صرف یہ ایک منصوبہ ہی بنگلہ دیشی معیشت میں سالانہ 1.3 فیصد منافع کا حامل بن چکا ہے۔گذشتہ سال اس کا افتتاح ہونے کے بعد جب حسینہ واجد کی ورلڈ بینک کے سربراہ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے پدما پل کی ایک فریم شدہ تصویر انہیں تحفے میں پیش کی۔ شاید یہی حقیقی آزادی کی ایک جھلک تھی اور قومیں اسی طرح بنتی ہیں در در کشکول لے کر بھیک مانگنے سے ترقی نہیں ہوتی ہم ”دشمن” ہندوستان سے تو نہیں سیکھ پا رہے ہیں کہ وہ ہمارا ازلی دشمن ہے۔کم از کم اپنے پرانے”بھائی” بنگلہ دیش سے تو سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ ہم سے علیحدگی کے 50 سال بعد بنگلہ دیش ہم سے کتنا آگے جا چکا ہےاور ہم 76 سال بعد بھی ایک سے دوسری دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔بنگلہ دیش کی علیحدگی کے وقت مشرقی پاکستان کی آبادی کہا جاتا ہے ساڑھے سات کروڑ اور مغربی پاکستان کی آبادی ساڑھے چار کروڑ تھی۔آج بنگلہ دیش کی آبادی ساڑھے پندرہ کروڑ اور ہماری بائیس کروڑ ھے۔20 برس پہلےپاکستانی روپے کے پونے دو ٹکے ملتے تھے۔ آج پاکستانی روپیہ آدھے ٹکے سے بھی کم کا ھے۔بنگلہ دیش کے خزانے میں 38 بلین ڈالر اور ہمارے خزانے میں 9 بلین ڈالر ہیں۔بنگلہ دیش کو جب ورلڈ بنک نے للکارا تو اس نے 4 بلین ڈالر لگا کر پل بنا کر دکھا دیا اور ہم آج اس بات پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے کہ آئی ایم ایف نے ایک بلین ڈالر دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ جمہوریت یہاں نہیں عوام کے خیرخواہ یہ نہیں۔ بجلی اور پٹرول میں بے شمار ٹیکس شامل کر رکھیں ہیں انہیں کوئی شرم نہیں کوئی حیا نہیں۔ یہ دو چیزیں ہی تو ہیں جن سے زندگی کی گاڑی چلتی ہے۔ اس مہنگائی کے طوفان نے عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے۔یہاں کی سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر جمہوریت نہیں ہے اور کام کرنے کی ازادی نہیں آپ بھلے سے اپنے لیڈروں کو عظیم اور زندہ باد کہتے رہیں. مگر یہاں کی سیاسی جماعتیں فیکٹریاں کارخانوں کی طرح کام کرتی ہیں۔ پارٹی کا لیڈر اپنی پارٹی کے عہدے دران کی بات نہیں سنتا۔لیڈر اور ورکرز کے درمیان کمنیکیشن گیب ہے۔ہمارے اپنے کردار ٹھیک نہیں۔ قرآن کی بے حرمتی پر دوسروں کو مار دیتے ہیں ان کے گھروں کو پہلے لوٹتے ہیں پھرجلاتے ہیں اور خود قرآن کے لکھے پر عمل نہیں کرتےجب کہ اسلام معاف کرنا سکھاتا ہے۔معاف کا درس دیتا ہے۔حضور پر بوڑھی عورت گھر کا کوڑا کرکٹ روز پیھنکا کرتی تھی۔ کسی نے اسے مارا نہیں تھا۔لوگ اوجریاں اپ پر پھینکا کرتے تھے مگر کبھی ان سے لڑائی نہ کی تھی۔سب کو معاف کر دیا کرتے تھے۔جب کہ ہم نے معاف کرنا سیکھا ہی نہیں۔ جھوٹ ہم بولتے ہیں ملاوٹ ہم کرتے ہیں۔ سنت نبویﷺ پر عمل ہم نہیں کرتے۔ اقلیتوں کےحقوق کا خیال ہم نہیں رکھتے۔ زاتی رنجش کی بنا پر مزہبی رنگ دے کر فساد کرتے ہیں۔ اللہ سے ڈرتے نہیں دعائیں کرنے پر زور دیتے ہیں۔عمرہ حج کے بعد قبولیت کےلئے دیگیں یہاں کے مزاروں پر چڑھاتے ہیں۔ ہر کام سنت نبوی کے خلاف کرتے ہیں املاک کو اسلام کے نام پر جلاتے ہیں اور خواہش جنت میں جانے کی ہے۔مگر کام سارے جہنمی والے کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے جب تک دھوکے اور کھوتے کا پتہ چلتا ہے تب تک ہم کھا چکے ہوتے ہیں۔ شکایت۔کس سے کریں۔ بس یہی کہہ سکتے ہیں حافظ خدا تمہارا۔