کالم

حضرت امام حسےن ؑ غےر مسلم مفکرےن کی نظر مےں

نامور غےر مسلم فلاسفہ ،مفکرےن ،اہل سےاست ، راہنماﺅں اور شعراءنے امام مظلوم کی قربانی پر ہدےہ تبرےک پےش کےا ہے ۔اگر غےر مسلموں کے سےدالشہداءکے حضور نذرانہ عقےدت کے اجمال کی تفصےل پےش کی جائے تو لاتعداد ضخےم کتابوں کی ضرورت ہے ان مےں سے صرف چند مغربی مفکرےن کے خےالات قارئےن کی خدمت مےں پےش کرنے کی سعی کی ہے ۔
سرلےوس پی لی نے اپنی کتاب The Miracle play of Hasan and Husain (Londan1879)کے صفحہ 37مےں مجالس عزا کا ترجمہ کےا ہے وہ اس دےباچے مےں لکھتے ہےں :۔
”اگر کسی تمثےل کی کامےابی کا معےار اس تاثےر کو قرار دےا جائے جو اس کی وجہ سے ان لوگوں کے قلوب پر جن کےلئے وہ لکھی گئی ہے ےا ناظرےن کے دلوں پر ہوتی ہے تو ماننا پڑے گا کہ دنےا کا کوئی المےہ (ٹرےجڈی)اس المےہ سے زےادہ کامےاب نہےں ہوا جو مسلمانوں مےں شہادت نامہ حسن ؑو حسےنؑ کے نام سے مشہور ہے مسٹر مےتھےو آرنلڈ(Mathew Arnold) نے اپنی کتاب( Essay on Criticism )نے اےرانی شبےہوں کے نفس قصہ اور ان کے اثرات کو نہاےت خوبی کے ساتھ بےان کےا ہے اور مسٹر مےکالے (Macaulay)نے اسرار محرم کو ہمےشہ ہمےشہ کےلئے غےر فانی بنا دےا ہے اور تو اور خود گبن(Gibbon)جو بڑا نکتہ چےن اور شکی مزاج ہے اپنی کتاب Decline and Fall of the Roman Empire مےں لکھتا ہے In a distant age and climate the tragic scene of the death of Husein will awaken the sympathy of the coldest readerترجمہ:بعےد سے بعےد زمانے اور دور سے دور ملک مےں بھی شہادت حسےنؑ کا المناک منظر بے حس سے بے حس ناظر کے جذبات کو متحرک کر دے گا “مشہور مورخ گبن کا خےال ہے کہ انسانےت کی آنے والی صدےوں اور مختلف سر زمےنوں مےں امام حسےنؑ کی وفات کے دکھ بھرے منظر کی تفصےل سرد ترےن قارئےن کے دلوں کو بھی منور کر دے گی۔اس کے بعد پروفےسر براﺅن اپنی کتاب صفحہ (187 )مےں لکھتے ہےں کہ اےرانی (شےعہ)اپنے اس ہر دلعزےز آقا کو ”سےد الشہدائ“کہتے ہےں لےکن دراصل ان کی نظروں مےں اس کا درجہ اس سے بھی بہ مراتب زےادہ ہے ۔اس لےے کہ وہ تو ےہ عقےدہ رکھتے ہےں کہ جب گنہگار امتےوں کی بخشش کےلئے خود پےغمبر کی سفارش بھی کام نہ دے گی تو امام حسےنؑ کی شہادت انہےں بخشوائےں گی ۔حشر کے دن حضرت رسول مقبول امام حسےن ؑ سے ارشاد فرمائےں گے کہ جا اور ہر اس شخص کو جس نے اپنی تمام عمر مےں تےرے لےے اےک آنسو بہاےا ہے ےا تےری کسی طرح مدد کی ہے ےا تےرے روزے کی زےارت کی ہے ےا غم مےں مرثےے کا اےک شعر بھی کہا ہے سب کو جہنم کے شعلوں سے نجات دلا اور اپنے ساتھ لے جا۔
چارلس ڈکنز حضرت امام حسےنؑ کے بارے مےں کہتے ہےں ”اگر امام حسےن ؑ کا مطلب اپنی دنےاوی خواہشات کےلئے جنگ تھی تو مجھے سمجھ نہےں آتی کہ ان کی بہنےں ،بےوےاں اور بچے اس کے ساتھ کےوں تھے ؟اس سے ےہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی قربانی صرف اسلام کی خاطر دی“۔تھامس کار لائل کے مطابق کربلا کے سانحے سے ہم سب سے بہترےن سبق سےکھ سکتے ہےں کہ امام حسےن ؑ اور ان کے ساتھےوں کا خدا پر پختہ ےقےن تھا ۔اپنے عمل سے انہوں نے واضع کےا کہ عددی برتری سے کوئی فرق نہےں پڑتا :امام حسےنؑ کی اقلےت کے باوجود فتح نے مجھے حےران کر دےا ۔
پروفےسر اےڈورڈ براﺅن کہتے ہےں :کےا کوئی اقلےت ہے جو کربلا کے بارے مےں بات کرتے ہوئے غم اور رنج مےں مبتلا نہےں ہے ؟غےر مسلم بھی اس روحانےت کا انکار نہےں کر سکتے جس کے تحت ےہ اسلامی جنگ لڑی گئی تھی ۔فرےڈرک جےمز کے مطابق :امام حسےنؑ کی تحرےک ہر شہےد کا سبق ہے کہ دنےا مےں انصاف ،ہمدردی اور محبت کے ابدی اصول ہےں جو ناقابل تغےر ہےں اور جب بھی کوئی ان کےلئے استقامت سے کام لے ان ابدی صفات کو مزےد دوام حاصل ہو گا ۔ل۔م۔بانڈ کہتے ہےں :”صدےوں کے دوران انسانوں نے ہمےشہ روح کی عظمت اور دل و ذہن کی ہمت کو پسند کےا ہے ۔چنانچہ آزاد اور انصاف پسند لوگ ظلم اور بد عنوانی کی طاقت کے سامنے کبھی نہےں جھکتے اور ےہی امام حسےنؑ کی عظمت کا راز ہے ،مجھے خوشی ہے کہ مےں ان لوگوں کا ہمفکر ہوںجو اس عظےم قربانی کو اپنے تہہ دل سے سراہتے ہےں حالانکہ ان کی تارےخ کو 1300سال گزر چکے ہےں ۔
امرےکی مورخ واشنگٹن ارونک کہتے ہےں :ےزےد کی مرضی کے سامنے ہتھےار ڈال کر امام حسےنؑ کےلئے اپنی جان بچانا ممکن تھا لےکن اسلام کی قےادت اور تحرےک کی ذمہ داری کے احساس نے انہےں ےزےد کو خلےفہ تسلےم کرنے کی اجازت نہےں دی ۔انہوں نے اسلام کو بنی امےہ کے چنگل سے آزاد کرانے کےلئے اپنے آپ کو کسی بھی تکلےف کو برداشت کرنے کےلئے تےار کےا ۔ امام حسےنؑ کی روح خشک زمےن کی تپتی دھوپ کے نےچے اور سعودی عرب کی جلتی ہوئی رےت پر فانی ہے ۔
اےف جے گولڈ :مصنف ےوتھ نےول باتھ آف لندن اےف جے گولڈ کہتے ہےں کہ محب انسانےت حسےنؑ نے اپنی لائف اےنڈ ڈےتھ دونوں کے ذرےعہ انسانوں کے دل موہ لےنے کی بہترےن مثال پےش کی ۔
ڈاکٹر اےچ ڈبلےو بی مورےنوH.w.b (حسےن ؑ دی مارٹر ):امام حسےنؑ اصول صداقت کے سختی سے پابند رہے اور اپنی زندگی کے آخری لمحات تک مستقل مزاج اور غےر متزلزل رہے ۔انہوں نے ذلت پر موت کو ترجےح دی ۔اےسی روحےں کبھی بھی فنا نہےں ہوتےں ۔امام حسےنؑ آج بھی رہنماےان انسانےت کی فہرست مےں بلند مقام کا مالک ہے وہ تمام مسلمانوں کےلئے روحانی پےغام پہنچانے والے ہےں اور دوسرے مذہب کے پےروﺅں کے واسطے نمونہ کامل ہےں ۔
تھامس کار لائل :نامور مصنف کارلائل اپنی مشہور کتاب Heroes and Hro worshipمےں لکھتے ہےں کہ مےدان کربلا کے المےہ سے ہمےں سب سے بڑا سبق ےہ ملتا ہے کہ حضرت امام حسےنؑ اور آپ کے ساتھےوں کو خدا وند تعالیٰ پر ےقےن کامل تھا ۔آپ ؑ نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھاےا کہ حق اور باطل کی کشمکش مےں تعداد کی برتری کی کوئی حےثےت نہےں ہوتی قلےل تعداد مےں ہوتے ہوئے بھی حسےن ؑ کی فتح نے مجھے بے حد متاثر کےا ۔
اےک اور مغربی مفکر تھامس مسارےک ،واقعہ کربلا سے متعلق لکھتے ہےں :ہمارے بہت سے مورخےن اس عمل کی حد اور سوگ سے ناواقف ہےں ۔وہ لاعلمی کی باتےں کرتے ہےں اور امام حسےنؑ کے پےروکاروں کی سوگ کی صورتحال کو پاگل پن سمجھتے ہےں اور کبھی محسوس نہےں کےا کہ وہ مذہبی تحرےک جو اس قوم مےں تعزےہ سے ابھری ہے دنےا کے کسی بھی دوسرے نسلی گروہوں اور قوموں مےں نہےں پائی گئی ۔ہندوستان مےں امام علی ؑ کے پےرو کار 200سالہ ترقی کی راہ کو اپنے ماتمی نعرے کے ساتھ طے کر پائے ہےں ،ہم تسلےم کرےں گے کہ وہ سب سے مفےد راہ زندگی کا اتباع کرتے ہےں ۔دو سال پہلے علیؑ اور حسےن ؑ کے پےروکار پورے ہندوستان مےں اقلےت مےں تھے اور دوسرے ممالک مےں بھی اسی حالت مےں تھے البتہ آج خوشحال عےسائی ممالک بھی اگر وہ حضرت مسےح اس طرح کے سوگ کا عالم پےدا کرنا چاہتے ہےں تو لاکھوں ڈالر خرچ کر کے اےسی سوگ کی تقرےبات و اجتماعات قائم نہےں کر سکےں گے ۔اگرچہ ہمارے مذہبی پےشوا بھی عےسیٰ مسےح کے دکھوں کا ذکر کر کے لوگوں کو متاثر کرتے ہےں لےکن امام حسےنؑ کے پےروکاروں مےں جو جذبہ پاےا جاتا ہے وہ مسےح کے پےروکاروں مےں نہےں ملے گا اور اےسا لگتا ہے کہ مسےح کے مصائب امام حسےن کے دکھوں کے خلاف اےک بڑے پہاڑ کے سامنے اےک معمولی حےثےت رکھتے ہےں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے