کالم

حضرت علیؓ کی بارگاہ مےں غےر مسلم اہل دانش کا خراج عقےدت

اقلےم شجاعت کے تاجدار ،سند علم و دانش کے صدر نشےں ،افق ولائت کے منےر تاباں ،کاروان عشق کے امےر،غےرت الٰہےہ کی شمشےر ، جلےل القدر صحابی ،مفسر قرآن حضرت علیؑ کو قدرت کاملہ نے اتنے اعزازات اور امتےازات سے نوزا کہ جن مےں سے اےک بھی دنےا کی ناموری اور آخرت کی سرخروئی کےلئے کافی ہوتا ہے ۔حضرت علیؑ کو 13رجب المرجب جمعہ کے دن سر زمےن حرم مےں خانہ کعبہ کے اندر ولادت کا شرف حاصل ہوا ۔پہلی نظر جمال رسالت پر ڈالی۔نبی اکرمﷺکی زبان اطہر چوس کر دنےا مےں پہلی خوراک حاصل کی ۔نبوت کی تجلےوں مےں آنکھےں کھولےں ۔رسالت کی فضاﺅں مےں پلے بڑھے ۔پےغمبر کے ساےہ تربےت مےں پروان چڑھے ،سفرو حضر مےں ساےہ کی طرح ساتھ ساتھ رہے ،خلوت و جلوت مےں ان کے فےضان صحبت سے فےض ےاب ہوئے اور ان ہی کے عمل وکردا ر کے نقوش کو قلب و نظر مےں جگہ دی ۔صفائے طےنت و کردار کے نتےجہ مےں روح و عروج کے اس نقطہ بلند تک پہنچے کہ مہ و پروےن کی بلندےاں بھی ان کی گزر گاہ مےں گرد راہ ہو کر رہ گئےں ۔اس اےک ذات مےں تمام محاسن و فضائل اپنی پوری دلآوےزےوں کے ساتھ سمٹ کر جمع ہو گئے تھے ان متضاد صفات کے اجتماع اور ان کے ناقابل فہم امتزاج نے دنےا کو ورطہ حےرت مےں ڈال دےا دنےا کی بڑی بڑی شخصےات کا مطالعہ کرےں تو معلوم ہو گا کہ کسی خاص صفت کمال مےں انہوں نے نام پےدا کےا کسی نے سخاوت مےں ،کسی نے علم مےں ،کسی نے شجاعت مےں لےکن حضرت علیؑ مےں ےہ تمام صفات درجہ اتم و اکمل پر ہےں ۔آپ ؑ اسلامی عہد کے ان گنے چنے حضرات مےں سر بر آوردہ تھے جو بےک وقت ہاتھ ،زبان اور قلم مےں مہارت تامہ رکھتے تھے اس لئے سرور عالم ﷺ کا ارشاد ہے جو شخص علم آدم ،فہم نوح،حلم ابراہےم،زہد ےحےیٰ،صولت موسیٰ ان حضرات سمےت دےکھنا چاہے تو اسے چاہےے کہ کہ وہ علی ابن ابی طالب کے چہرہ انوار کو دےکھے ۔فتح مکہ ہو ےا تطہےر کعبہ ،غزوہ خندق ہو ےا خےبر ،ہر موڑ پر آپ کی خدمات نماےاں اور انفرادی خصوصےات کی حامل ہےں ۔غزوہ بدر مےں آپؑ کی خدمات نماےاں اور انفرادی خصوصےات کی حامل ہےں ۔غزوہ بدر مےں آپؑ کی جانبازی اور دلےری پر پروفےسر ڈی اےس ماگو لےتھ اپنی کتاب لائف آف محمدﷺکے صفحہ260پر لکھتے ہےں ” ےہ بات ےقےن اور بغےر شک و شبہ کے دکھائی دےتی ہے کہ پچاس کی دہائی مےں اسلام کی فتح و نصرت حضرت علی ؑ کی بہادری اور لڑائی مےں مہارت تامہ کے سبب تھی جو آپ نے کسی حفاظتی لباس ےعنی زرہ وغےرہ کے بغےر لڑی“۔آپؑ کے قلم مےں اتنی جولانی تھی کہ اےک اےک جملے مےں علم و حکمت کے جواہر پارے بکھرے نظر آتے ہےں ۔حضرت علی ؑابن ابی طالب کا تعارف خدا کے آخری نبیجو خود منبہ علم ہےں اس طرح کراتے ہےں ” مےں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے “شکےب ارسلان جس کا لقب امےر ا لبےان ہے اےک زبر دست عربی مصنف ہے مصر مےں اس کے اعزاز مےں ہونے والے اےک جلسے مےں مقررےن مےں سے اےک شخص نے اپنی گفتگو کے دوران کہا کہ تارےخ اسلام مےں دو آدمی گزرے ہےں جن کو سچ مچ امےر المومنےن کہا جا سکتا ہے اےک علیؑ ابن ابی طالب اور دوسرا شکےبہ،شکےب غصے مےں اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ کہاں مےں اور کہاں علیؑ ابن ابی طالب،مےں تو علیؑ کے جوتوں کے تسموں کے برابر بھی نہےں “۔شہر علم کے اس دروازہ پر جب عےسائی مفکر جارج جرواق حاضر ہوتا ہے تو وہ اپنیشہرہ آفاق تصنےف ”ندائے عدالت انسانی“ مےں اس طرح رقمطراز ہے ” اےسا بزرگ انسان جو بلندی فکر مےں دنےا کے مفکروں سے،خےر خواہی مےں زمانہ کے نےکو کاروں سے ،علم کی فضےلت مےں زمانہ کے عالم ودانشمندوں رفعت نظر مےں عرصہ گےتی کے محققےن سے ،عطوفت و مہربانی مےں سارے محبت کرنے والوں سے سارے محبت کرنے والوں سے ،ترک دنےا مےں تمام پرہےز گاروں سے اور اصلاحی نظرےات مےن قوم کے جملہ مصلحےن سے آگے نکل گےا درد مندوں کا شرےک غم مصےبت مےں مظلوموں کا ساتھی ،دنےا کے ادےبوں کو ادب سکھانے والا ،دلےروں کےلئے مہمےز آموز اور تروےج حق کےلئے جان کو ہتھےلی پر لئے ہوئے ہر انسانی فضلو کمال کی بلند ترےن منزل سے بھی اونچا جا چکا ہے اور ان تمام صفات مےں اس کا قول وعمل ےکساں ہے ۔ےہ عےسائی مصنف جب زندگی علیؑ کا مطالعہ کرتا ہے تو بے ساختہ پکار اٹھتا ہے کہ کاش زمانہ ہم پر احسان کرتا اور زندگی کے ہر شعبہ مےں اےک علیؑ دے دےتا ہماری تمام مشکلےں حل ہو جاتےں ۔جب ےہ 94ممالک کے افراد کے ذرےعے امرےکہ مےں تشکےل پانے والے منشور کا تقابل علیؑ کے پےش کردہ منشور سے کرتا ہے تو ےہ اعتراف کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ اس شخصےت آسمانی نے چودہ صدےاں قبل تنہا جو منشور انسانی فلاح کےلئے پےش کےا دنےا کا کوئی بھی منشور اس سے تقابل نہےں کر سکتا کےونکہ اقوام متحدہ اور دوسرے صاحبان فکر موجودہ تمام تر وسائل کے باوجود ابھی تک آزادی اور ملکےت کے مفہوم کی وضاحت بھی نہےں کر سکے ہےں اس مےں تمام مذاہب کی اپنے ممالک کی حدود مےں بھی تمام طبقات و افراد کے لحاظ سے آزادی کی رعائت نہےں کی گئی ہے جبکہ امےرلمومنےن علیؑ نے منشور کائنات کو دےا وہ بشر کے انفرادی ،اجتماعی ،ملیاور قومی تمام حقوق کی رعائت کرتا ہے دنےا کا کوئی دانشمند کسی بھی حوالے سے اس مےں کوئی نقص و عےب تلاش نہےں کر سکتا ۔شےخ الر ئےس ابن سےنا کہتے ہےں ” مےں علی کی تعرےف تو نہےں کرتا مےں تو کمال کا متلاشی ہوں جہا ں بھی مجھے کمال نظر آتا ہے جھک جاتا ہوں ۔مجھے تمام کمالات علیؑ کے در پر ملتے ہےں ۔حضرت علیؑ اس بلند مقام پر فائز تھے کہ انسان کی قوت پرواز اس تک پہنچنے سے قاصر ہے معروف عےسائی مصنف رقمطراز ہے کہ فرزند ابو طالب وہ سب سے پہلے عرب ہےں جنہوں نے روح کلی(الوہےت) کی ملازمت اور ہمسائےگی اختےار کی اور اس کے دمساز ہو گئے وہ سب سے پہلے عربی ہےں جن کے دونوں لبوں نے ترانہ الوہےت کی آواز ان انسانی کانوں تک پہنچائی جنہوں نے پہلے اسے سنا ہی نہ تھا حضرت علیؑ اس حالت مےں دنےا سے رخصت ہوئے کہ اپنی عظمت و بزرگواری کے شہےد ہوئے دنےا کی طرف سے اپنی آنکھےں بند کر لےں ۔نماز آپ کے لبوں پر تھی آپ کا دل شوق پرور دگار سے معمور تھا “۔ مادہ پرست عرب مورخ شبلی شمےل جو کےمونزم اور الحاد کا نظرےہ رکھتا تھا وہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ امام ابن ابی طالب دنےا کے تمام بزرگوں کے بزرگ اور زمانے کے واحد و ےکتا نسخہ تھے کہ دنےائے مغرب و مشرق نے اپنی آنکھو سے عصر قدےم و جدےد مےں کوئی اےسی تصوےر جو اس نسخہ کی مثال ونظر ہو اور مطابق اصل ہو نہےں دےکھی ۔نر سکسےان جو مسےحی دنےا کا اےک اہم نام تھا حضرت علیؑ کے حضور ان الفاظ مےں خراج عقےدت پےش کرتا ہے ” اگر ےہ عظےم خطےب علیؑ ابن ابی طالب ہمارے زمانے مےں موجود ہوتے تو آج بھی مسجد کوفہ پر قدم رکھ دےتے تو تم دےکھ لےتے کہ مسجد کوفہ اتنی طوےل و عرےض ہونے کے باوجود ےورپ کے سرداروں اور بزرگوں سے چھلک جاتی اس لئے کہ سب کے سب ےہاں حاضر ہوتے تا کہ آپ کے علم و دانش کے بحر مواج سے اپنی روحوں کو سےراب کر سکےں“۔ فرانسےسی مورخ اور دانشور ہارون کاداد حضرت علیؑ کو ان الفاظ مےں خراج تحسےن پےش کرتا ہے ”علیؑ وہ شجاع بے نظےر،دلےر،بے مثال،نڈر وبے باک شہسوار مےدان شجاعت تھے جو پےغمبر اسلام کے پہلو بہ پہلودشمنوں سے جنگ کرتے تھے ۔پےغمبر اسلام آپ کو بہت دوست رکھتے تھے ےہاں تک کہ اےک روز اس حالت مےں کہ نگاہےں آپ کی طرف جمی تھےں فرماےا”ہر وہ شخص جس کا مےں مولیٰ ہوں اس کا علی مولیٰ ہے“۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے