کالم

حضور کریم ﷺ کی پالیسیاں۔۔۔!

khalid-khan

صدیوں سے حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات اور پالیسیوں سے لوگ مستفید ہورہے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات اور ادا میں حکمت ہے، ان سے مسلمان اور غیر مسلم سبھی استعفادہ حاصل کررہے ہیں ۔ عصر حاضر میں آرٹیٹکچر، ماہر ماحولیات ،معیشت دان،ڈاکٹر، قانون دان وغیرہ جن باتوں اور اصولوں کو انسانوں اور معاشروں کےلئے سودمند قرار دے رہے ہیں، پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تقریباً ساڑھے چودہ صدی قبل وہی باتیں اور اصول وضوابط بتا چکے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ جب شہر کی آبادی ایک حد سے تجاوز کرجائے تو اس شہر میں مزید لوگ بسانے کی بجائے نئے شہر بسائے جائیں۔شہر کی آبادی جس قدر بڑھتی ہے اور اس میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کی تہذیبی و اقتصادی انرجی کم ہوجاتی ہے، معاشرے میں اصلاح کی بجائے بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور ثقافتی توانائی کی جگہ محرکات شر میں اضافہ ہوتا ہے۔ بڑے شہروں میں جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔نئے شہر بسانے سے انتظامی امور چلانے میں آسانی ہوتی ہے،جرائم کم جبکہ ثقافتی توانائی میں اضافہ ہوتا ہے۔عصر حاضر میں شہر ی آبادی کا اس سے بہتر حل موجود نہیں ہے۔کہتے ہیں کہ جب علامہ اقبال نے مسولینی سے ملاقات کے دوران پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پالیسی کے بارے بتایا تو وہ کرسی سے اٹھ گئے ، دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجانے لگا اور کہا کہ کتنا خوبصورت خیال اور کتنی بہترین پالیسی ہے! سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ مدینہ کی گلیاں کشادہ رکھیں۔گلیوں کو گھروں کی وجہ سے تنگ نہ رکھیں۔ ہرگلی اتنی کشادہ ہو کہ دو لدے ہوئے اونٹ آسانی سے گذر سکیں۔عصر حاضر میں لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حکم کی تعمیل کررہے ہیں اور اس حکم پر عمل پیرا ہیں۔اب شہروں میں تنگ گلیوں کو کشادہ اور وسیع کررہے ہیں ۔ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کے باہر "محی النقیع” نامی پارک بنوایا۔ وہاں پودے اور درخت لگوائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی گاہے بگاہے پارک محی النقیع میں سیر وتفریح و آرام کےلئے تشریف لے جاتے تھے ۔آج صدیوں بعد ترقی یافتہ شہروں میں پارک قائم کیے جارہے ہیں۔ آج کل شہریوں کی تفریح کےلئے پارکوں کو لازمی اور ناگزیر سمجھا جارہاہے۔سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ مدینہ کے وسط میں مارکیٹ قائم کی جائے ، اس بازار کو "سوق مدنیہ "کا نام دیا گیا تھا۔ عصر حاضر میں لوگ کہتے ہیں کہ جس شہر کے درمیان میں مارکیٹ نہ ہو تو وہ ترقی نہیں کرسکتا۔پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ "سوق مدینہ ” تمہاری مارکیٹ ہے ، اس میں ٹیکس نہ لگائیں۔ آج دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مارکیٹ کو ٹیکس فری ہونا چاہیے، لوگ ٹیکس فری صنعتی زون اور مارکیٹ کے قیام کےلئے کوشاں ہیں۔
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سودکے لینے دینے سے منع فرمایا تھا ۔سود سے معیشت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سود سے آبادی کے بڑے حصے کی قوت خرید کم ہوجاتی ہے بلکہ قوت خرید بالکل ختم ہوجاتی ہے۔سودی نظام سے چند افراد امیر سے امیر تر ہوجاتے ہیں لیکن غریب کو غریب تر بناتے ہیں۔عصر حاضر میں لوگ فری ربا انڈسٹری کے فروغ کےلئے کوشش کررہے ہیں۔پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذخیرہ اندوزی سے منع کیا۔دنیا اس پرعمل کرے تو دنیا میںخوراک کا بحران پیدا نہیں ہوگا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ سٹے سے نفع نہیں نقصان ہوتا ہے، عصر حاضر میں اس کے نقصانات سامنے آرہے ہیں اورمالیاتی بحران پیدا ہورہے ہیں۔پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پودوں ،درختوں اور فصلوں کو نقصان پہنچانے سے منع فرمایا ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیڑ پودے لگانے کی ہدایت کی تھی۔پودے، درخت اور جنگلات کم ہونے کے باعث آلودگی بڑھ رہی ہے ، حدت اور درجات میں اضافہ ہورہا ہے۔گلیشئر پگھل رہے ہیں، سمندروں کے کنارے آباد شہروں کے ڈوبنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔عصر حاضر میں لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات پرعمل کریںتو گوبل ورمنگ سے چھٹکارہ پاسکتے ہیں،حدت اور درجات میںکمی لاسکتے ہیں، ماحول صاف اور خوشگوار بنا سکتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات پر عمل کریں، زیادہ سے زیادہ پودے اور درخت لگائے جائیں۔ شہری آبادی اورصنعتی زون میںبھی پودے اور درخت لگائے جائیں۔ اس سے ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ حضرت عمر ؓ نے ایک شخص کو دیکھا جس نے بازار میں بھٹی لگائی تھی تو آپ ؓ نے اس کو منع کیا اور شہر سے باہر بھٹی لگانے کی ہدایت کی۔ اب دنیا بھر میں انڈسڑیل علاقے شہروں سے باہر قائم کیے جارہے ہیں تاکہ شہری آبادی میں آلودگی نہ ہو۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کے مختلف قبائل کو جمع کرکے”میثاق مدینہ” معاہدہ تحریر کیا۔ اس معاہدے کے 52 دفعات تھے۔ اس معاہدے سے مدینہ کے متعدد مسائل حل ہوئے ۔میثاق مدینہ نے شہر کی ترقی اور امن میں کلیدی کردار ادا کیا اور اس سے خانہ جنگی جیسے مسائل پیدا ہونے کے امکانات ختم ہوئے۔
عصر حاضر میں خانہ جنگی اہم مسئلہ ہے، اس مسئلے نے کئی ممالک کو پریشان کیا ہے، خانہ جنگی سے ان کی معاشرت اور معیشت تباہ وبرباد ہورہی ہے۔سرکار مدینہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں مسجد نبوی کے صحن میں ہسپتال قائم کیا تھا، اس سے مریضوں کامفت علاج ہوتا تھا۔آج دنیا میں علاج حکومت کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔مسجد نبوی کو مرکزی سیکرٹریٹ کا درجہ حاصل تھا ۔ مدینہ بھر کی تمام گلیاں مسجد نبوی تک براہ راست پہنچتی تھیں تاکہ کسی حاجت مند کو پہنچنے میں دشواری نہ ہو۔اس جدید دور میں ملک کے سربراہ کے سیکرٹریٹ کو ایسے مقام پر بنایا جاتا ہے ،جہاں پہنچنے میں آسانی ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے