کالم

حضور ۖ کا میلاد۔۔۔!

خالد خان
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلادِ مبارک اسلامی تاریخ اور انسانی تہذیب کا وہ سب سے روشن لمحہ ہے جس نے دنیا کو جہالت، ظلمت اور گمراہی سے نکال کر نور، عدل اور ہدایت کی راہ دکھائی۔ اس عظیم واقعے کی اہمیت صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت نے عرب کے اندھیروں میں چراغ جلائے اور پوری دنیا میں انسانی قدروں کو زندہ کیا۔ میلاد کا تذکرہ دراصل اس بات کا اعتراف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سب سے عظیم نعمت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں عطا کی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا:ترجمہ”یعنی اللہ نے اہل ایمان پر احسان فرمایا کہ ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا”۔ یہی میلاد کا پیغام ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اللہ کی نعمت اور احسان ہے۔اگر ہم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تحقیق اور تاریخ کی روشنی میں دیکھیں تو ہمیں یہ بات واضح ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور ایک ایسے ماحول میں ہوا جب انسانیت شدید بحران میں تھی۔ عرب معاشرہ بت پرستی، قبائلی جنگوں، معاشرتی ناہمواریوں، ظلم و ستم، قتل و غارت اور عورتوں کی بے قدری میں ڈوبا ہوا تھا۔ غربت اور غلامی کا عفریت عام تھا، طاقتور کمزوروں کو کچل دیتے تھے۔ روحانی زوال اس قدر شدید تھا کہ خدا پرستی کا تصور بھی معدوم ہوتا جا رہا تھا۔ ایسے میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد نے دنیا میں انقلاب برپا کیا۔ یہ میلاد صرف ولادت کا لمحہ نہیں بلکہ کائنات کے نظام میں تبدیلی کی بنیاد ہے۔میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ اللہ تعالی ٰنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محض ایک قوم یا علاقے کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا دائرہ محدود نہیں بلکہ آفاقی ہے۔ میلاد کا پیغام یہ ہے کہ ہر انسان کو عزت، انصاف اور ہدایت ملنی چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلاموں کو آزادی کا پیغام دیا، عورتوں کو عزت دی، یتیموں کا سہارا بنے اور کمزوروں کے حق میں کھڑے ہوئے۔ اس سے پہلے دنیا میں کوئی ایسا رہبر نہیں آیا جس نے اتنے ہمہ گیر اور جامع انداز میں انسانیت کے ہر طبقے کو مخاطب کیا ہو۔میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر مسلمان صدیوں سے خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس میں عشق و محبت کے رنگ غالب رہتے ہیں۔ اس موقع پر نعتیں کہی جاتی ہیں، درود و سلام پڑھا جاتا ہے، محافل منعقد کی جاتی ہیں اور قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے۔یہ سب دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ہماری روحانی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ بعض ناقدین سوال کرتے ہیں کہ میلاد منانا دین میں کہاں سے آیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میلاد کا مقصد کوئی نئی عبادت ایجاد کرنا نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر شکر ادا کرنا اور خوشی منانا ہے، جیسا کہ قرآن میں اللہ کی نعمتوں پر خوشی منانے کی تعلیم ہے۔اگر ہم میلاد کے اثرات کو سائنسی اور فکری انداز میں دیکھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات نے انسانی معاشرت، معیشت، سیاست،اخلاقیات اور روحانیت کے ہر پہلو کو مثبت طور پر بدلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مساوات، عدل، اخوت اور علم کی بنیاد رکھی۔ آپ نے یہ تعلیم دی کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ یہی تعلیم بعد میں دنیا کیلئے سائنسی ترقی اور فکری انقلاب کی بنیاد بنی۔ یورپ کی نشا ثانیہ دراصل اسلامی تعلیمات کے اثرات کا نتیجہ تھی۔ اس لحاظ سے میلاد کی یاد منانا اس بات کا اعتراف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کو فکری غلامی سے آزاد کیا۔میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محض ماضی کا قصہ نہیں بلکہ حال اور مستقبل کی راہ بھی ہے۔ آج دنیا جس انتشار، ظلم، ناانصافی اور اخلاقی بحران کا شکار ہے اس کا علاج صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات میں ہے۔ میلاد کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق ڈھالیں۔ صرف نعتیں پڑھنے اور محفلیں منعقد کرنے سے مقصد پورا نہیں ہوتا جب تک ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کردار کو اپنی زندگیوں میں نافذ نہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد دراصل اخلاقی تطہیر، اجتماعی اصلاح اور انسانی فلاح کا پیغام ہے۔یہ حقیقت بھی نہایت اہم ہے کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ دراصل محبت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اظہار ہے۔ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان محبوب کی یاد کو تازہ رکھے۔ میلاد اس محبت کی علامت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے ساتھ ایسی محبت کرتے تھے کہ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ ان کے لیے میلاد تھا۔ میلاد منانے کا اصل مقصد اسی محبت کو زندہ رکھنا اور نئی نسلوں کے دلوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے عشق پیدا کرنا ہے۔اگر ہم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تناظر میں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی عظیم شخصیات کی یاد منائی جاتی ہے۔ مثلا عیسائی حضرت عیسیٰ کی ولادت کا دن کرسمس کے طور پر مناتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے مذاہب میں بھی اپنے رہنماں کی پیدائش کو یاد رکھا جاتا ہے تو پھر مسلمانوں کے لیے کیوں ضروری نہیں کہ وہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کو شکر اور خوشی کے ساتھ یاد کریں؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا دن کائنات کا سب سے بابرکت دن ہے کیونکہ اس دن سے ہدایت کا دروازہ کھلا۔میلاد کے حوالے سے کئی فکری اور فقہی بحثیں بھی موجود ہیں مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا ذکر اور اس پر خوشی ایمان کا حصہ ہے۔ اگر ایک مومن کا دل اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد سے معمور نہ ہو تو اس کے ایمان میں کمی ہے۔ میلاد کا دن ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صرف زبان سے نہ یاد کریں بلکہ ان کی تعلیمات کو عمل میں لائیں۔ معاشرتی انصاف، اخلاقی تطہیر، علم کی طلب اور انسانیت سے محبت ہی میلاد کا اصل تقاضا ہے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر ہم صرف رسومات میں نہ الجھیں بلکہ اس موقع کو ایک عملی تحریک میں بدلیں۔ ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں گے۔ اگر ہم نے میلاد کا یہ پیغام سمجھ لیا تو دنیا سے ظلم، غربت، ناانصافی اور دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے۔ میلاد کا مقصد صرف محفل سجانا نہیں بلکہ دنیا کو امن اور محبت کا پیغام دینا ہے۔یوں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دراصل اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اللہ تعالی نے دنیا کو سب سے عظیم نعمت عطا کی۔ یہ دن خوشی، شکر، محبت، ایمان اور عمل کا دن ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلانا ہے۔ یہی میلاد کی اصل روح ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو ہر دور میں زندہ رہے گا اور قیامت تک انسانیت کے لیے روشنی بنے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے