صبح سویرے ہشاش بشاش اٹھنے سے لے کر، رات میں تھک ہار گہری نیند سو جانے تک، کیا ہمیں کبھی یہ سوچنے کا وقت ملتا ہے کہ گزر جانے والے دن میں ہم نے کیا غلط، کیا صحیح کیا ہے؟ عام سے محسوس ہونے والے روز مرہ کے معاملات کتنے حساس تھے؟ عام سی نظر آنیوالی باتیں کتنی خاص تھیں ؟ آئیے،آج آپکو رمضان چاچا کی کچھ باتیں بتاتا ہوں۔ تھے بوڑھے، لیکن ہمت اور حوصلہ کڑیل جواں تھا ، کام انکا سبزی بیچنا تھا، رہتے تنہا، چھوٹے سے کچے گھر میں رہتے تھے لیکن ارادوں کے کمال پکے تھے۔ یہ ارادہ اور عزم ہی تو تھا کہ کہتے تھے کہ مرتے مر جائوں گا لیکن کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا منظور نہیں اور ہوا بھی ایسا ہی، حال ہی میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں، جب بیمار ہوئے تو سمجھ گئے تھے کہ اب وقت ِ رخصت قریب ہے، تو انہی دنوں اپنے ایک نیک دل پڑوسی کو پیسے سپرد کرتے ہوئے یہ گزارش کی میرے کفن دفن کا انتظام اس رقم سے باآسانی ہوجائے گا اور اگر کچھ بچ جائیں تو قریب کی مسجد میں وضو خانہ زیر ِ تعمیر ہے، اس میں ایصالِ ثواب کی نیت سے ملا دینا اور پھر بعد از انتقال، سارے انتظامات بھی باآسانی تکمیل پا گئے اور ایصالِ ثواب کی نیت بھی پوری ہوئی ۔ رمضان چاچا جب سبزی بیچنے محلے میں آتے تھے تو اکثر سلام دعا ہوجاتی تھی، صوم و صلو ٰةکے پابند تو تھے ہی، زندگی سے جڑے دیگر معاملات کو بھی احکامِ شریعت کے تابع رکھنے کی ہر دم کوششوں میں مصروف رہتے تھے، ناجائز منافع خوری سے نفرت اور حصول ِ رزق ِحلال کی کوششوں سے پیار تھا۔ ایک دن احمد کو ا ن سے سبزی لیتے دیکھا، اور بحث کرتے ہوئے بھی (احمد میرے کزن عبیر کے بیٹے کا نام ہے، ہم ایک ہی محلے میں رہتے ہیں)احمد کو چاچا نے بتائے کسی سبزی کے 25روپے تھے لیکن اس کا اصرار تھا کہ قیمت کم کرکے 20روپے کر دی جائے، رمضان چاچا کوشش اسے بہت پیار سے، سمجھا اور قائل کرنے کی کر رہے تھے، لیکن اسکی بڑھتی تکرار تمام کوششوں کو بے سود کیے دے رہی تھی۔ پھر وہ کچھ دیر کو خاموش ہوئے اور احمد سے ایک گلاس پانی مانگا، گرمیوں کے دن تھے، سورج آگ برسا رہا تھا، احمد پانی لینے گیا تو انہوں نے جیب سے(کئی جگہوں سے پھٹا)رومال نکالا، پسینا پوچھا، اور کچھ دیر قریب بنے چبوترے پر بیٹھ گئے، پھر احمد پانی لے لایا، ٹھیلا چونکہ گھر کے بالکل سامنے تھا شاید اسی لیے، وہ ننگے پائوں ہی باہر آگیا تھا، رمضان چاچا نے پانی پیا، سبزی تولی، اور اسے د ے دی۔(پیسے 20 روپے ہی لیے تھے)سنو احمد بیٹا چپل پہنے رکھا کرو، گلی میں پتھر اور کانچ وغیرہ پڑے ہوتے ہیں، چبھ گئے تو تکلیف ہوگی ۔ بس اتنا کہہ کر انہوں نے احمد کے سر پر ہاتھ رکھا اور دھیرے دھیرے ٹھیلا بڑھاتے، آگے نکل گئے تھے۔پھر احمد گھر کے اندر گیا اور نہایت پر جوش انداز میں اپنے امی، ابو کو بتانے لگا کہ کیسے وہ پورے پانچ روپے بچانے میں کامیاب ہوا تھا، امی، ابو کا یہ سننا تھا کہ لگے ہونے اس پر صدقے واری۔یہ ہوتی ہے ہوشیاری اور چالاکی، آج بچائے گا تو کل کام آئیں گے نا، شاباش بیٹا، بس آج سے گھر کے سودے کی خریداری تمہارے ذمے۔ پھر جب یہ باتیں ہو گئیں تمام، تو اسی رات وہ لوگ ایک شاندار ہوٹل آئے تھے، احمد اچھے نمبروں سے پاس ہوا تھا، اسی خوشی میں رات کا کھانا باہر کھانے کا پروگرام بنا تھا، کامیابی کے افق پر ستاروں کی گنتی کا پیچھا کرتے، اس 3اسٹار ہوٹل میں ، قیمتوں کو بھی چار چاند چڑھے تھے۔ تین لوگوں کے کھانے کا بل ہزاروں میں بنا تھا، جسے نہایت آرام سے، بغیر کسی حیل وحجت ادا کر دیا گیا تھا۔(شاندار ہوٹل کے اس پرسکون ماحول میں بارگنگ پر ہوتے کسی بحث و مباحثے کی گنجائش تھی بھی نہیں)جاتے، جاتے ویٹر کو بھی ٹپ کی مد میں اچھے خاصے پیسے تھما دیے گئے تھے۔پتا نہیں ہمارے یہاں ایسا کیوں ہوتا ہے۔جہاں بچت ہوسکتی ہو، وہاں خوب لٹایا جاتا ہے اور پھر بچت ہی کے نام پر کسی کی حق تلفی کو نہایت آرام سے چالاکی اور ہوشیاری کا نام دے دیا جاتا ہے۔ بات صرف رمضان چاچا سے قیمت پر کی جانیوالی تکرار اور مہنگے ہوٹل میں کھانا کھانے کی نہیں، پورے ہفتے کے مختلف دنوں میں لگنے والے جا بجا بچت بازاروں میں دیکھیں نہ کہ کیا ہو رہا ہے، ان مارکیٹوں کا احوال بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔ یہ بازار اشیا خوردونوش کی کم قیمتوں کے حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں، پھل، سبزی،دالیں، چاول،سرف،صابن،کپڑے،برتن، غرض کہ روزمرہ استعمال کی تقریبا تمام اشیائے ضروریہ ان بازاروں میں موجود ہوتی ہیں۔ ان ٹھیلوں پر جایا جاتا ہے، سب سے پہلے قیمت پوچھی جاتی ہے حالانکہ بیچنے والا چیخ، چیخ کر پیسے بتا رہا ہوتا ہے ،پھر اصرار قیمت کو مزید کم کرنے پر کیا جاتا ہے اور اگر پیسے کم ہو جائیں تو پھولے نہیں سمایا جاتا، پھر جناب کیا ہوتا ہے کہ ٹھیلے والے سے مانگی جاتی ہے ایک عدد تھیلی، اور پھر چھانٹی کا مصروف ترین عمل شروع ہو جاتا ہے۔ خوب اچھے اچھے بڑے، بڑے آلو، پیاز، ٹماٹر، سیب اور ناشپاتیاں چھانٹ لی جاتی ہیں، بہر حال پھر رات گئے تک ٹھیلوں پر بچ جانے والی چیزوں کو اونے، پونے داموں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ تو بازاروں میں تو یہ سب ہو رہا ہوتا ہے، لیکن زندگی کے دیگر معاملات میں بھی بہت کچھ ایسا ہوجاتا ہے جو حق تلفی کے زمرے میں آتا ہے۔ اب بات یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں ہونا کیا چاہیے؟ تو جناب ہونا تو یہ چاہیے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ خریدو فروخت کے علاوہ اور کون سے ایسے معاملات ہیں جہاں ہم سے حق تلفی جیسا گناہ سرزد ہو رہا ہے اور پھر ایسے گناہوں سے خود کو بچا لیا جائے، رمضان چاچا جیسے ایماندار لوگوں سے قیمتوں کی کمی پر بحث نہ ہو تو اچھا ہے، بازاروں میں خراب سامان ہر گز نہیں لیا جائے، لیکن جب قیمتیں اگر کافی حد تک کم ہوں، تو پھر معیار پر اس حد تک سمجھوتا کہ آلو، سیب، ٹماٹر اور کینو چھوٹے،بڑے،درمیانے سب قبول کرلیے جائیں، تو اس میں کوئی بری بات نہیں ہوگی اور اسطرح سے سبزی بیچنے والوں کا نقصان بھی نہیں ہوگا۔ ایسا نہیں کہ قیمتوں پر بحث و تکرار ہونی نہیں چاہیے، ضرور ہونی چاہیے، لیکن اگر حق تلفی سے جڑے مسئلے کو پیش نظر رکھ کر یہ کام ہو، تو پھر کیا ہی خوب ہو!خرید وفروخت کے معاملات میں جہاں خریداروں پر ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں وہیں فروخت کنندگان بھی بری الذمہ نہیں۔ بے ایمانی،ناجائز منافع خوری، جھوٹ، فریب، دھوکا دہی سب بدترین عمل ہیں، ان سے اجتناب لازمی ہے۔ آئیے، ایک ایسے نظام کی تشکیل میں اپنا، اپنا کردار ادا کریں کہ جہاں نہ صرف خریدنے اور بیچنے،بلکہ زندگی سے جڑا ہر معاملہ احکام ِ خداوندی اور شرعی اصولوں کے عین مطابق ہو۔