کالم

حق خود اردیت کا وعدہ

پانچ فروری کو دنیا بھر میں موجود پاکستانی اور کشمیری ہر سال مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر مناتے ہیں ظلم و نا انصافی اور بربریت کے شکار اور اپنے عزم پر ڈٹے رہنے والے مقبوضہ کشمیر کے باسیوں سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری طرف عالمی اداروں کی توجہ مقبوضہ وادی کے اندر جاری مظالم کی طرف دلاتے ہیں، کشمیریوں سےیہ اظہارِ یکجتی زبان یا مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت پر ہے پاکستان اور آزاد کشمیر میں یہ دن سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے جلسے جلوسوں سیمینارز اور احتجاجی ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کی تاریخ پرانی ہے پہلی مرتبہ 1931میں 21 کشمیریوں کے قتل پر مفکر پاکستان علامہ اقبال جبکہ 28فروری 1975کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل پر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن منایا گیا ،1992میں قاضی حسین احمد کی اپیل پر وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے یہ دن منانے کا اعلان کیا اور پھر 2004 میں سے یہ دن سرکاری طور پر منایا جانے لگا ۔پچھلے 77 سالوں سے بھارت نے جس طرح کشمیریوں کے حقوق کو غصب کیا وہ پوری دنیا پر عیاں ہے سب سے بڑی جمہوریت کا ڈھونگ رچانے والے ہندوستان نے کشمیریوں کی آزادی سلب کرکے وادی کشمیر کو جیل بنا دیا۔ ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کردیا گیا ماورائے عدالت قتل اور ہزاروں کشمیری آج بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔یوم یکجہتی ,یوم سیاہ ،یوم استحکام اور یوم حق اداریت ہی نہیں ہر دن کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کا دن ہے یہ دن صرف علامتی طور پر ہی نہیں منائے جاتے بلکہ ان کے منانے کا مقصد مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر ط اور کشمیریوں کی آزادی کے لیے جاری جدوجہد سے آگاہ کرنا ہے مگراب آزاد کشمیر اور پاکستان کی حکومتوں کو آگے بڑھنا ہوگا اور اس امر پر غور کرنا ہوگا کہ 77 برس گزرنے کے بعد مسئلہ کشمیر جوں کا توں ہے بلکہ آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد کشمیریوں سے ان کی نیم خود مختاری بھی چھین لی گئی اور ان پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے۔ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی اس لیے بھی ضروری ہے کہ طویل عرصے سے انہیں اظہار رائے کی آزادی نہیں انہیں بولنے کا حق نہیں دیا جا رہا پاکستان اور کشمیر کے عوام یہ دن اس وقت تک مناتے رہیں گے جب تک کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع نہیں ہوگا کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن ان کی بے بسی اور ان پر مظالم کو اجاگر کر کے ان کی نمائندگی کرنے کا دن ہے۔بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے میں ناکام رہا ہے اس کا کشمیریوں کو حق خودداریت دینے سے انکار پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے پاکستان تنازع کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے لیے کشمیریوں کی اخلاقی سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے بھارت کے ناجائز قبضہ اور ظالمانہ سلوک کے باوجود اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے جنوبی ایشیا میں ترقی خوشحالی اور پائیدار امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل نہیں کیا جاتا کشمیروں کوحق خودداریت دینے سے مسلسل انکار غلط اور غیر قانونی عمل ہے بھارت کا سفارتی دوغلا پن یا ریاستی دہشت گردی اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتی عالمی دنیا کشمیریوں کو حق خوداریت دلوانے کیلئے بھارت پر دبا ڈالے۔اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق حق خودارادیت وہ بنیادی انسانی حق ہے جس کے مطابق اقوام عالم کسی دبا، شرط اور پابندی کے بغیر اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کر سکتی ہیں. اقوام کے سیاسی مستقبل سے متعلق اس فطری حق کو نہ تو محدود کیا جا سکتا نہ ہی مشروط,, مگر بھارتی حکومت کشمیریوں کو یہ بنیادی حق دینے کو تیار نہیں اگرچہ بھارت 1948 میں اقوام متحدہ میں کشمیریوں کا یہ حق تسلیم کر چکا ہے۔کشمیریوں کو آزادی کیلئے بھرپور مزاحمتی تحریک کے ذریعے عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنا ہوگی ۔کشمیر میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر ونفوذ کو روکنا ہوگا بھارت ریاست کی ڈیموگرافی بدل رہا ہے اور وہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کروا کر یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے مگر کشمیری اپنی آزادی پر کسی سمجھوتے پر تیار نہیں ہوں گے آنہیں نئےجذبے سے جدوجہد آزادی کو تیز تر کرنا ہو گا اور کشمیر کو بھارت کے نوکیلے دانتوں سے آزاد کرانا ہو گا مذمتوں اور بد دعاں سے آگے بڑھ کر وطن کی آزادی کے لیے حقائق سامنے رکھ کر ٹھوس حکمت عملی اپنانا ہوگی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور کشمیر کے لوگوں کو اپنے حق کی یہ جنگ خود لڑنی ہے کیونکہ اس وقت سلامتی کونسل بھی کشمیر کی آزادی کی حمایت پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ جلد وہ وقت ائے گا جب کشمیر کے عوام یہ کہہ سکیں گے کہ ہم ایک آزاد ملک کے باشندے ہیں۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے خاتمہ کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں سخت تنا آیا اور سفارتی سطح پر تعلقات کم ہوئے اس واقعے کو 5 سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پہلی سطح پر نہیں آ سکے دوسری طرف بھارت نے اس سٹیٹس کو صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ تنازع کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں مگر جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بالآخر فریقین کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے ۔ تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے بھی پاکستان اور بھارت کو بات چیت کرنا ہوگی مسلہ کشمیر کا حل صرف اسی صورت ممکن ہے جب دونوں ممالک مذاکرات کریں گے آرٹیکل 370 کی بحالی کا راستہ مذاکرات کے ذریعے ہی نکالا جا سکتا ہے یا پھر کوئی اور متبادل طریقہ اختیار کیا جائےاس وقت کوئی عالمی طاقت بھی ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں جبکہ سلامتی کونسل کشمیروں کو حق دلانے میں مکمل طور پر ناکام ہے اس حوالے سے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی بھی کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے گزشتہ برس بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کیلئے اسلام آباد آئے تو توقع کی جا رہی تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان تناو میں کمی واقع ہو گی مگر کوئی بریک تھرو نہ ہوا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے