کالم

حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو

اردو ادب کے شعلہ نگار مصنف شوکت صدیقی کے ہفت روزہ الفتح میں شائع ہونے والے مضامین اور اداریوں پر مشتمل کتاب ‘جہد قلم ‘ شائع ہو کر ڈاکٹر انوار احمد صاحب کے پاس مملکت ملتان کے دارالحکومت شالیمار کالونی میں پہنچی تو جیسا کہ ان کا دستور ہے ،کہ فوراً اپنی خوشی، اپنے تحیئر اور اپنے خواب و خیال میں اپنے دوستوں ، پیار کرنےوالے شاگردوں اور نذر نیاز کے خواستگار مریدوں کو فی الفور شامل کر لیتے ہیں۔چونکہ وہ اپنی خوشی ، اپنی دلچسپی اور اپنی محبت کو چھپانے پر یقین نہیں رکھتے، لہٰذا جونہی یہ کتاب شائع ہو کر مملکت ملتان پہنچی تو ڈاکٹر صاحب نے اس کا مختصر سا تعارف لکھ کر یہ اطلاع ارزاں کر دی تھی کہ ؛ خدا کی بستی والے شوکت صدیقی کے بیٹے شہاب صدیقی کی لگن اور اخلاص اس کتاب کی اشاعت میں شامل ہے، اس لئے آنےوالے ایک ماہ میں میرے گھر آنےوالوں کو احتیاط کرنی چاہیئے کہ دو ہزار روپے کی یہ کتاب ایک ہزار روپے میں پیش کروں گا بجائے چائے کے“مجھے ڈاکٹر صاحب کی اس تنبیہ پر ڈاکٹر صاحب کے گھر حاضر ہونے والے اہل ملتان و قرب جوار کے ردعمل اور مخفی احساسات کا تو کوئی پیشگی اندازہ نہیں ہو سکا، لیکن یہ اندازہ ہو گیا کہ ڈاکٹر صاحب کے زیر تحویل کتب چند روز میں اپنے اپنے مقام پر پہنچ جائیں گی۔ اسی خدشے کے پیش نظر میں نے فوری طور پر گذارش کی کہ؛ ایک ہزار کی قیمت تو گھر پر حاضر ہونے والوں کےلئے ہے، جو لوگ( مثلاً میں خود) اسلام آباد میں بیٹھ کر اس کتاب کو للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں ،انہیں تو آپ اس کتاب کو حب الوطنی اور اخوت اسلامیہ نیز خیر وبرکت کی وجہ سے ٹی سی ایس کردیں ۔ہاں پوسٹ کرنے سے پہلے میرا نیا پوسٹل ایڈریس معلوم کر لیجیے گا۔ڈاکٹر صاحب نے فی الفور میرا نیا پتہ معلوم کر کے کتاب ازراہ محبت اور بوجہ حب الوطنی و اخوت اسلامیہ ؛ ٹی سی ایس جیسے برق رفتار قاصد کے ذریعے مجھ تک پہنچا دی۔کتاب دیکھ کر ڈاکٹر صاحب کی دریا دلی، خاص توجہ اور بے پایاں التفات کےلئے دل سے دعا نکلی۔امر واقعہ یہ ہے کہ؛ ڈاکٹر انوار احمد صاحب کی ساری کتابیں، رسالہ پیلہوں کے سارے شمارے اور سال ہا سال پر پھیلی توجہ اور محبت مجھے ہمیشہ مفت میں ملتی رہی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی بعض کتابوں کے ایک سے زیادہ نسخے بھی عنایت کیے ، کہ میرے طالب علم یا دوست احباب میں سے کوئی خریدنا چاہیں تو خرید لیں ،تاکہ حاصل ہونے والی رقم اس مقصد پر خرچ کی جا سکے جس کی تکمیل کےلئے یہ کتب شائع کی جاتی تھیں۔پر یہاں اسلام آباد میں کتاب خریدنے سے زیادہ کتاب اٹھانے والے ، کتاب اڑانے والے اور کتاب ہتھیانے والے کثرت سے پائے جاتے ہیں،تو دوست احباب تو یہ کہہ کر کتاب لے جاتے تھے کہ”تیرے کول تے ہور وی پیاں ہویاں نیں“ یعنی تمہارے پاس تو اور بھی پڑی ہوئی ہیں۔ رہ گئے طلب علم تو وہ والے طالب علم اسلام آباد میں نہیں پائے جاتے، جو ملتان ، بہاولپور اور گرد ونواح کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔میں ضمنی طور پر اس بات پر بھی حیران ہوتا رہتا ہوں کہ عشق و محبت کی مقامی داستانیں تو وسطی پنجاب سے تعلق رکھتی ہیں ،جبکہ عشق و محبت کے سارے رویے، اور ساری کی ساری قابلیت و صلاحیت جنوبی پنجاب میں ارزاں نظر آتی ہے۔شاید ایک وجہ یہ بھی ہو کہ؛ استاد سے محبت کرنے والے،استاد کا احترام کرنے والے ، استاد کو اپنا آئیڈیل بنانے اور ماننے والے طالب علم ملتان ، بہاولپور اور متصل و متعلق علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔میں نے کئی بار ملتان اور بہاولپور کے دوستوں سے پوچھا بھی کہ یار اتنے اچھے ، تابعدار ، مودب اور مہذب طالب علم کہاں سے مل جاتے ہیں؟ سبھوں کا جواب ایک ہنسی یا قہقہہ ہوا کرتا تھا۔ایک ستم ظریف دوست نے بس یہ کہا تھا کہ ؛ ڈاکٹر صاحب دور سے ایسا ہی نظر آتا ہے ،اور بعض صورتوں میں ایسی محبت دوطرفہ فریب کے سوا کچھ اور نہیں ہوتی، لہٰذا اس حوالے سے ابن انشا کا یہ مصرع ذہن میں رکھا کریں کہ؛ یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں،یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں۔ جہد قلم میں الفتح میں شائع ہونےوالے مضامین اور اداریوں کا عرصہ تحریر ستر کی دھائی کے چھ سات سال ہیں۔یہ میرے ہائی اسکول کا زمانہ ہے۔ خبر و نظر کے ذرائع محدود تھے ۔کوئی عقل مت بھی بہت زیادہ نہیں ہوتی تھی(خیر یہ کیفیت تو اب بھی ہے)ہاں ایشیا سرخ ہے ، نہیں نہیں ؛ ایشیا سبز ہے کے نعرے سنائی دیتے تھے ۔ کوئی سرخا قرار دیا جاتا تھا تو کسی کو ”پسندہ“پکارا جاتا ۔ ان نعروں کے شور نے یہ حقیقت سے پاکستانیوں سے چھپا رکھی تھی کہ؛ ان کا اپنا ”ایشیا“نہ سرخ ہے اور نہ سبز ،وہ مسلسل خاکستری رنگ میں رنگا جا رہا تھا۔ اس پس منظر میں ؛اب آکر شوکت صدیقی کے جہد قلم نے اس دور کی حقیقی خبر اور اصلی نظر اکیسویں صدی کے ذہنوں کےلئے ارزاں کر دی ہے ۔ کتاب جہد قلم کے مشمولات کی فہرست پڑھ کر تو میرا ”تراہ“ہی نکل گیا ہے۔ ستر کی دھائی کے مقبول اور محبوب ہفت روزہ الفتح کے مضامین اور اداریوں نے مطالعہ پاکستان کی ساری کتابوں کا جمایا اور پھیلایا رنگ تحلیل کر کے رکھ دیا ہے۔ان مضامین اور اداریوں میں ان تمام مناظر اور منصوبوں کی کہانی بہ انداز دیگر اور بہ زبان قلم بیان کر دی گئی ہے،جنہوں نے ایک فلاحی، ترقی پسند اور روشن خیال معاشرے اور ملک کے تصور کو عامتہ الناس کے دل و دماغ سے کھرچ کر رکھ دینے کی کوشش کی تھی۔ دراصل ؛جہد قلم عنوان کی یہ کتاب ہتھیار کے مقابلے میں قلم کے ذریعے کی گئی جدوجہد کی کہانی ہے۔جہد قلم کے حصہ مضامین میں شوکت صدیقی کے چھتیس منتخب مضمون شامل کئے ہیں ۔ان مضامین کے مطالعے سے ستر کی دھائی کے نصف اول کی اجتماعی ذہنی فضا کا نقشہ مرتب ہو کر سامنے آجاتاہے ۔بین الاقوامی سطح پر ہمارے خطے (اور ملک) میں امریکہ کے متجاوز کردار پر روشنی ڈالتے مضامین ؛جیسے قتل گاہ انڈونیشیا ۔سوئیکارنو کے خلاف سازش میں کس کا ہاتھ تھا؟ ، امریکہ کے آلہ کار جنرلوں نے کس طرح سوئیکارنو کا تختہ الٹا، پاکستان کےخلاف امریکہ اور بھارت کی نئی سازش، پیپسی کولا کی ایجنسی کو معرکہ حق و باطل قرار دے دیا گیا ،لنپیاو نے چو این لائی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا؟ یوٹو کی پرواز کا خفیہ معاہدہ ، موت کے سائے میں انقلاب : ماو سے ملاقات جیسے مضامین اس دور میں پاکستان کی دلچسپی کے بین الاقوامی واقعات کو ان کے نتائج و عواقب سمیت پیش کرتے نظر آتے ہیں ۔ دراصل اس ریاست کو امریکہ نے شروع دن سے اپنے زیر استعمال رکھا۔لہٰذا یہاں نہ قوم بنائی جا سکی ،نہ قومی فوج ۔ یہاں نوآبادیاتی عسکری نظام بہ دستور چلتا رہا اور گاہے ملک کو چلاتا بھی رہا۔ ریاست کے اقتدار اعلیٰ کو خدا سے منسوب قرار دے کر کچھ اس طرح ملفوف کرنے کی کوشش کی گئی کہ کسی طور یہ نظر نہ آ سکے کہ یہاں”خدا“کے پردے میں خود امریکہ براجمان ہے ۔جبکہ یہاں پر رائل برٹش آرمی کے تیار کردہ جرنیل اپنے اپنے وقت کے لات، منات اور ہبل کر اپنی باری پوری کرتے رہے۔ اس سارے عملی بندوبست کو نظری بنیادیں فراہم کرنے کیلئے مذہب کو سرمہ نور بصرکے طور استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا۔جماعت اسلامی کی صورت میں ڈھانچہ دستیاب تھا۔لہٰذا وہی استعمال ہوا ۔اس حوالے سے شوکت صدیقی کے مضامین مودودی صاحب کے بلند بانگ دعوے اور ان کی حقیقت ، جماعت اسلامی کی آخری پناہ گاہ، علمائے سو اور علمائے حق، جاگیرداری نظام کا نیا نام۔اسلامی نظام،سیاست دائیں اور بائیں بازو کی،بلے بلے: عوام کی طبقاتی جدو جہد کے خلاف منظم سازش، گیارہ مارچ کو کیا ہونے والا تھا، اختلافات اور مذاکرات ،اسمبلی کی سیاست ،جیل کی سیاست اور بھٹو کو پھانسی دی گئی تو کیا ہوگا؟ جیسے مضامین اس عشرے میں پاکستانی ریاست اور طرز سیاست کا حقیقی نقشہ پیش کرتے ہیں ۔ ایسی تفصیلات کا علم؛ مطالعہ پاکستان کے نہیں ، پاکستان کے طالب علموں کےلئے ایک انمول خزانے کا درجہ رکھتا ہے۔ یہی وہ دور ہے جب جنرل یحییٰ خان ، ان کے وزیر اطلاعات جنرل شیر خان، اور ہماری تاریخ کے سیاہ ترین کردار جنرلز پر ہوش ربا تفصیلات کے حامل مضامین الفتح میں شائع ہوئے بھی۔، مثلا، یحییٰ خان کہتے ہیں : میں مجرم ہوں تو گولی مار دو، ڈاکٹر مالک استعفی دینے کے بعد روتے روتے بے ہوش ہو گئے، جنرل نیازی اور شیریں قادر، خسر اور بہو دونوں اسمگلر،مشرقی پاکستان کا المیہ ، خارجہ پالیسی کا المیہ۔آج اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ذرایع ابلاغ کو اتنی سی آزادی بھی حاصل نہیں ہے۔انہی مضامین میں چند بڑے خاص ہیں ،جیسے ایک مضمون فیض کوفہ میں،اسی طرح ادبی جعل سازوں کی دستاویز بھی دلچسپ مضمون ہے۔اسے پڑھ کر یہ یقین پختہ ہو گیا ہے کہ ہمارے ہاں سب سے بڑا بحران”گناہ تازہ تر“کا بحران ہے ۔یہاں کئے گئے گناہ ہی دھراتے رہنا "ادب” شمار کیا جاتا ہے۔الفتح میں شامل بیس اداریے بھی شامل ہیں ان اداریوں کے مشمولات بھی اسی ذہنی فضا اور ملکی انتشار و خلفشار کی تصویر کشی کرتے ہیں ،جن کا ذکر مضامین کی ذیل میں ہوا۔ جہد قلم عنوان کی یہ کتاب ہتھیار کے مقابلے میں قلم کے ذریعے کی گئی جدوجہد کی کہانی ہے۔ ہتھیار صرف مٹانے اور برباد کرنے کے کام آتے ہیں ،جبکہ قلم بناتا اور تعمیر کرتا ہے۔شوکت صدیقی کے قلم نے ہماری تاریخ کے اہم ترین دور کے مباحث کو ہمارے لیے محفوظ کر دیا ہے۔ یہ کتاب اس متجسس نسل کےلئے ہے، جسے واقعات سے بے خبر رکھ کر ان کے تجزیے کی لذت سے محروم رکھا گیا تھا۔ شوکت صدیقی کی ان تحریروں کے تاثر اور تاثیر نے فیض احمد فیض کی معنی خیز اور نکتہ رس آواز کی طرف متوجہ کر دیا ہے:
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے
حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے