گلگت بلتستان کے خوبصورت مقام نلتر کے ہل ٹاپ ریسٹورنٹ میں محفل یاراں کے ایک ایسے نوجوان بزرگوں پر مشتمل گروپ سے ملاقات ہوئی جو ہمارے معاشرے میں ایک مثال ہیں صحت تندرستی اور مثالی سیاحت کے حوالہ سے گوجرانولہ سے تعلق رکھنے والا یہ خوبصورت پھولوں کا گلدستہ اس وقت 5ممبران پر مشتمل ہیں جو پہلے11ممبران پر مشتمل تھا جن میں شیخ عابد صدیق ،شیخ ساجد صدیق ،شیخ ماجد صدیق ،شیخ غلام سرور اور علامہ شیخ امتیاز حسین شامل ہیں ان افراد نے 1977میں سیروتفریح کا آغاز کیا جو اب تک جاری ہے حکومت کو چاہیے انہیں اور ان جیسے افراد کو سیاحت کا سفیر مقرر کیا جائے دنیا بھر کا چکر لگانے والے ان افراد کا کہنا تھا کہ دنیا کا خوبصورت ترین ملک پاکستان ہے سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہاں تک لوگوں کی رسائی نہیں ہے لیکن اب صورتحال اس حوالہ سے مختلف ہے کہ نئی اور خوبصورت سڑکیں بن چکی ہیں اور لوگوں نے آنا جانا شروع کردیا ہے مگر اسکے باجود یہ مقام جہاں پر ہم موجود ہیں یہاں موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ جیسی اہم سہولت موجود نہیں ہے سیاحت کے دلدادہ اس گروپ کے صدر شیخ غلام سرور ہیں جو اپنے گروپ کو متحرک رکھتے ہیں نلتر کی خوبصورتی میں اس وقت مزید اضافہ ہوجاتا ہے جب یہاں کے خوبصورت لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے نلتر میں جو سب سے خوبصورت مقام ہے اسی جگہ پر ایک دل کو موہ لینے والے نظاروں کے درمیان ہل ٹاپ ریسٹورنٹ اپنا ہی ایک مقام رکھتا ہے جہاں سے پوری وادی کانظارہ کیا جاسکتا ہے اس ہوٹل کے روح رواں اجمل حسین بھی خوبصورت اور نفیس انسان ہیں جو بھی ان سے ایک بار مل لیتا ہے وہ پھر انہی کا ہو رہتا ہے خوش اخلاق اور سیاحوں کی خدمت کرنے والے ایسے ہی افراد کی وجہ سے ان خوبصورت علاقوں کی خوبصورتی کو چار چاند لگے ہوئے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ گلگت بلتستان میں سیاحت کی ترقی کے حوالے سے سابق چیف سیکرٹری جناب محی الدین وانی نے انتہائی خوبصورت کام کیے ایسے ایسے مقامات پر سڑکیں بنوا دیں جہاں جانے کا تصور بھی نہیںکیا جاسکتا تھا اس وقت گلگت بلتستان کے سیکریٹری ٹور ازم ضمیر عباس بھی سیاحت کو فرغ دینے میں ایک مثالی کردار ادا کرنے میں مصروف ہیں میں اس وقت نلتر میں موجود ہوں یہاں پر میرا یہ تیسرا چکر ہے پہلی بار ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری نشرواشاعت مظاہر شگری کے ساتھ اس علاقوں کو دیکھا تھا دوسری بار اپنے سیاحت کے ہم سفر وں طارق علی جٹھول ایڈوکیٹ اور چوہدری ماجد سندھو کے ساتھ نلتر کا چکر لگا اور اب پھر ہم گزشتہ دو دن سے نلتر میں ہی موجود ہیں ہم جانے کا نام لیتے ہیں تو تجمل حسین پیار سے پھر روک لیتا ہے وادی نلتر جتنی وبصورت ہے اتنے ہی یہاں کے لوگ پیارے اور پیار کرنے والے ہیں وادی نلتر ایسا خوبصورت سیاحتی مقام ہے جہاں سے حکومت اربوں روپے کما سکتی ہے لیکن اس کےلئے حکمرانوں کو سنجیدگی سے سوچنا پڑے گاصرف ایک نلتر ہی نہیں بلکہ پورا گلگت بلتستان ہی دنیا سے ایک الگ درجہ رکھتا ہے جو اپنی خوبصورتی میں تو مثالی ہے ہی ساتھ میں حسن اخلاق کا بھی نمونہ ہے یہاں چوری ہوتی ہے نہ ڈکیتی اور نہ ہی یہاں کے لوگ فراڈیے اور چکر باز ہیں یہاں کی پولیس بھی مثالی ہے لیکن اس بار میں نے دیکھا ہے کہ گلگت بلتستان کی پولیس میں بھی کچھ حرکات پنجاب اور سند ھ پولیس سے ملنا شروع ہوگئی ہیں خاص کر پنجاب سے آنے والی گاڑیوں کی نمبر پلیٹ دیکھ کر انہیں روکنا اور پھر سامان کی تلاشی لینا یہ وہ کام ہیںجو سیاحت کے شعبہ پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں حالانکہ ان علاقوں کاروزگار ہی پنجاب کے سیاح ہیں اس لیے گلگت بلتستان کی پولیس ا پنی پرانی روایت پرہی عمل کرے تو انکے اخلاق کی مزیدتعریفیں ہونگی خیر میں بات کررہا تھا نلتر کی جو گلگت بلتستان شہر گلگت سے تقریباً 34 کلومیٹر (21 میل) کے فاصلے پر واقع ہے یہ ایک جنگلاتی علاقہ ہے جو اس کی تین جھیلوں، اسٹرانگی جھیل، نیلی جھیل اور بودلوک جھیل کے ساتھ ساتھ پہاڑی نظاروں کی وجہ سے مشہور ہے وادی میں نلتر بالا (اوپری) اور نلتر پائین (نیچے) بستیاں ہیں نلتر ایکسپریس وے نمل اور فیض آباد کے راستے نلتر کو گلگت سے جوڑتا ہے جبکہ نومل سے ایک سڑک ‘سلک روٹ’ سے ہوتی ہوئی چین کو جاتی ہے بجلی اس علاقے کی اپنی ہے نلتر ہائیڈرو پاور پروجیکٹس (نلتر I، II، اور IV، کل 3.02 میگاواٹ) کے علاوہ، حکومت نے علاقے کی توانائی کو پورا کرنے کےلئے نلتر پائن کے قریب 18 میگاواٹ کا ایک ہائیڈرو پاور پلانٹ بھی بنایاہوا ہے جسے نلتر ہائیڈرو پاور پلانٹ-IV کہا جاتا ہے جوکتوبر 2007 سے کام کر رہا ہے نلتر جنگلی حیات کی پناہ گاہ کا ایک محفوظ علاقہ ہے جو 22 نومبر 1975 کو قائم کیا گیا تھا یہ پناہ گاہ درختوں سے ڈھکی ہوئی ہے جس میں اونچی بلندی پر مخروطی جنگلات ہیں اس علاقے میں الپائن آئی بیکس، برفانی چیتے، بھورا ریچھ، سرمئی بھیڑیا، سرخ لومڑی، بیچ مارٹن اور برفانی چیتے قابل ذکر ہیں وادی میں پرندوں کی تقریباً 35 اقسام ریکارڈ کی گئی ہیں یہاں پر جھیلیں بھی بہت خوبصورت ہیں ان جھیلوں میںنلتر، سترنگی ، حلیمہ ، بوڈو ،دھودیا ، پاری اور نیلی جھیلیں ہیں جو نلتر بالا سے 13 کلومیٹر (8 میل) کے فاصلے پر واقع ہیں سردیوں میں اس علاقے کی سڑک پر برف (10 سے 15 فٹ اونچی) ہونے کی وجہ سے کسی بھی گاڑی کے ذریعے جھیل تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہے یہ وادی مختلف قسم کے نباتات، حیوانات کے ساتھ ساتھ قدرتی مناظر بھی بھر پور ہے یہاں ایک قدرتی سبز باغ ہے جسے ”حلیمہ باغ” کہا جاتا ہے۔ حکومت نے وادی میں ریسٹ ہا¶سزبھی بنا رکھے ہیں جس میں GBPWD ریسٹ ہا¶س وادی کا سب سے پرانا ریسٹ ہا¶س ہے جبکہ ایف سی این اے، جی بی اسکا¶ٹس اور پی اے ایف کے اپنے ریسٹ ہا¶س ہیں اس علاقے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے کھیل کے میدان میں میڈل جیت رکھے ہیں ان میں محمد عباس وینکوور اولمپئن ،آمنہ ولی جنوبی ایشیائی سرمائی کھیلوں میں چاندی کا تمغہ جیتنے والی اورافرا ولی جنوبی ایشیائی سرمائی کھیلوں میں گولڈ میڈلسٹ شامل ہیں اس علاقے کے نوجوانوں کو حکومت سہولت فراہم کرے تو یہ لوگ ہر میدان میں گولڈ میڈل لے سکتے ہیں یہ صرف ایک نلتر کے جوانوں کا کمال نہیں بلکہ پورے پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے اگر کمی ہے تو ہمارے حکمرانوں کے وژن میں کمی ہے جو دن بدن ملک کو آگے لے جانے کی بجائے پیچھے لیکر جارہے ہیں کاش کوئی تو سمجھے کہ پاکستان غریب ،مجبور اور مفلس لوگوں کا بھی ہے جن سے جینے کا حق چھینا جارہا ہے ۔