حضرت علی نے اپنے دور حکومت میں بہت سے بحرانوں کے باوجود سیاسی، معاشی، سماجی اور تعلیمی میدانوں سمیت ہر شعبہ میں جو اقدامات اور اصلاحات کیں وہ تمام ادوار اور تمام نظام ہائے حکومت کیلئے نمونہ عمل ہیں۔آج اگر ہم عادلانہ نظام کی بات کرتے ہیں تو ہمارے سامنے حضرت علی کی عادلانہ حکومت کے بے شمار نمونے موجود ہیں۔وہ ایک ہی وقت میں الٰہی اور جمہوری عہدے کا حامل ہونے کی وجہ سے اپنا منفرد اور ممتاز مقام رکھتے تھے لیکن عاجزی کا ایک انداز ان کے اپنے فرمان میں ہے کہ” میں امیرالمومنین کہلانے کا حقدار نہیں بن سکتا جب تک عوام کے دکھ درد میں برابر کا شریک نہ بن سکوں”۔ یہی وجہ ہے کہ بر سر اقتدار آنے کے بعد آپ نے کوئی امتیازی رویہ نہیں اپنایا اور کسی قسم کی روایات کی رسم نہیں ڈالی بلکہ میرٹ اور شفافیت کے رہنما اصول پیش کئے۔ وہ گڈگورننس قائم کرتے وقت اپنی ذات پر قوم کو ترجیح دیتے اور انصاف کا قیام کسی مصلحت کے بغیر کرتے۔ آپ نے اپنی حکمرانی میں عدل قائم کرتے ہوئے قومی خزانے سے ہر شخص کو مساوی مواقع فراہم کرنے کا اصول سختی سے متعارف کرایا۔ لوٹی ہوئی دولت کو ہر صورت میں واپس کرنے کے احتسابی عمل کی بنیاد رکھی۔ قومی خزانے اور بیت المال کو اس انداز میں صرف کیا کہ ہر شخص بلاامتیاز استفادہ کر سکے۔آپ نے کسی کو لوٹ مار اور بد عنوانی کی اجازت نہ دی۔ اسی سلسلے میں آپ کا مشہور فرمان ہے کہ” اگر مجھے پتا چل جائے کہ لوٹی ہوئی قومی دولت کئی ہاتھوں تک منتقل ہو چکی ہے تو اس کو تب بھی واپس قومی خزانے میں لائوں گا”۔ امیرالمومنین نے بیت المال سے اپنے بھائی کو حصہ دینے کے بعد اپنے بھتیجوں کے خشک چہروں کو دیکھنے کے باوجود بقیہ مال قومی خزانے میں لا کر اقرباپروری کو پائوں تلے روندنے کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ آئین و قانون کی پابندی کرنے والے عمال حکومت کو برطرف کرنا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ آپ کو اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے اور طول دینے کی فکر نہ تھی۔ دور حاضر میں جس تصور کی بنیاد پر آپ نے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں انتہائی اہم، حساس اور دور رس اقدامات کئے اور زندگی کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور عمومی اخلاقی میدان میں جو نقوش چھوڑے ہیں ان کے مطالعے کی ضرورت ہے تا کہ ان کے اقدامات کی روشنی میں گھمبیر معاشرتی مسائل کا عصری تقاضوں کے مطابق حل نکالا جا سکے۔ حضرت علی کرم ا ﷲ وجہہ نے اپنے دور خلافت میں حضرت مالک بن الحارث اشتر کو صوبہ مصر کا گورنر مقرر کیا، اس وقت ان کے نام ایک تاریخی خط لکھا جو آج بھی نہائت قیمتی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے اور خط میں گڈ گورننس کے بارے میں ارسال کردہ ہدایات آج کے دور کے حکمرانوں کیلئے مشعل راہ ہیں۔ آنجناب کے بنائے ہوئے دستور پر عمل کر کے اس جدید دور میں بھی صاحب اختیار و اقتدار نہ صرف اپنی منزل حاصل کر سکتے ہیں بلکہ دین و د نیا میں سرخرو بھی ہو سکتے ہیں۔ آج جب عالم اسلام ایک کرب واضطراب سے دوچار ہے۔مسلم امہ اپنی اصل سے بھٹک گئی ہے اور” مغرب کے صنم خانوں” میں چین و سکون تلاش کر رہی ہے۔ آج جب عالم اسام کو ہنود و یہود کی لا تعداد ان دیکھی سازشوں کا سامنا ہے، مسلم ممالک میں انتشار و فساد پیدا کرنے کی سازش کی جا رہی ہے اوراس میں نادانستہ طور پر بہت سے اپنے ممالک بھی آلہ کار بنائے جا رہے ہیں، بڑی طاقت اپنی مرضی مسلط کر رہی ہے۔ بڑے بوڑھوں کا کہنا ہے کہ جب ایک غلط کام ہو جائے تو اسے درست ثابت کرنے کیلئے اور بھی غلط کام کرنے پڑتے ہیں۔ایسی ہی صورت حال سے اب ملک کو گزرنا پڑ رہا ہے۔ایسے حالات میں امیر المومنین حضرت علی کا خط روشنی کا مینارہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جناب امیرالمومنین کا ارشاد ہے! ” اورحکم دیا ہے کہ اﷲکی نصرت میں اپنے دل سے، اپنے ہاتھ سے، اپنی زبان سے سر گرم رہو کیونکہ خدائے بزرگ و برتر نے ذمہ لیا ہے کہ جو کوئی اس کی نصرت و تائید پر کھڑا ہو گا ، اسے نصرت وتائید خداوندی حاصل رہے گی۔ مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ” خبردار رعایا سے کبھی نہ کہنا کہ میں تمہارا حاکم بنا دیا گیا ہوں” اب میں ہی سب کچھ ہوں۔ سب کو میری تابعداری کرنی چاہیے۔ اس ذہنیت سے دل میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ دین میں کمزوری آتی ہے۔ بربادی کیلئے بلاوا آتا ہے۔ اور اگر حکومت کیلئے غرور پیدا ہونے لگے تو سب سے بڑے بادشاہ، خدا کی طرف دیکھنا جو تمہارے اوپر ہے اور تم وہ قدرت رکھتا ہے۔ جو تم بھی اپنے آپ پر نہیں رکھتے۔ ایسا کرو گے تو نفس کی طغیانی کم ہو جائے گی۔ حدت گھٹ جائے گی۔ بھٹکی ہوئی روح لوٹ آئے گی۔ خبردار! خدا کے ساتھ اس کی عظمت میں بازی نہ لگانا۔ اس کی جبروت میں تشبیہہ اختیار نہ کرنا کیونکہ وہ جباروں کو ذلیل کر ڈالتا ہے اور مغروروں کو نیچا دکھا دیتا ہے۔” یاد رکھو جو کوئی خدا کے بندوں پر ظلم کرتا ہے تو خدا خود اپنے مظلوم بندوں کی طرف سے ظالم کا حریف بن جاتا ہے اور معلوم ہے کہ خدا جس کا حریف بن جائے اس کی حجت باطل ہو جاتی ہے اور وہ خدا سے لڑائی کرنے کا مجرم ہوتا ہے، یہاں تک کہ باز آجائے اور توبہ کر لے خدا کی نعمت کو اس بڑھ کر بدلنے والی اور خدا کی عقوبت کو اس سے زیادہ بلانے والی کوئی چیز نہیں کہ آدمی ظلم اختیار کرے۔ یاد رہے خدا مظلوموں کی سنتا اور ظالموں کی تاک میں رہتا ہے۔ تمہیں سب سے زیادہ پسند وہ راہ ہونا چاہیے جو حق کے لحاظ سے سب سے زیادہ درمیانی، انصاف کی روح سے سب سے زیادہ عام اور رعایا کو سب سے زیادہ رضامند کرنے والی ہو” اور آخر میں یہ ارشاد کہ یہ بھی یاد رہے کہ خاص الخاص لوگوں میں وہی تمہاری نگاہ میں سب زیادہ مقبول ہوں جو زیادہ سے زیادہ کڑوی بات تم سے کر سکتے ہوں اور ان باتوں میں تمہارا ساتھ دینے سے انکار کر سکتے ہوں جو خدا اپنے بندوں کیلئے نا پسند فرما چکا ہے۔ خبردار! ناحق خون نہ بہانا کیونکہ خونریزی سے بڑھ کر بد انجام، نعمت کا ڈھانے والا، موت کو ختم کرنے والا کوئی کام نہیں۔ قیامت کے دن جب خدا کا دربار عدالت لگے گا تو سب سے پہلے خون ناحق کے مقدمے ہی پیش ہوں گے اور خدا فیصلہ کریگا۔ یاد رکھو کہ خونریزی سے حکومت طاقتور نہیں ہوتی بلکہ کمزور پڑ کر مٹ جاتی ہے۔ خبردار! خود پسندی کا شکار نہ ہو جا نا۔ نفس کی جو بات پسند آئے اس پر بھروسہ کرنا۔ خوشامد پسندی سے بچنا کیونکہ شیطان کیلئے یہ زریں موقع ہوتا ہے کہ نیکو کاروں کی نیکیوں پر پانی پھیر دے۔