کالم

حکمران عدالتیں اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتے ہیں

اس کائنات و زمین پر اس سے بڑھ کر جہالت اور حماقت کوئی نہیں کہ سوائے پیغمبروں کے ، پاک ہستیوں کے کوئی انسان خواہ مخواہ ہی خود کو عقلِ کل سمجھنے لگے بلکہ دوسروں کو بھی یہ بتلانے ، جتلانے ، سمجھانے اور منوانے لگے کہ بس میں ہی ایک عقلِ کل ہوں اور اس سے بھی بڑھ کر ظلم و جہالت و نااہلی کی انتہا یہ ہے کہ سماج کی ایک اکثریت کسی عقل کے اندھے کو عقلِ کل جاننا اور ماننا شروع ہو جائے اور اس کے ارشادات کی روشنی میں چلنے کا چلن بھی بنا ڈالے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے اور دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ مجھے ان جمہوریت پسندوں کی یہ سوچ آج تک سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ سیاستدان ہو کر سیاستدانوں کےساتھ بیٹھ کر بات تک نہیں کر سکتے اور اعلانیہ اداروں کو دعوت دے رہے ہیں کہ آپ بلائیں اور ہم سے مذاکرات تو کریں پلیز آپ ہم سے کوئی بات تو کریں ۔ ایک سابق وزیراعظم اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت کی خود ہی دعوت دے کر بھلا کیسے بڑا لیڈر اور کوئی فکری و جمہوری رہنما کہلا سکتا ہے ۔جناب عمر ایوب کے دادا حضور سابق صدر و جنرل مرحوم ایوب خان نے مولانا مودودی جی رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ آج تک میری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ آخر سیاست کا اسلام سے کیا تعلق ہے۔؟ مولانا مودودی رحم اللہ علیہ نے برملا جواب دیا کہ یہ تو صرف آپ کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے نا لیکن پوری قوم کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا ہے کہ آخر فوج کا سیاست سے کیا تعلق ہے۔؟ جنرل ایوب خان خاموش رہ گئے اور پوری محفل زعفران زار بن گئی ۔ اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کےلئے ایوان صدر میں منعقدہ کل جماعتی کانفرنس میں تحریک انصاف کی غیر حاضری نہ صرف عوام کو بلکہ خاص و عام تمام کو انتہائی نامناسب محسوس ہوئی ہے ، پی ٹی آئی اپنے اس رویے کا قابل قبول جواز شاید کبھی بھی پیش نہیں کر پائے گی ، سبھی جماعتیں اور بالخصوص تحریک انصاف کی حلیف جماعتیں اپنے اتحادیوں کی اس عدم شرکت پر حیرت زدہ ہیں لیکن میں حیرت زدہ نہیں ہوں کیونکہ عقلِ کل جو ہوئے ، محسن بھوپالی کے الفاظ میں :
وہ عقل کل تھا بھلا کس کی مانتا محسن
خیال خام پہ پختہ یقین رکھتا تھا
فلسطینی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس میں ان کے کسی ایک بھی نابالغ اور بے عقل بندے کو شرکت کی توفیق نہ ہوئی ، اس سے لگتا یہ ہے کہ شاید تحریک انصاف کے سارے ہی اہل عقل اپنے کپتان جی پردھان منتری کی مانند عقلِ کل بنے بیٹھے ہیں ۔ ن لیگ کے مقابلے میں میرا ووٹ اور سپورٹ ہمیشہ ہی PTIکے ساتھ رہی اور شاید رہے گی بھی مگر مجھے اس بات کا دلی دکھ ہے اور رہے گا بھی کہ یہ اس قومی کانفرنس میں کیوں نہیں گئے کیونکہ میری رائے میں فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے حوالے سے پاکستان کی آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ہی نہ ہونا کسی طور پہ بھی مناسب عمل کبھی بھی نہیں ہو سکتا ۔ ہم اہل پاکستان کیا کریں ، کس کس کو روئیں ، مشکل تو یہ بنی ہوئی ہے کہ ہمیں دوسری جانب بھی تو کوئی امید نظر نہیں آتی کوئی روشنی نظر نہیں آتی ، چہار سو مایوسیاں ، محرومیاں اور تاریکیاں ہی تاریکیاں ہیں کس کو گلے لگائیں ہم اگر پکڑیں تو پکڑیں کس کو اور اگر چھوڑیں تو چھوڑیں کس کو کیونکہ حکومت سب کو اور سب کچھ فتح کرنے کے درپے ہے ۔ یہ تجربہ کار حکمران آئین و قانون و عدالتیں اپنی انگلیوں کے اشاروں پر چلانا چاہتے ہیں اور سب کچھ اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتے ہیں ، ان بادشاہ بھائیوں کا بس چلے تو ہر چیز کو اپنے پاں تلے روند ڈالیں گے ، ان بے حس اور ظالم شہنشاہوں کی یہ خواہش و کوشش ہے کہ ہر چیز کا ریموٹ کنٹرول ان کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے ۔ آئینی ترمیم کے ضمن میں معروف اینکر پرسن برادرم منصور علی خان فرماتے ہیں کہ آئینی ترمیم پر نون لیگ اور خصوصا پیپلز پارٹی کا بھی دل نہیں چاہ رہا مگر پاکستان کے نظام میں کوئی ہے جو کہہ رہا ہے کہ آپ کو کھڑا ہونا پڑے گا۔ برادرم منصور صاحب کی خدمت میں بصد ادب التماس ہے کہ پلیز آپ خود ہی اپنی اس بات کی وضاحت فرما دیں کہ آخر وہ ہے کون جو حکومت کو کہہ رہا ہے کہ آئینی ترمیم کے لیے آپ کو ضرور کھڑا ہونا پڑے گا۔؟ ان حکمرانوں کو اگر واقعی عوام نے اپنے ووٹ دے کر منتخب کیا ہے تو پھر کوئی کیسے انہیں ڈکٹیٹ کر سکتا ہے ۔ میں نے بصورت شعر کبھی کہا تھا کہ سوچ فکر پہ پہرے جو بھی سب ستم اور بے جا ہیں ۔ ایک بڑا ہی پرانا گانا یاد آ رہا ہے کہ کچھ کہہ نہ سکے کچھ کہہ بھی گئے ، کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے ۔ لاجواب و نایاب صنف سخن رباعی کے عہد موجود میں دبنگ و سر بلند استاد شاعر برادرم نصیر زندہ جی مدظلہ کے الفاظ میں :
حاکم کے سر میں کان بہرے نہ لگا
قوموں کی انا پہ زخم گہرے نہ لگا
ایسے نہ چڑھا سورج کو سولی پر
آواز جنوں پہ چپ کے پہرے نہ لگا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے