کالم

حکومت اورمسائل

ajaz-ahmed

موجودہ حکومت کو بے تحا شا مسائل درپیش ہیں ۔ ان مسائل میں ناقابل برداشت مہنگائی ، سٹیٹ بینک کی خود مختاری کا مسئلہ، 2018 سے 2022 تک قرضوں کا بے لگام بڑھوتری اور اسکا آڈٹ ، روپے اور ڈالر میں حد سے زیادہ تفاوت، بجلی گیس لوڈ شیڈنگ، سائلین کو انصاف فراہمی میں مشکلات، زراعت اور کنسٹرکشن انڈسٹری کے گھمبیر مسائل ، زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کو سمندر پار بھیجنے کے لئے مناسب حکمت عملی، نوجوانوںکالجوں یونیورسٹیوں فیسوں میں کمی کی طرف توجہ دینے کی ضرورت، عمرہ اور حج فیسوں میں بے تحاشا اضافہ اور اسکو مناسب سطح پر لانے کے لئے اقدامات، انصاف کارڈ اور لنگر خانوں کو جاری رکھنے والے اقدامات و مسائل شامل ہیں۔اگر ہم غور کریں تو عمران کے چار سالہ دور حکومت میں مہنگائی، پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر اور جنوبی ایشاءمیں سب سے زیادہ رہی ۔اس وقت وطن عزیز کے 41 فیصد یعنی 10 کروڑ عوام غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں ۔جو حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 7 کروڑ ہے وہ غلط ہے۔ ادویات ،خوراک اور روزمرہ استعمال کی قیمتوں میں بے تحا شا اضافہ ہوا ہے جو عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہے۔ موجودہ حکومت کی پہلی ترجیح مہنگائی کو ہر لحا ظ سے کم کرنا تھا ۔ پنشنرز حضرات کی پنشن میں اضافہ کیا گیا مگر آئندہ بجٹ میں اسمیں بڑھوتری کےلئے ضرور اقدامات کرنا چاہئیں کیونکہ پی ٹی آئی حکومت نے سروس مین پنشنرز حضرات کے مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔عام لوگوں کو روزمرہ استعمال کی اشیاءکو کم قیمت پر لانے کےلئے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ اس وقت صنعت کاروں کی کثیر تعداد شہباز حکومت کے ساتھ ہے۔ لہٰذا انکو ترغیب دے کر مختلف اشیاءکے ریٹس کم کرکے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے میں کوشش کی جاسکتی ہے۔دوسرا اہم مسئلہ پی ٹی آئی حکومت سٹیٹ بینک خود مختاری کا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے اوپر آئی ایم ایف کی طرف سے اتنا دباﺅ ہے کہ سٹیٹ بینک کا گورنر بھی اپنی مرضی سے نہیں لگا سکتے۔ جیسا کہ عمران خان دور میں رضاباقر کو آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان پر مسلط کیا گیا اور ماضی میں بھی سٹیٹ بینک گورنرز ہمارے اوپر مسلط کئے جاتے رہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے 3 سال اور 7 مہینے کے دور میں ڈالر کا ریٹ 110 سے 180 روپے تک پہنچ گیا۔ لہٰذاءضرورت اس امر کی ہے کہ سٹیٹ بینک کی خود مختاری کےلئے جو قانون سازی کی گئی ہے انکو واپس لیا جائے تاکہ ڈالر اور روپے کی شرح میں تفاوت مناسب سطح پر لایا جائے۔ تیسرا بڑا مسئلہ ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا حصول ہے نواز شریف کے 2018میں حکومت چھوڑنے کے وقت پاکستان کا کل قرضہ 30 ہزار ارب روپے تھا جو عمران خان کے ساڑھے تین سال حکومت میں 51 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جو پاکستان کے گزشتہ 70سالہ قرضے کے برابر ہے۔ شہباز شریف کو چاہئے کہ پاکستان بننے کے بعد جتنے قرضے لئے گئے ہیں انکا آڈٹ کیا جائے۔ اس طر ح عمران خان کے دور حکومت میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی جو قدر کم ہوگئی ہے انکا آڈ ٹ کیا جائے کہ آخر یہ کس وجہ ہوا ۔ علاوہ ازیں ڈالر اور روپے قدر کے تقابلی جائزے کا طریقہ کار عوام کو بتایا جائے۔ ایک اور مسئلہ گیس لوڈ شیڈنگ ہے حکومت کو چاہئے کہ ایران، ترکمانستان اور روس کے ساتھ جو گیس پائپ لائن کے منصوبے ماضی میں امریکہ دباﺅ کی وجہ سے ادھورے چھوڑے گئے تھے ۔ انکو دوبارہ شروع کرنا چاہئے تاکہ بجلی اور گیس لوڈ شیڈنگ پر قابو پالیاجائے ۔ مزید برآں شمسی توانائی کے فروع کے لئے متوسط آمدنی والے لوگوں آسان شرائط پر قرضے دینے چاہئے۔چھٹا مسئلہ انصاف کی فراہمی میں حائل رکاوٹیں ہیں ۔ جس سے ہر دور کے حکمرانوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے دیوانی کیس کیس کے لئے صارف کو 10 اور 20 سال تک درکار ہوتے ہیں۔ سپریم کو رٹ نے اس کے لئے طریقہ کار بنایا ہوا ہے اور اس میں بڑے سے بڑے دیوانی کیس اور فوجداری کیس کےلئے ٹائم فریم ایک سال ہے ۔ لہٰذاءسپریم کورٹ نے افتخار چو دھری دور میں اسکے لئے جو پالیسی بنائی ہے اسکو من وعن نافذ ہونا چاہئے۔ ایک اور مسئلہ زراعت ہے۔ پاکستان میں 75 لوگ زراعت سے وابستہ ہیں مگر بد قسمتی سے زراعت کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک کیا جاتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کاشتکاروں کو بیج ، کیڑے مار ادویات، کھاد اور ٹیوب ویل کے بل کم سے کم کرنا چاہئے۔ تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہو سکیں ۔ ایکسپورٹ کو بڑھانے کےلئے بنگلہ دیش کی طرح ایس ایم ای قرضے دے کر ایکسپورٹ کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ ملکی ترقی کے لئے حکومت کو کنسٹرکشن انڈسٹری کو فروع دینے کےلئے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ اس وقت سیمنٹ، سریا، لکڑی اور کنسٹرکشن کی دوسری ضروری اشیاءکی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔لہٰذا سیمنٹ، سریا، بجری اور کنسٹرکشن میٹیریل ریٹس کو کم کرنا چاہئے تاکہ صنعت سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ ہوں۔ملک کے اقتصادی مسائل حل کرنے کا سمندر پار پاکستانیوں کا ہے ۔ اس وقت 90 لاکھ پاکستانی وطن عزیز کو 25 ارب سے 30 ارب روپے سالانہ بھیج رہے ہیں ۔ لہٰذاءبیرون ملک انجینئرز، ڈاکٹر اور ٹیکنیشنز بھیجنا چاہئے تاکہ وطن عزیز کو زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ بھیجا جاسکے۔پی ٹی آئی حکومت نے انصاف کارڈ کا جو نظام شروع کیا ہے اسکو جاری رکھنا چاہئے ۔ مگرجوہسپتالوں کو خیبر پختون خواکو ایم ٹی آئی کا درجہ دیا گیا ہے وہ قانو نسازی واپس لینی چاہئے۔ تاکہ غریب بغیر کسی مشکل اور خرچ کے سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ حا صل کر سکیں۔ لنگر کانوں کو جو آئیڈیا ہے انکو بھی جاری رکھنا چاہئے کیونکہ اس سے کم آمدن والے غریب لوگ استفادہ حاصل کر سکیں گے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے